لیکچر 18 – تصرف اور علمِ شئے

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49825

تصرف اور علمِ شئے

جب تک کسی شئے کا علم وُجود نہیں بنتا اس وقت تک شئے مظہر نہیں بنتی۔
ہم سب کو معلوم ہے کہ کائنات اللہ تعالیٰ کا ذاتی علم اور وصف ہے۔ جب اللہ نے کائنات کو بنانا چاہا تو کائنات کے خدوخال حرکات و سکنات نقش و نگار اور کائنات کو زندہ رکھنے کے لئے وسائل کی فراہمی یہ سب اللہ تعالیٰ کے ذہن میں پہلے سے موجود تھا۔ کائنات اور کائنات کے تمام اجزائے ترکیبی پہلے سے اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھے اور اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجودگی اللہ تعالیٰ کا علم ہے۔

کائنات پہلے علم ہے پھر شئے ہے۔

علمِ شئے چونکہ اللہ کا براہِ راست ذاتی علم ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے علم کو دوام حاصل ہے۔ شئے چونکہ علم کے بعد کی مظاہراتی شکل و صورت ہے اس لئے اس کو فنا ہے۔ شئے کی تخلیق میں یہ بات مخفی ہے کہ شئے ہر آن گھٹتی ہے اور ہر آن بڑھتی ہے۔ گھٹنے بڑھنے کا عمل بالآخر فنا ہے۔
• اللہ کا علم تجلّی ہے۔
• تجلّی تنزّل کرتی ہے تو نور بن جاتی ہے …. اور
• نور تنزّل کرتا ہے تو روشنی بن جاتی ہے ….
مظہر تجلّی اور نور سے تخلیق ہوتا ہے تجلّی اور نور میں گم ہو جاتا ہے۔
تصوف میں ایک اِصطلاح ’’تصرف‘‘ ہے۔ تصرّف یہ ہے کہ کسی شئے کے خدوخال میں تبدیلی واقع ہوجائے۔ تصرّف یہ بھی ہے کہ انسانی خیالات ارادے اور اختیار کو تصرّف کے تابع کر دیا جائے۔
تصرّف علمِ شئے میں ہوتا ہے…. شئے میں نہیں ہوتا ….
باریک بین نظر سے دیکھا جائے تو کہا جائے گا کہ ساری کائنات اللہ کا تصرّف ہے۔ یعنی اللہ کے ذہن میں جس طرح علمِ شئے تھا اللہ تعالیٰ نے اس علم میں تصرّف کر کے کائنات کو وُجود بخش دیا۔
روحانی انسان اسی قانون کے تحت علمِ شئے میں تصرّف کرتا ہے۔
تصرف کی تین قسمیں ہیں:
1. معجزہ
2. کرامت ….اور
3. اِستدراج

اِستدراج وہ علم ہے جو اَعراف کی بری روحوں یا شیطان پرست جنات کے زیر سایہ کسی آدمی میں مخصوص حالات کی بناء پر پرورش پاتا ہے …. یعنی شیطان صفَت لوگ، اُن کا تعلق اَعراف کی روحوں سے ہو یا ان کا تعلق شیطانوں سے ہو …. ایسے آدمی کو اپنا شکار کر لیتی ہیں جو ذہنی طور پر یکسو رہتا ہے یا اسے قدرتی طور پر یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ یہ شیطانی طاقتیں اس کی روح میں یعنی علمِ شئے میں تصرّف کر کے اپنا ہم خیال بنا لیتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اور شیطانی گروہ میں تصرّف اور تصرّف کا عمل دخل ہے۔

جس طرح ایک روحانی انسان کے تصرّف سے شئے پر براہِ راست اثر پڑتا ہے اسی طرح بری روح یا شیطان کے تصرّف سے بھی شئے پر اثر مُرتّب ہوتا ہے جس طرح ایک روحانی انسان فرشتوں کی حرکات و سکنات کو دیکھ سکتا ہے۔ اسی طرح شیطانی گروہ سے تعلق رکھنے والا بندہ بھی ملائکہ کی حرکات و سکنات کو دیکھ سکتا ہے۔
اس کی مثال سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے زمانے میں ملتی ہے۔
۱۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے زمانے میں ابنِ صیّاد نام کا ایک لڑکا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام جب اس لڑکے کے قریب تشریف لے گئے اور اس سے گفتگو کے بعد جو کچھ ارشاد فرمایا اس کا لُبِّ لُباب ہے کہ یہ لڑکا فرشتوں کی حرکات و سکنات دیکھتا تھا اور فرشتوں کی حرکات و سکنات سے واقف بھی تھا لیکن اس کا علم ناقص تھا۔
۲۔ صاحبِ اِستدراج کو جو علم حاصل ہوتا ہے (اس کا تعلق چاہے آسمانی دنیا سے ہو) اس میں شک ہوتا ہے۔
۳۔ ابنِ صیّاد فرشتوں کی سرگرمیوں کو دیکھتا تھا، فرشتوں کی آوازیں بھی سنتا تھا لیکن اس کا علم محدود تھا۔ اس واقعہ میں ہمیں بہت بڑا سبق ملتا ہے۔
ہمارے علماء اور بڑے بڑے دانشور یہ کہتے ہیں کہ کوئی انسان علمِ غیب نہیں سیکھ سکتا۔ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کا دیدار کر کے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام نہیں ہو سکتا، فرشتوں سے بات نہیں کر سکتا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب شیطان کے گروہ کا ایک بندہ ملائکہ کی سرگرمیاں دیکھ سکتا ہے، ملائکہ کی آوازیں سن سکتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں علم رکھتا ہے (وہ علم ناقص ہی سہی)۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی رسالت کا تذکرہ کرتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک خدا پرست بندہ آسمانی دنیا میں داخل نہ ہو اور فرشتوں سے متعارف نہ ہو سکے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام حضرت عمرؓ کے ساتھ ابنِ صیّاد کے پاس تشریف لے گئے اس سے گفتگو فرمائی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے یہ نہیں فرمایا کہ اس کو غیب بینی کا علم حاصل نہیں ہے۔ بلکہ یہ فرمایا کہ اس کا علم ناقص ہے۔ جب ابنِ صیّاد نے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بتایا تو آپﷺ نے فرمایا: تُو شک میں پڑ گیا۔
علمِ اِستدراج کی حیثیت تو مُسلّم ہے لیکن اس علم میں شکوک و شبہات کا دخل ہے اور اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔

