لیکچر 2 – ثابِتہ اَعیان جوَیّہ

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=47436

ثابِتہ اَعیان جوَیّہ

یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ جس طرح بیداری میں کئے ہوئے اعمال اور بیداری میں سرزد ہونے والی حرکات انسانی زندگی سے براہِ راست تعلق رکھتی ہیں۔ اس ہی طرح خواب میں کئے ہوئے اعمال اور خواب میں سرزد ہونے والی حرکات کا تعلق بھی انسانی زندگی سے ہے۔ یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ نیند کی حالت میں کئے ہوئے اعمال سب کے سب حقیقی نہیں ہوتے اور خواب میں کئے ہوئے تمام اعمال کا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بیداری میں کئے ہوئے اعمال و حرکات کا تاثر اسی وقت قائم ہوتا ہے جب آدمی ان اعمال کی طرف متوجہ ہو۔ یعنی ذہنی طور پر کسی عمل یا حرکت کو قبول کر لینے کے بعد اس کا تاثر قائم ہوتا ہے۔
بیداری کے اعمال و واقعات اور خواب کے اعمال و واقعات کو سامنے رکھ کر دونوں کا موازنہ کیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ اگر ہم بیداری میں کسی چیز کی طرف یا کسی کام کی طرف متوجہ ہیں تو وہ چیز ہمارے لئے خیال میں رہتی ہے۔ لیکن اگر اس چیز کی طرف متوجہ نہیں ہیں تو بیداری میں کیا ہُوا عمل بھی خیال سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
یہ بات روزمرہ کے معاملات میں شامل ہے کہ ہم معاش کے حصول کے لئے گھر سے دفتر جاتے ہیں۔ گھر سے نکلنے کے بعد بس میں بیٹھتے ہیں۔ کنڈیکٹر سے ٹکٹ خریدتے ہیں اور پیسے بھی دیتے ہیں۔ اس سے بات بھی ہوتی ہے اور بس میں

سفر کر کے یعنی مختلف بازاروں سے گزر کر دفتر پہنچ جاتے ہیں۔ دفتر پہنچنے کے بعد اگر کوئی آدمی یہ سوال کرے کہ کنڈیکٹر کی کیا شکل وصورت تھی۔ اور راستے سے گزرتے وقت آپ نے کیا کیا دیکھا تو اس کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی کہ آدمی یہ کہے کہ میں نے توجہ نہیں کی۔ باوجودیکہ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ وہ بس میں بیٹھا ہوا یہ دیکھ رہا ہے کہ سڑک کے دونوں طرف دکانیں ہیں، راستے میں چوراہے ہیں اور طرح طرح کے بورڈ آویزاں ہیں لیکن چونکہ اس کی ذہنی مرکزیت صرف اور صرف دفتر ہے۔ اس لئے اسے کوئی چیز یاد نہیں رہتی۔ اس کے برعکس ایک آدمی بس میں بیٹھتا ہے اور اپنی توجہ اس بات پر مرکوز رکھتا ہے کہ راستے میں کیا کیا چیزیں موجود ہیں اور کس قسم کے حالات پیش آ رہے ہیں، ایسا مسافر دفتر پہنچنے کے بعد کافی وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیتا ہے کہ راستے میں فلاں فلاں چیزیں میں نے دیکھی ہیں۔
تفصیل بیان کرنے سے منشاء یہ ہے کہ وہ خواب ہو یا بیداری اگر آدمی حالات و واقعات کی طرف متوجہ ہے تو حافظہ اسے محفوظ کر لیتا ہے ورنہ سب باتیں حذف ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کتنی ہی مرتبہ خواب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور کتنی ہی مرتبہ بیداری میں کئے ہوئے اعمال و حرکات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
روحانی نقطۂ نظر سے اور آسمانی صحائف کی روشنی میں انسانی زندگی دو رخوں پر قائم ہے۔
• ایک رخ بیداری اور
• دوسرا رخ خواب
