لیکچر 14 – نسبتِ عِلمیہ

مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=49379

نسبتِ عِلمیہ

تصوف اور روحانیت کے بارے میں عام طور پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضورﷺ کے زمانے میں صحابہ کرامؓ نے روحانی علوم یا تصوف کی تدوین نہیں کی۔  چونکہ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں روحانی علوم کی تدوین نہیں ہوئی اور روحانی علوم کے بارے میں ایسے مشاہدات نہیں ہیں جن کو سند مان کر تصوف و روحانیت کو تسلیم کر لیا جائے۔

بعض حضرات کا یہ خیال بھی ہے کہ یہ پرانا علم ہے جو ہندو ازم سے تعلق رکھتا ہے یا اس علم کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو عیسائی یہود اور راہب ہیں۔  یعنی انہوں نے دنیا کی دلچسپیاں ختم کرکے دنیا کے ہنگاموں سے اپنا رشتہ منقطع کر کے ایک ایسی راہ اختیار کی ہے جو عوام النّاس کو دنیا سے دُور کر دیتی ہے۔

کائنات اور کائنات کے اندر موجود رنگینیاں اللہ تعالیٰ نے اس لئے پیدا نہیں کیں کہ آدمی ان سے فرار اختیار کر کے بیاباں یا کسی گوشے میں بیٹھ جائے۔  تصوف کے بارے میں اس قسم کے اعتراضات ہمیشہ اٹھتے رہے ہیں۔

 

نوعِ انسانی، نوعِ جنّات کا تعلق اللہ تعالیٰ سے دو طریقوں پر قائم ہے۔

  • ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی تجلّی کسی بندے کو اپنی طرف متوجہ کر لے اور اس بندے کی طرز فکر میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات مستحکم ہو جائیں۔ جب وہ کوئی عمل کرے تو ارادتاً یا غیر ارادی طور پر اس کا ذہن اللہ کی طرف متوجہ رہے۔ یہ انبیاء علیہ السلام کی طرز فکر ہے۔
  • ایک طرز یہ ہے کہ انسان اللہ کے بارے میں اور اللہ کی موجودگی کے بارے میں عملی طور پر یقین رکھتا ہو۔ اس یقین کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے مُرتّبۂ احسان کا نام دیا ہے۔

یہ بات کہ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں روحانیت کے اوپر کوئی خصوصی علم مُرتّب نہیں ہوا اس کی وجہ یہ ہے کہ….

سیدنا حضور ﷺ کی موجودگی میں…. حضورؐ پر مرمٹنے والے اور فدا ہونے والے صحابہ کرامؓ کی ارواح…. حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی محبت سے رنگین تھیں۔  ان کے ذہن کو مکمل یکسوئی اس بات سے تھی کہ وہ حضورؐ کی باتوں میں…. حضورؐ کے عمل میں…. حضورؐ کے اٹھنے بیٹھنے اور ….حضورؐ کے نورانی چہرے پر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔

اس غور و فکر سے حضورؐ کے قریب رہنے والے حضرات کی روحانی پیاس بجھتی رہتی تھی۔

صحابہ کرامؓ کو حضورؐ کے اقوال میں بھی بہت زیادہ شغف تھا اور حضورؐ کی ذات اقدس اور حضورؐ کی گفتار میں اِنہماک کی وجہ سے حضورؐ کے ہر ہر قول اور ہر ہر عمل کی صحیح صحیح اَدبیّت اور صحیح صحیح مفہوم پوری گہرائیوں کے ساتھ ان کے اوپر واضح ہوتا رہتا تھا۔  احادیث پڑھنے کے بعد، احادیث سننے کے بعد اور حضورؐ کے عمل کو دیکھنے کے بعد حضورؐ کی ذات اقدس کے انوار سے وہ لوگ پورا پورا اِستفادہ کرتے تھے۔  اس طرح ان کی روح کے اندر انوار کے تمثلات، ریاضت و مجاہدات کے ذریعے ذخیرہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔  وہ حضورؐ کے قدسی الفاظ اور حضورؐ کے نورانی کردار اور حضورؐ کے پیغمبرانہ ذہن سے بغیر کسی کوشش کے رُوشناس تھے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں….