 

اِستدراج
اِستدراج کے برعکس جب انسان غیب کی دنیا میں داخل ہوتا ہے فرشتوں کی Activitiesدیکھتا ہے تو اس کا علم ناقص نہیں ہوتا اور نہ اس کے علم میں شکوک و شبہات دَر آتے ہیں اور جیسے جیسے ترقی کرتا ہے اس کا محدود علم لامحدود ہوتا رہتا ہے۔

غیب کی دنیا میں لفظ اور معنی کوئی چیز نہیں۔ ہر لفظ ایک شکل رکھتا ہے۔ خواہ ہو وہم ہی کیوں نہ ہو۔ وہم ہو، خیال ہو، احساس ہو، کائنات میں ہر شئے کی شکل و صورت ہوتی ہے۔ شکل و صورت کے ساتھ ساتھ اس کے اندر توازن ہوتا ہے۔ وہ چیز نظر آئے یا نہ آئے، اس کے اندر خدوخال ہوتے ہیں۔ ہر آدمی دیکھتا ہے کہ وہم کا مریض تقریباً زندگی سے کٹ جاتا ہے اور وہم کی طاقت سے اس کا دماغ بکھر جاتا ہے زندگی ایک نقطے پر رک جاتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ معاشرے میں عضوِ معطل بن کر زندگی گزارتا ہے۔

وہم میں شکل و صورت، وزن اور طاقت نہ ہو تو کوئی آدمی وہم میں مبتلا ہو کر مریض نہیں بن سکتا۔ ہوا ایک شئے ہے جو آنکھوں سے نظر نہیں آتی لیکن جب ہوا کے جھکڑ چلتے ہیں تو اس کی طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اگر ہوا کی شکل و صورت نہیں ہے، ہوا میں خدوخال نہیں ہیں، ہوا میں طاقت نہیں ہے تو طوفانی ہواؤں سے بڑی بڑی بستیاں نیست و نابود کس طرح ہو جاتی ہیں؟

ہر فرد جانتا ہے کہ جب ہوا تیز چلتی ہے تو انسان کے جسم پر ہوا کے اثرات براہِ راست مُرتّب ہوتے ہیں۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی چیز جسم سے ٹکرا کر گزر رہی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شئے نظر آتی ہو یا نظر نہ آتی ہو اس کی شکل وصورت ہے اس میں وزن ہوتا ہے، اس میں طاقت ہوتی ہے، اسی طاقت سے آدمی اور دوسری مخلوق متاثر ہوتی ہے۔ اگر انسان کوشش کرے یا ایسے حالات اس کے ساتھ پیش آ جائیں جن حالات کی بناء پر وہ یکسو ہو جائے تو اس کے اندر چھٹی حِس بیدار ہو جاتی ہے۔

انسان کے اندر پانچ حواس کے علاوہ بے شمار حواس کام کرتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ پانچ حواسوں میں ہر حواس بے شمار حِسوں سے مرکب ہے۔ اگر ان کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو انسانی زندگی کے اندر وہ زندگی جسمانی ہو، روحانی ہو، برزخ کی زندگی ہو یا اَعراف کی زندگی، جتنی حِسیں کام کرتی ہیں ان کی تعداد کم و بیش ساڑھے گیارہ ہزار ہے۔ چھٹی حِس مادی آنکھ کی طرح ہر چیز کو دیکھتی ہے۔ چھٹی حِس سے دیکھنے کے عمل کو ’’غیب بینی‘‘ کہتے ہیں۔

