لیکچر 31
مکمل کتاب : شرحِ لوح و قلم
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=56643
چار شعور
حواس کے دو رخ ہیں۔
• ایک میں تغیّر ہوتا رہتا ہے جیسے جیسے تغیّر واقع ہوتا ہے اسی مناسبت سے رنگ پیدا ہوتے ہیں …. اور
• جہاں تغیّر واقع نہیں ہوتا وہاں بے رنگی ہوتی ہے۔
حواس میں تغیّر ورائے بے رنگ سے ہوتا ہے اور جیسے ہی ورائے بے رنگ میں تغیّر ہوتا ہے ایک رنگینی پیدا ہوتی ہے جو بے رنگی کہلاتی ہے۔ بے رنگی میں تغیّر ہوتا ہے تو حواس میں درجہ بدرجہ ایک رنگ پیدا ہو جاتا ہے اور یہ بہت سارے رنگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو کل رنگ بن جاتے ہیں۔
واہمے سے اس تغیّر کی شروعات ہوتی ہیں۔ یہ تغیّر خیال اور تصوّر کی راہیں طے کرکے محسوسات کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ خیال، تصوّر اور محسوسات ایک دائرے میں سفر کرتے ہیں۔ جس طرح خیالات اور تصوّرات محسوسات بننے کے لئے سفر کرتے ہیں اسی طرح یہ دوبارہ پلٹتے ہیں اور یہ سلسلہ ازل تا ابد قائم ہے۔
خیال اور تصوّرات کا سفر کرنا زمانی اور مکانی فاصلوں کو متعین کرتا ہے۔ خیال، تصوّر اور احساس جن مراحل سے گزر کر کسی مقام پر قائم ہوتے ہیں اس مقام کو سمجھنے اور اس مقام کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہمیں تین شعوروں سے گزرنا پڑتا ہے اور ہم تین شعوروں سے گزر کر جس مقام پر غیر متغیّر مقام کو دیکھتے ہیں اس مقام کو لاشعور کا نام دیتے ہیں۔
نوعِ انسانی اب تک جس شعور سے واقف ہے وہ شعورِ چہارم کے ضمن میں آتا ہے۔ باقی تین شعور یا تین لاشعور کو سمجھنے کے لئے ہمیں وحی کی رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایک شعور کو چھوڑ کر باقی تین شعوروں کو سمجھ لیا جائے تو ہم وحی سے واقف ہو سکتے ہیں۔
مفکرین کو اگر فی الواقع کائنات کی حقیقت تک پہنچنا ہے تو انہیں کسی نہ کسی اس نظریئے پر مجتمع ہونا پڑے گا کہ یہ محسوساتی کائنات ہرگز مادّی ذرات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ شعور کا عکس ہے۔
• پہلے شعور کا نام ’’نورِ مُفرِد‘‘ ہے۔
• دوسرے شعور کا نام ’’نورِ مرکّب‘‘ ہے۔
• تیسرے شعور کا نام ’’نَسمہ مُفرِد‘‘ ہے۔
• چوتھے شعور کا نام ’’نَسمہ مرکّب‘‘ ہے۔
انہی چار شعوروں میں نَسمہ مرکّب عوام سے متعارف ہے۔ عوام صرف اسی شعور یعنی نَسمہ مرکّب کے حواس کو جانتے اور سمجھتے ہیں …. بقیہ تین شعور عامۃُ النّاس کے تعارف سے باہر ہیں۔
اب تک ماہر نفسیات نے جس چیز کا سراغ لگایا ہے وہ شعورِ سوئم (نَسمہ مُفرِد) ہے۔ اسی شعورِ سوئم یا نَسمہ مُفرِد کو سائنسدان حضرات لاشعور کا نام دیتے ہیں۔
ہم جب کائنات کی ساخت میں تفکر کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کی ساخت میں ایک شعور اور تین لاشعور پائے جاتے ہیں۔ اس کی Equation یہ ہے۔
• پہلا شعور۔۔۔۔۔۔ شعورِ اوّل ۔۔۔۔۔۔ نورِ مُفرِد
• دوسرا شعور۔۔۔۔۔۔ شعورِ دوئم ۔۔۔۔۔۔ نورِ مرکّب
• تیسرا شعور۔۔۔۔۔۔ شعورِ سوئم ۔۔۔۔۔۔ نَسمہ مُفرِد
• چوتھا شعور۔۔۔۔۔۔ شعورِ چہارم ۔۔۔۔۔۔ نَسمہ مرکّب