جب مجھے عالمِ بالا کی سیر کے مواقع حاصل ہوئے تو میں نے دیکھا کہ …. صحابہ کرامؓ کی روحِ انسانی میں…. ان کے لطیفۂِ روحی اور سرّی میں قرآنِ پاک کے انوار اور احادیث کے انوار موجود ہیں اور انوار کا تقدس اور نورانی لہریں صحابہ کرامؓ کی ارواح میں اس طرح موجود ہیں کہ ان کی روحیں نور سے لبریز ہیں۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں…. اُس دَور میں روحانی قدروں کا نہ ہونا اور روحانی علوم کا تفصیلی تذکرہ نہ ہونا…. اِسی وجہ سے ہے۔

صحابہ کرامؓ کے بعد زمانہ جیسے جیسے حضورؐ کے واصل بحق ہو جانے کے بعد دُور ہوتا چلا گیا،  اُسی مناسبت سے لوگ رسول اللہﷺ کے اقوال اور رسول اللہﷺ کے کردار کے انوار سے دُور ہوتے چلے گئے۔  تبع تابعین کے بعد لوگوں کے دلوں سے قرآنِ پاک کے انوار اور احادیث کے انوار معدوم ہو نے لگے۔  اس دَور میں ان لوگوں نے جو رسول اللہﷺ سے صحابہ کرامؓ کی طرح تعلقِ خاطر رکھتے تھے اور جن لوگوں کی روحیں حضورﷺ کی محبت سے لبریز تھیں، انہوں نے تشنگی محسوس کی اور یہ محسوس کیا کہ اگر روحانی علوم کے قوانین، قاعدے اور ضابطے جو روحانی طور پر رسول اللہﷺ سے منتقل ہوئے ہیں، عام نہ کئے گئے تو امتِ مسلمہ میں بہت بڑا خلا واقع ہو جائے گا۔  لہٰذا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کو اپنی روح میں ذخیرہ کرنے کے بعد اللہ کا عرفان حاصل کرنے کے ذرائع تلاش کئے اور پھر ضابطے اور قاعدے بنا ئے۔ یہ قاعدے اور ضابطے علمی اعتبار سے بنائے گئے تا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا امتی، ہر شخص یہ علم حاصل کر سکے…. رسول اللہﷺ کے انوار سے اپنی روح کو لبریز کرے اور اِن روحانی قدروں سے اسے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جائے۔

چنانچہ شیخ نجم الدینؒ اور ان کے شاگرد مثلاً شیخ شہاب الدین سہروردیؒ ، خواجہ معیّن الدین چشتیؒ ایسے حضرات گزرے ہیں جنہوں نے علمی حیثیت میں اللہ کے ان اسماء اور قرآنِ پاک کی ان آیات کا انتخاب کیا جن کے وِرد سے ذہن انسانی میں زیادہ سے زیادہ نورانی ذخیرہ ہوتا ہے۔  شیخ حسن بصریؒ کے زمانے تک یہ چیزیں نہیں ملتیں۔

یہ بات تاریخ کے صفحات پر موجود ہے کہ حضرت علیؓ نے تمام واعظین کو وعظ کرنے سے منع کر دیا تھا۔  صرف ایک ہستی شیخ حسن بصریؓ ایسی تھی جن کو حضرت علیؓ کی طرف سے وعظ کی اجازت تھی۔  حضرت حسن بصریؓ کے بعد ایسا دور آیا کہ حضورﷺ کی ذات بابرکات سے متعلق انوار و تجلّیات لوگوں کے ذہن سے دُور ہونے لگے اور اللہ کی صفات کے جاننے میں وہ اِنہماک نہیں رہا جو صحابہ کرامؓ کے زمانے میں تھا۔

لہٰذا علماءِ باطن اولیاء اللہ نے اللہ کی ذات اور حضورﷺ کے انوار کو سمجھنے کے لئے طرزِ فکر کی قدریں قائم کیں۔  اس طرز فکر کو حاصل کرنے کے لئے جو قاعدے اور ضابطے متعین کئے گئے ان کا اِصطلاحی نام ‘‘ نسبتِ علمیہ ’’ ہے۔

 

قربِ نوافل۔  قربِ فرائض

روحانی علوم سیکھنے اور روحانی دنیا میں داخل ہونے کے لئے دو طرزیں معیّن ہیں۔

  • ایک طرز کا نام قربِ نوافل ہے…. اور
  • دوسری طرز کا نام قربِ فرائض ہے….

قربِ نوافل ہو یا قربِ فرائض دونوں علوم مرشد کریم اور کسی ولی اللہ سے منتقل ہوتے ہیں۔

براہِ راست اولیاء اللہ کی ارواح سے منتقل ہونے والے روحانی علوم نسبتِ اُویسیہ کے تحت منتقل ہوتے ہیں۔

 

نسبتِ اُویسیہ

نسبتِ اُویسیہ کا پہلا انکشاف حضرت عبدالقادرمحی الدین جیلانیؒ کے طریقۂِ تصرّف میں ہوا۔