عبرانی زبان میں نبی غیب بین کو اور رسول غیب کے قاصد کو کہتے ہیں۔
ابنِ صیّاد حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو اسی لئے نہیں سمجھ سکا کہ اسے روحانی طرزوں میں معرفت الٰہی حاصل نہیں تھی۔
اِستدراج کا علم اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے۔ اِستدراج کے علم میں چونکہ شک و شبہات ہوتے ہیں اس لئے یہ علم ناقص اور محدود ہے۔ اِستدراج اور علمِ نبوت میں یہی فرق ہے کہ علمِ نبوت کے راستے پر چلنے والا سالک اور منزل رسیدہ عارف غیب بینی کی حدود سے نکل کر اللہ کی معرفت تک پہنچ جاتا ہے۔ علمِ نبوت سے فیض یافتہ بندے کے اندر شکوک و شبہات باقی نہیں رہتے اور یہ علم، ناقص علم میں نہیں ہوتا۔
علمِ نبوت لا محدود ہے، جبکہ اِستدراج محدود ہوتا ہے۔ چونکہ علم محدود ہوتا ہے بے یقینی اور وسوسے اس میں شامل ہوتے ہیں اس لئے یہ علم، شیطانی علم ہے۔ اِس علم کے زیر اثر جو خرقِ عادت صادِر ہوتی ہے اس کو اِستدراج کہتے ہیں۔

علم روحانیت میں کسی ایسے بندے سے خرقِ عادت صادِر ہو، جو اللہ کا پیامبر ہے اور اللہ کا نبی ہے تو اس کو معجزہ کہتے ہیں۔
ایسے روحانی بندے سے جو انبیاء کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتا ہے اور نبیوں کی روحوں سے اس کا تعلق قائم رہتا ہے ملائکہ اور انبیاء کی ارواح اس کی روح کے اندر تصرّف کرتی ہیں، اگر خرقِ عادت صادِر ہوتی ہے تو اسے کرامت کہتے ہیں۔
اِستدراج کے زیر اثر جو تصرّف کیا جاتا ہے اس کا اثر عارضی اور غیر مستقل ہوتا ہے۔ اتنا عارضی اور غیر مستقل کہ فضا کے ردّ و بدل سے خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔

اگر کسی آدمی پر جادو، سفلی (اِستدراج) کا اثر ہو جائے اور وہ پانی پر سے گزر کر ایک مقام سے دوسرے مقام پر چلا جائے تو جادو کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس علمِ حق یا انبیاء کے علم کے تحت تصرّف کا اثر مستقل ہوتا ہے۔ جب تک صاحبِ تصرّف اثرات کو خود ختم نہ کرے تصرّف کے اثرات قائم رہتے ہیں۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا فرمان ہے کہ بیعت کرنے سے پہلے اچھی طرح دیکھ بھال کر لو۔ یہ بھی فرمایا ہے کہ آدمی بیعت کر کے بیعت توڑ نہیں سکتا۔
بیعت کے سلسلے میں یہ قانون فکر طلب ہے کہ سالک بیعت کر کے از خود آزاد نہیں ہو سکتا۔
روحانی بندہ کا تصرّف چونکہ مستقل ہوتا ہے اس لئے جب تک مراد تصرّف ختم نہیں کرتا مرید تصرّف کے اثر سے آزاد نہیں ہوتا۔ اگر مرید اپنے مرشد سے ناراض ہو کر اس راستے سے انحراف کرتا ہے جس راستے پر مرشد نے ڈال دیا ہے تو وہ چکی کے دو پاٹوں میں پس جاتا ہے۔ کیونکہ مرشد تصرّف ہٹانے پر آمادہ نہیں۔ مرید کی اتنی سکت نہیں کہ تصرّف کا مقابلہ کر سکے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مرید دماغی طور پر پست ہو جاتا ہے اور اس کی شعوری کیفیات معطل ہو جاتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ بیعت کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ دیکھ بھال کر اور پرکھ کر بیعت کی جائے۔
مرشد تصرّف اس لئے ختم نہیں کرتا کہ تصرّف ختم کر نے سے مرید کے شعور میں سے وہ انوار اور روشنیاں ختم ہو جاتی ہیں جو اس نے بڑی محنت سے جمع کی ہیں۔ روحانی راستہ پر چلنے کے لئے اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ راستہ دکھانے والا خود بھی راستہ سے واقف ہے یا نہیں۔

میرے ایک دوست بہت بڑے پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا کہ روحانی ڈائجسٹ اولیاء اللہ کی تصنیف ہے۔ روحانی علوم سکھاتا ہے۔ علم الاَسماء کے بارے میں وضاحت کرتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی اور روحانی رشتہ جوڑتا ہے۔ آپ اپنے مریدوں میں اسے متعارف کرائیں
پیر صاحب نے فرمایا، روحانی ڈائجسٹ میں پڑھتا ہوں۔ اس سے اِستفادہ کرتا ہوں۔ مرید حضرات کو اس لئے پڑھنے کو نہیں دیتا کہ اس رسالے میں روحانی کیفیات شائع ہوتی ہیں۔ کسی نے مجھ سے میری کیفیات کے بارے میں پوچھ لیا تو میں کیا جواب دوں گا۔ بس اللہ نے بھرم رکھا ہوا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 146 تا 152

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)