حقیقت محمدیﷺ
ہم جب زندگی کا کوئی بھی عمل کرتے ہیں پہلے اس عمل سے متعلق ہمارے اوپر تین حالتیں طاری ہوتی ہیں۔
• واہمہ سے کوئی عمل شروع ہوتا ہے۔ واہمہ ایک اطلاع ہے۔ ایسی اطلاع جس کو ہم اس وقت خیال کہتے ہیں جس وقت اطلاع میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ یہ اطلاع دماغ کے اوپر دباؤ بن کر نُزول کرتی ہے۔ اطلاع میں دباؤ اور پھر ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے۔ اس اطلاع کو خیال بھی کہتے ہیں لیکن یہ اطلاع جو خیال بن گئی ہے اس میں خدوخال نہیں ہوتے یا دماغ میں خدوخال کا احساس نہیں ابھرتا۔
• جب خیال میں گہرائی پیدا ہوتی ہے تو اس عمل سے متعلق خدوخال پیدا ہو جاتے ہیں جیسے ہی خدوخال پیدا ہوتے ہیں خیال کا نام تصوّر بن جاتا ہے۔
• تصوّر جب گہرا ہوتا ہے تو وہ عمل جو واہمے سے شروع ہوا تھا احساس بن کر سامنے آ جاتا ہے۔ یہ حالت نُزولی حالت ہے یعنی غیب کی دنیا سے ایک اطلاع آتی ہے اور احساس کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے پھر یہی احساس تصوّر اور خیال بن کر صَعودی حالت میں لوٹ جاتا ہے۔
انسان کیفیات و واردات کو جس طرح محسوس کرکے جانتا ہے اور جو چیز اسے کسی علم کے بارے میں اطلاعات فراہم کرتی ہے اس کا نام شعور ہے۔
ماہرین نفسیات نے جب شعور کی گہرائی میں تفکر کیا تو ان کے اوپر یہ بات منکشف ہوئی کہ شعور ایک ایسا آلہ ہے جو اطلاعات کو قبول کرکے انسان کے اندر معانی و مفہوم پہناتا ہے۔ ساتھ ہی ان کے سامنے یہ بات آئی کہ اطلاعات جو معانی و مفہوم بن کر خیالات بن رہی ہیں یقیناً ان کا کوئی سورس ہے۔ اطلاعات کہیں سے آ رہی ہیں۔ اطلاعات جہاں سے آ رہی ہیں اس کا نام ماہرین نفسیات نے لاشعور رکھا ہے …. یعنی جس شعور سے ہم واقف ہیں اس شعور کے علاوہ ایک اور شعور ہے جو شعوری کیفیات کے برعکس ہے۔
ماہرین روحانیات جب شعور کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہ ایک شعور کا تذکرہ نہیں بلکہ چار شعور کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ماہرین روحانیت کائنات کو چار شعوروں کا مرکب بتاتے ہیں یعنی ….
ساری کائنات چار شعوروں پر تخلیق کی گئی ہے اور چار شعوروں پر تمام حرکات و سکنات قائم ہیں ….
نوعِ انسانی ایک شعور سے واقف ہے اور نوعِ انسانی میں وہ حضرات جو تفکر کرتے ہیں (دانشوروں میں جو عامۃُ النّاس سے ہٹ کر علمی حیثیت میں اپنا ایک تعارف رکھتے ہیں) ان کے نزدیک کائناتی زندگی یا انسانی زندگی دو شعوروں سے مرکب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عامۃُ النّاس صرف ایک شعور سے واقف ہیں، باقی تین شعوروں سے واقف نہیں ہیں۔
ہم جب قرآنِ پاک اور آسمانی کتابوں میں تفکر کرتے ہیں تو ہمیں یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ قرآن دو شعوروں کے علاوہ مزید دو شعوروں کا تعارف کراتا ہے۔ قرآن کے بیان کردہ دو شعور بھی لاشعور کے دائرے میں آتے ہیں۔
شعور کی تعریف میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ:
• کوئی چیز Vision بن کر سامنے آئے ….