انسان آدھی زندگی خواب میں گزارتا ہے…. اور آدھی زندگی بیداری کی کیفیت میں بسر کرتا ہے۔
بیداری اور خواب کا موازنہ کرنے کے بعد بیداری میں کئے ہوئے اعمال و حرکات کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے۔
خواب میں جو سفر ہوتا ہے اس میںTime & Spaceنہیں ہوتا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لئے کسی سواری یا ٹائم گزارنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اس کے برعکس بیداری میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لئے سواری کی ضرورت پیش آتی ہے اور وقت کا صَرف ہونا بھی لازم ہے۔ گہرائی میں تفکر کیا جائے تو خواب کی زندگی میں کئے ہوئے اعمال و حرکات بھی اسی طرح سرزد ہوتے ہیں جس طرح بیداری میں سرزد ہوتے ہیں یعنی:
• کسی کام کو کرنے کے لئے پہلے اس کام کو کرنے کا خیال آتا ہے…. پھر
• اس خیال میں رنگینی پیدا ہوتی ہے اور یہ رنگینی تصوّر بن جاتا ہے اور
• تصوّر اپنی رعنائیوں کے ساتھ مظہر بن جاتا ہے
مثلاً ایک آدمی مضمون لکھنے بیٹھتا ہے۔ جس وقت مضمون لکھنے بیٹھتا ہے اس کے ذہن میں نہ مضمون کے اجزائے ترتیبی ہوتے ہیں اور نہ تفصیل۔ مگر جس وقت وہ لکھنا شروع کرتا ہے تو خود بخود ذہن میں الفاظ بننے لگتے ہیں اور مفہوم لفظوں کی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ اب تین صورتیں ہیں:
• ایک یہ کہ مضمون کہیں موجود ہے….
• دوسری صورت یہ ہے کہ مضمون جس مفہوم میں موجود تھا اس نے لفظوں کی صورت اختیار کر لی…. اور
• تیسری صورت یہ ہے کہ لفظ کاغذ کے اوپر مظہر بن گئے۔
روحانی نقطۂ نظر سے:
• وہ مقام جہاں مضمون مفہوم کے ساتھ موجود تھا تَحتَ الشّعور ہے…. اور
• جب مفہوم الفاظ کی شکل میں منتقل ہو گیا تو لاشعور ہے…. اور
• یہی مفہوم جب عبارت بن کر کاغذ کے اوپر نقش ہو گیا تو شعور ہے
روحانی زبان میں:
• تَحتَ الشّعور کو ثابِتہ
• لاشعور کو اَعیان…. اور
• شعور کو جوَیّہ کہتے ہیں
مضمون نگار کی مثال سے ہمیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ مضمون کاغذ پر نقش ہونے سے پہلے کہیں موجود تھا۔ اس طرح موجود تھا کہ ہم اس سے واقف نہیں تھے لیکن جب ہم نے خود کو تیار کر کے اس مفہوم کی طرف توجہ مرکوز کی تو مفہوم واضح ہو گیا۔ واضح ہونے سے مراد یہ ہے کہ مفہوم حافظہ کی سطح پر ابھر آیا اور ہم نے ہاتھ اور قلم کا سہارا لے کر حافظے پر موجود ان نقوش کو کاغذ پر منتقل کر دیا۔ حقیقت یہ منکشف ہوئی کہ انسان کا ذہن پہلے سے مضمون اور مفہوم سے رُوشناس تھا مضمون اور مفہوم سے رُوشناسی اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کائنات کی ہر چیز سے رُوشناس ہے۔ بات اتنی سی ہے کہ کچھ چیزوں کو وہ جانتا ہے خواہ وہ دیکھنے کی وجہ سے جانتا ہو یا سننے کی وجہ سے جانتا ہو اور کچھ چیزوں کو وہ نہیں جانتا لیکن وہ تمام چیزیں کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ ذہن انسانی اس بات سے آگاہ ہے کہ سننے کے عمل کے ساتھ یا دیکھنے کے عمل کے ساتھ کچھ چیزوں سے وہ واقف ہو جاتا ہے اور جن چیزوں سے وہ واقف نہیں ہے ان چیزوں سے واقفیت پیدا کرنے کا تجسّس اس کے اندر موجود ہے۔ یہی وہ تجسّس ہے جو مادی اور روحانی صلاحیتوں کو ہمارے اوپر منکشف کرتا ہے۔ تجسّس کی اس رُوشناسی سے ہم جس حد تک واقف ہو جاتے ہیں اسی مناسبت سے ہمارے اندر صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور ہم نئی نئی چیزیں اختراع کرنے پر قدرت حاصل کر لیتے ہیں۔ روحانی طرزوں میں یہ صلاحیتیں اس قدر وسعت اختیار کر لیتی ہیں کہ کائنات ایک آئینہ کی طرح ہمارے سامنے آ جاتی ہے اور ہم اس بات سے واقف ہو جاتے ہیں کہ:
کائنات میں پہلے کیا تھا؟
اب کیا ہے؟ اور
آئندہ کیا ہو گا؟
دراصل تجسّس ہی ایک ایسی حرکت ہے جس کے ذریعے کوئی انسان علوم میں ترقی کر کے مہارت حاصل کر سکتا ہے۔

رُؤیا کی صلاحیتیں

پچھلے لیکچرز میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کے اندر زندگی سے متعلق…. خواہ وہ زندگی زمان اور مکان میں پابند زندگی ہو…. یا ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد زندگی ہو…. خیالات کے اوپر قائم ہے اور ہر خیال علم کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے فلم کی مثال کافی حد تک وضاحت کرتی ہے۔
پروجیکٹر سے لہریں چلتی ہیں جو محسوس بھی ہوتی ہیں اور نظر بھی آتی ہیں لیکن ان لہروں کے بارے میں ہمارے ذہن میں کوئی معنی پیدا نہیں ہوتے۔ سینما میں بیٹھے ہوئے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پشت کی جانب سے روشنیوں، لہروں یا شعاعوں کی ایک دھار چلی آ رہی ہے اور یہ لہریں یا شعاعیں پردے پر جا کر ٹکرا رہی ہیں۔
o جب یہ لہریں یا شعاعیں پردے پر جا کر ٹکراتی ہیں تو وہاں ہمیں مختلف صورتیں، مختلف شکلیں اور مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ ہم ان لہروں کو خیال سے تشبیہ دے سکتے ہیں…. اور
o لہروں کے ٹکرانے کے عمل کو علم سے منسوب کر سکتے ہیں۔
o پردے یا اسکرین سے لہروں کے ٹکرانے کے بعد جو صورتیں اور جو رنگ جلوہ گر ہوتے ہیں انہیں معنی و مفہوم کہہ سکتے ہیں۔
اس مثال سے علم میں یہ اضافہ ہوتا ہے کہ خیال جب تک کسی اسکرین پر ٹکرا کر اپنا مظاہرہ نہ کرے اس وقت تک خیال علم و معنی کا جامہ نہیں پہنتا۔
خیال کو مظہر بننے کے لئے تین دائروں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ ان تین دائروں کے نام…. ثابِتہ…. اَعیان اور …. جوَیّہ ہے۔
① ثابِتہ کا اِصطلاحی نام روحِ اعظم
② اَعیان کا اِصطلاحی نام روحِ انسانی، اور
③ جوَیّہ کا اِصطلاحی نام روحِ حیوانی ہے۔
کوئی علم ان تین دائروں سے گزرے بغیر علم نہیں بنتا۔
جب سالک ان تین دائروں کے اندر داخل ہو جاتا ہے تو اس کے اندر روح کی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور جس جس مناسبت سے یہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں اسی مناسبت سے وسعت بڑھتی جاتی ہے۔ اندر کی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے اور جس جس مقام پر سفر کرتی ہے حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اس کو چھ (۶) حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا حصّہ کشفُ الجُو ہے۔
کشف الجُو ایسی صلاحیت ہے جب بیدار ہو جاتی ہے تو سالک کو اس بات کا شعور حاصل ہو جاتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی نسبت حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ نسبت حاصل ہونا نسبتِ وحدت ہے۔