نسبتِ اُویسیہ کے ذریعہ سالک کی روح میں علوم منتقل کر دیئے جاتے ہیں اور وہاں سے یہ علوم چشمے کی طرح پھوٹ پڑتے ہیں اور پھر یہی چشمہ یا علوم کا خزانہ اندر ہی اندر بہتے ہوئے فوارے کی طرح ابل پڑتا ہے۔

حضرت غوثَ الاعظمؒ پیرانِ پیر دستگیر کے بعد سے یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری ہے۔

  • نسبتِ اُویسیہ کا فیضان مخفی طور پر ملاءِ اعلیٰ کے ذریعے یا انبیاءِ کرامؑ کی ارواح کی معرفت اور اولیاء اللہ کی ارواح کے واسطے سے ہوتا ہے۔
  • نسبتِ اُویسیہ کے فیض کے لئے مادی جسم کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
  • یہ نسبت بہت قوی نسبت ہے اور اس نسبت کا مظاہرہ بہت دیر میں ہوتا ہے۔ اور بسااوقات یہ ہوتا ہے کہ جس بندے کو یہ نسبت حاصل ہو جاتی ہے اسے آخر وقت تک اس نسبت کا علم نہیں ہوتا۔

اولیاء اللہ کی ارواح یا انبیاء کی ارواح یا ملاءِ اعلیٰ کے ذریعے منتقل ہونے والے روحانی علوم سے جب عین یا ثابِتہ بھر جاتے ہیں…. یا…. روحِ انسانی اور روحِ اعظم اِن سے معمور ہو جاتی ہے…. تو سالک کے اوپر شُہودی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

نسبتِ اُویسیہ سے فیض یافتہ سالک کی پہلی نظر ملاءِ اعلیٰ کے شُہود پر کھلتی ہے۔

ملاءِ اعلیٰ سے مراد گروہ جبرائیل اور گروہ میکائیل ہیں۔  ملاءِ اعلیٰ کا شُہود بیتُ المعمور میں ہوتا ہے۔

بیتُ المعمور عرش کے اوپر کا مقام ہے۔

 

نسبتِ سُکینہ

نسبتِ سُکینہ وہ نسبت ہے جو صحابہ کرام کو حاصل تھی۔  پہلے بتایا جا چکا ہے کہ صحابہ کرام کو سیدنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس میں اتنا شغف اور اِنہماک تھا کہ ان کے عین نورِ نبوت سے معمور رہتے تھے۔  نسبتِ سُکینہ کی تعریف یہ ہے کہ:

  • پہلے سالک کسی روحانی آدمی کے اندر خود کو جذب کر دیتا ہے…. یا کسی روحانی آدمی کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔
  • جذب ہونے کے بعد یا روحانی آدمی کی روشنیوں کو جذب کر لینے کے بعد جو کیفیت وارِد ہوتی ہے اس کیفیت کا نام عشق ہے….

یعنی جذب اور عشق کی کیفیت کا نام نسبتِ سُکینہ ہے۔

اس نسبت سے سالک کی طرز فکر میں پیر و مرشد کی طرز فکر منتقل ہو جاتی ہے۔  اس کے خیالات، تصوّرات اور احساسات میں اتنی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے پیر و مرشد کی طرح سوچتا ہے اور پیر و مرشد کی طرح اس کے تمام اعمال و افعال ہو جاتے ہیں۔

ایک شخص کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ بزرگ کی ٹانگ پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔  پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ٹانگ میں درد ہے۔  مسافرت کر کے جب وہ ان ہی بزرگ کے مرید کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ مرید کی ٹانگ میں بھی پٹی بندھی ہوئی ہے۔  مرید نے بھی بتایا کہ ٹانگ میں درد ہے۔

 

نسبتِ عشق

سالک کا ذہن مرشد کریم کی طرز فکر سے جب معمور ہو جاتا ہے یا پیر و مرشد کی روحانی طرزیں مرید کے اندر نہ صرف یہ کہ منتقل ہو جاتی ہیں بلکہ متحرّک ہو جاتی ہیں تو مرید کے لطیفے رنگین ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔  تصوف میں رنگینی سے مراد دُوری ہے۔  یعنی سالک کے لطیفے اپنے ذاتی رنگ سے نکل کر پیر و مرشد کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور یہ نسبت جب پیر و مرشد سے منتقل ہو کر لطیفوں کو رنگین کر دیتی ہے تو لطیفوں پر پَے در پَے اَنوار الٰہیہ کا نُزول ہوتا ہے اور اس طرح اللہ کے ساتھ عشق کی جڑیں مضبوط ہو جاتی ہیں۔  سالک جب بھی اپنے اَعیان میں دیکھتا ہے اسے اللہ نظر آتا ہے۔  اسی بات کو حضرت خواجہ معیّن الدین چشتی اجمیری غرب نوازؒ نے اس طرح فرمایا ہے۔