نسبت کے معنی یہ ہیں کہ سالک کو ایک مخصوص طرز فکر حاصل ہو جائے…. مثلاً بندہ یہ جان لے، سمجھ لے اور اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ میں مخلوق ہوں اور میرا خالق اللہ ہے۔
نسبتوں کی بہت سی قسمیں ہیں۔ علمائے باطن نے اٹھارہ نسبتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ نسبت عشق، نسبت سُکینہ، نسبت مطمئنہ وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت ہمارے پیش نظر نسبتِ وحدت ہے۔
جب انسان کو اس بات کایقین حاصل ہو جاتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہوں اور اس ذات کے علاوہ دوسری کوئی ذات خالق نہیں ہے تو اس کے ذہن میں پوری کائنات کا ایک تصوّر ابھرتا ہے۔ باالفاظ دیگر نسبتِ وحدت کے تحت خالقِ کائنات اور تخلیق کا نظام اس کے ذہن پر منعکس ہونے لگتا ہے۔
جب کائنات کا اجتماعی نظام۔۔۔ذہن کے اوپر منعکس ہوتا ہے تو تفکر اس طرف رہنمائی کرتا ہے کہ کوئی بِساط ہے جہاں پوری مخلوقات موجود ہیں اور تخلیقِ کائنات کا پورا پروگرام نقش ہے۔ اس کے بعد یہ بات علم میں آ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے اور ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اللہ تعالیٰ کا کُنبہ ہے۔ یہی وہ یقین ہے جس کی بناء پر انسان چاند ستاروں اور اپنی زمین سے الگ ماحول اور زمین کے اوپر موجود دوسری مخلوقات سے متعارف ہوتا ہے۔
جب ہم آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو ہمیں بے شمار ستارے نظر آتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ستارے نظر آتے ہیں بلکہ ہمارے حواس ستاروں کی روشنی کو ان کی ٹھنڈک کو اور ان کی چمک کو اور اس ماحول کو جس میں ستارے جگمگ کر رہے ہیں محوتس کر لیتے ہیں۔ جب ہم ستاروں کو دیکھتے ہیں تو یہ بات ہمارے لاشعور میں آ جاتی ہے کہ ستارے کہیں قائم ہیں اور کسی بِساط پر مخصوص نظام کے تحت گردش کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی نگاہ اپنے ماحول کے باہر کی چیزوں کو دیکھ سکتی ہے اور دیکھنے کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر کام کرنے والی حِس ان چیزوں کے تاثرات کو محسوس کرتی ہے۔
مثلاً جب ہم چاند کو دیکھتے ہیں تو ہمارا دماغ چاند کی ٹھنڈک کو محسوس کرتا ہے، جب ہم سورج کو دیکھتے ہیں تو ہمارا دماغ سورج کی تپش کو محسوس کرتا ہے۔
o چاند کی روشنی اور سورج کی روشنی کو دیکھنا…. آنکھ کا دیکھنا ہے ….اور
o چاند و سورج کے تاثرات کو قبول کرنا حِس کا پہچاننا ہے….
چاند سورج کیا ہے؟
اس بارے میں ہمیں صرف اتنا علم ہے کہ یہ چاند ہے…. یہ سورج ہے۔ ایسی کوئی یقینی بات ہمارے علم میں نہیں ہے کہ سورج کو روشنی کہاں سے ملتی ہے اور چاند کی روشنی کا مَنبع اور مَخزن کیا ہے؟ اس بات کو آسان الفاظ میں اس طرح کہیں گے کہ انسان کی نگاہ تمام اَجرامِ سماوی کو دیکھتی ہے اور زمین کے اوپر مختلف نَوعوں اور مختلف مخلوقات کو بھی دیکھتی ہے۔
انسانی آنکھ…. جو نگاہ کا تصوّر دے رہی ہے…. کائنات کو دیکھتی ہے۔
کائنات کا دیکھنا دو طرزوں میں ہے:
o ایک کائنات کو صرف دیکھنا
o دوسری طرز یہ ہے کہ کائنات کی ماہیت سے واقف ہونا…. یہ معلوم کرنا کہ کائنات کن فارمولوں سے مرکب ہے….
کائنات کو دیکھنا یا مظاہر کو دیکھنا شعوری دائرہ کار میں آتا ہے ….