یار دم بدم بار بار می آید

میں ہر سانس کے ساتھ اللہ کا جلوہ دیکھتا ہوں۔

 

نسبتِ جذب

یہ وہ نسبت ہے جس کو تَبع تابعین کے بعد سب سے پہلے خواجہ بہاء الحق والدِّین نے ‘‘ نشانِ بے نشانی ’’  کا نام دیا ہے۔  نقشبندی سلسلہ کے افراد اس نسبت کو یادداشت کے نام سے جانتے ہیں۔  نشانِ بے نشانی سے مراد یہ ہے کہ عارف کا ذہن اس سمت میں سفر کرے جس سمت میں ازل سے پہلے کے نقوش موجود ہیں۔  جب ازل سے پہلے کے نقوش یعنی اللہ کا ذہن عارف کے قلب میں بار بار دَور کرتا ہے تو سالک کو ہر سمت ہر طرف ہر لا موجود اور موجود شئے میں اللہ نظر آنے لگتا ہے۔  کوئی بھی کام ہو کوئی بھی عمل ہو سالک کی اُفتادِ طبیعت یہ بن جاتی ہے کہ وہ غیر اختیاری اور اختیاری طور پر ہر چیز ہر بات ہر عمل میں اللہ کو تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔  اس کا ذہن از خود ہر کام میں اور ہر عمل میں اللہ کی وَحدانیت کو تلاش کر لیتا ہے۔  جب یہ صورتِ حال اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ سالک ان میں اس طرح گھر جاتا ہے کہ اسے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ملتی تو عقل و شعور سے دست بردار ہو کر خود کو اس نسبت کی روشنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔

اس کی مثال یہ ہے:

ہر آدمی روزانہ کئی گلاس پانی پی لیتا ہے لیکن کبھی اس کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ پانی کیا چیز ہے؟ پانی کے اندر سیرابی کیا ہے، پانی کیسے نکلتا ہے، کنواں کا پانی ہے، چشمے کا پانی ہے یا دریا کا پانی ہے؟

عام بندے کا ذہن ان باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔  اسے جب پیاس لگتی ہے پانی پی لیتا ہے لیکن جس بندے کو نسبتِ جذب حاصل ہوتی ہے وہ پانی کے اندر اللہ کو تلاش کرتا ہے، وہ غور کرتا ہے کہ پانی اللہ نے تخلیق کیا ہے۔  جب وہ پانی کے بارے میں سوچتا ہے تو پانی سے متعلق تمام وسائل اس کے سامنے آ جاتے ہیں۔  مثلاً سمندر ، بادل، بارش، پہاڑوں پر برف کا پگھلنا وغیرہ۔

بچہ پیدا ہوتا ہے تو لوگ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور بات ختم ہو جاتی ہے۔  عارف جب پیدا ہونے والے بچے کو دیکھتا ہے تو اس کا ذہن از خود بغیر کسی ارادے و اختیار کے اس طرف متوجہ ہو جاتا ہے کہ اللہ نے اس بچے کو نو ماہ تک ماں کے پیٹ میں رزق فراہم کیا ہے۔  جس اللہ نے بچے کو نوہ ماہ تک رزق فراہم کیا ہے اور اس رزق سے بچے کی نشوونما ہوئی ہے وہ اللہ مجھے بھی رزق دیتا ہے اور جب تک میں دنیا میں ہوں مجھے رزق ملتا رہے گا۔  اس کے برعکس ساٹھ سال کا آدمی یہ نہیں سوچتا کہ میں کبھی دو دن کا بچہ تھا۔

نسبتِ جذب رکھنے والا بندہ بار بار اس بات کا اِعادہ کرتا ہے کہ اللہ نے دو دن کے بچے کو ساٹھ سال تک وسائل فراہم کئے ہیں۔  رفتہ رفتہ اس نسبت کی شعاعوں کاہجوم اس قدر وسعت اخیتار کر لیتا ہے کہ عارف کا ذہن ہر طرف سے ہٹ کر یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ فی الواقع میری اپنی کوئی ہستی نہیں ہے۔  میری ہستی کے اوپر اللہ محیط ہے اور اس احاطے ہی میں، مَیں پیدا ہُوا۔  اس احاطے ہی میں پروان چڑھا اور اس احاطے ہی میں، مَیں دنیا سے رخصت ہو کر دوسری دنیا میں انتقال کر جاؤں گا۔  یہ کیفیت عقل و شعور پر اس طرح طاری ہو جاتی ہے کہ آدمی کی انا اور ارادہ نسبتِ جذب کے احاطے میں معدوم ہو جاتے ہیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 111 تا 120

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)