کائنات کے باطن کو دیکھنا یعنی کائنات کن فارمولوں پر قائم ہے…. لاشعور میں دیکھنا ہے۔
انسان کا لاشعور اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے کہ کائنات کے ہر ذرّہ کی شکل و صورت، حرکات اور باطنی حسّیات کیا ہیں؟ یہ علم شعور میں اس لئے نہیں آتا کہ انسانی شعور کو اپنے لاشعور کا مطالعہ کرنا نہیں آتا۔ اگر ہمارے اندر لاشعور کو مطالعہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے تو پھر کائنات کے ہر ذرّہ کی شکل و صورت، حرکات اور باطنی حسّیات کا مطالعہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ کائنات کی باطنی حسّیات کو مطالعہ کرنے کی صلاحیتوں میں پہلی صلاحیت کا نام “کشف الجُو” ہے۔
مضمون نگار کی مثال دی جا چکی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مضمون نگار جب

مضمون لکھنے بیٹھتا ہے تو:
o مضمون کا مفہوم پہلے مضمون نگار کے لاشعور میں موجود تھا…. وہاں سے منتقل ہو کر ذہن تک پہنچا ….اور
o جب شعور لاشعور میں موجود مضمون کی طرف متوجہ ہُوا…. تو مضمون الفاظ کی شکل اختیار کر کے کاغذ پر منتقل ہو گیا
روحانی نقطۂ نگاہ سے مضمون کا موجود ہونا زمان اور مکان میں قید نہیں ہے۔ لاشعور میں مضمون پہلے سے موجود تھا خواہ وہ ہزاروں سال پہلے لکھا جا چکا ہو یا ہزاروں سال بعد لکھا جانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے “کُن” کہا تو ازل سے ابد تک جو کچھ جس جس ترتیب کے ساتھ وقوع میں آنا تھا وقوع میں آ گیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ذہن میں کائنات سے متعلق جو پروگرام تھا…. اُس پروگرام سے متعلق جو فارمولے تھے…. اَجزائے ترکیبی تھے…. اُن اَجزائے ترکیبی میں ماضی حال مستقبل جس طرح موجود تھے…. ‘‘کُن’’ کہتے ہی…. وُجود میں آ گئے۔
‘‘کُن’’ کہنے کے بعد…. کسی زمانے میں بھی…. لاکھوں سال پہلے یا لاکھوں سال بعد…. جو چیز بھی مظاہرے میں آئے گی…. وہ اس کُن کا مظہر ہو گی جو کُن کے بعد وُجود میں آ چکا ہے۔ یعنی کائنات میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہو سکتی جو پہلے سے اپنا وُجود نہ رکھتی ہو۔
نسبتِ وحدت کے تحت ایک طرز فکر کا بیان ہُوا کہ…. جس کسی بندے کے یقین میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ ہم مخلوق ہیں اور ہمارا بنانے والا اللہ ہے، ایسا اللہ جو یکتا ہے اور اس کا کوئی ہم عصر نہیں ہے…. تو یقین راسخ ہو جاتا ہے کہ جو کچھ ہو چکا ہے جو کچھ موجود ہے یا جو کچھ آئندہ ہو گا وہ سب کُن کے بعد کا مظاہرہ ہے۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:
جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا ھُوَا کَائِنٗ ۞
ترجمہ: قلم لکھ کر خشک ہو گیا۔
(کتاب: المَعجَم الكَبير، مُؤلِّف: سليمان بن أحمد بن أيّوب الطِّبراني – روایت رقم 11394)
نسبتِ وحدت جب گہری ہو جاتی ہے تو دوسری بات ہمارے اوپر منکشف یہ ہوتی ہے کہ….
کسی بات کو صحیح سمجھنے کے لئے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے لئے…. انسان کا غیر جانب دار ہونا ضروری ہے۔ اگر غیر جانب دار (Neutral) ذہن نہیں ہو گا تو معنی پہنانے میں مصلحتیں شامل ہو جائیں گی۔
ہر شخص کو دو طرز فکر حاصل ہیں یا ایک ہی طرز فکر کے دو زاویئے حاصل ہیں۔
ایک زاویہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات سے الگ ہو کر سوچتا ہے…. اور
دوسرا زاویہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات کو سامنے رکھ کر غور و فکر کرتا ہے۔
o جو بندہ اپنی ذات کو سامنے رکھ کر تجسّس کرتا ہے یا کسی مسئلہ کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کے اوپر حقائق منکشف نہیں ہوتے…. اور
o جو بندہ اپنی ذات سے ماوراء ہو کر یعنی غیر جانبدار ہو کر کسی مسئلہ کی حقیقت کو تلاش کرتا ہے تو اس کے اوپر حقائق منکشف ہو جاتے ہیں۔
نسبتِ وحدت کے تحت دنیا میں موجود ہر فرد کو یہ صلاحیت وَدیعت کی گئی ہے تا کہ کوئی فرد کوئی گروہ کوئی طبقہ کوئی قوم اور کسی بھی مذہب وملّت کا آدمی معاملات کی تفہیم اور صحیح فیصلوں سے اِستفادہ کر سکے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 18 تا 28

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)