• اُس چیز میں اور ہمارے درمیان فاصلہ ہو ….
• وہ چیز ٹھوس ہو ….
• اس میں کششِ ثقل ہو ….
• اس کو ہم مادّی آنکھ سے دیکھ سکتے ہوں …. اور
• مادّی جسم سے چھو سکتے ہوں۔
ہم جانتے ہیں کہ جس چیز سے ہم سب سے پہلے متعارف ہوتے ہیں، اس چیز سے متعلق ہمارے ذہن میں ایک واہمہ پیدا ہوتا ہے …. پھر یہی واہمہ خیال بنتا ہے …. خیال میں گہرائی کے بعد ایک تصوّراتی صورت اُبھرتی ہے …. اور یہی تصوّراتی صورت احساس کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔
واہمہ سے احساس تک پہنچنے کیلئے یا کسی چیز کو واہمہ سے احساس کے اندر دیکھنے کیلئے روحانی قانون کے مطابق سارا عمل ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصّہ میں واقع ہوتا ہے۔ یہ عمل متَواتَر اور بار بار خود کو دہراتا رہتا ہے۔
ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصّہ میں واقع ہونے والی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ وہ چیز ہمیں ساکت محسوس ہوتی ہے۔ جو چیز ہم اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں وہ چیز واہمہ، خیال، تصوّر اور احساس کا درجہ حاصل کرکے نظروں کے سامنے آتی ہے۔ جس طرح نظروں کے سامنے آتی ہے اسی طرح نظروں سے غائب ہو کر مختلف دائروں سے گزر کر واہمہ بن جاتی ہے۔
واہمہ …. خیال …. تصوّر تین کیفیات ہیں اور یہ تین کیفیات جس طرح نُزول کرتی ہیں اسی طرح صَعود کرتی ہیں۔
نُزول اور صَعود کی یہ حرکات چھ (6) دائروں میں تقسیم ہو جاتی ہیں۔
مفہوم یہ ہوا کہ انسان چار شعوروں اور چھ دائروں میں تقسیم ہے۔
کوئی انسان جب کائنات میں اپنی حقیقت کو سمجھنا چاہے گا، اس کیلئے لازم ہے وہ صَعود اور نُزول کے چھ دائروں سے واقف ہو۔ نُزول اور صَعود کے چھ دائروں سے واقف ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ جانتا ہو کہ انسان کی تخلیق چار شعوروں پر قائم ہے۔ جس طرح ایک انسان کی تخلیق چار شعوروں سے مرکب ہے اسی طرح ساری کائنات کی تخلیق چار شعوروں پر قائم ہے۔
تین لاشعوروں سے گزر کر جب آدمی چوتھے شعور میں داخل ہوتا ہے اس حالت کو ’’رُؤیّت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی وہ حالت ہے جس سے عام انسان متعارف ہے۔
’’رُؤیّت‘‘ کا شعور باقی تین لاشعوروں کا مجموعہ ہے۔
• ہم اوّل وراءِ کائناتی شعور سے، جو غیر متغیّر ہے، اپنی حیات کو ابتداء کرتے ہیں۔ یہ وراءِ کائناتی شعور دراصل صفاتِ الٰہیہ میں طوفانی کیفیت ہے۔ صفاتِ الٰہیہ میں ایک فوارہ پھوٹتا ہے اور یہی فوارہ نُزول کرکے تیسرے قدم پر فرد بن جاتا ہے۔
• پہلے قدم پر فوارہ کا ہیولیٰ کائنات کی شکل میں ہوتا ہے یعنی پہلے قدم پر ساری کائنات ایک نقطے میں نظر آتی ہے۔
• دوسرے قدم پر وہ کسی ایک نَوع کا ہیولیٰ بنتا ہے۔
• تیسرے قدم پر وہ فرد بن کر رونما ہو جاتا ہے۔
فرد کے اندر جو صفات و کیفیات اور لاشمار رنگ ہیں ان رنگوں میں حرکت پیدا ہوتی ہے تو رنگوں کا فوارہ ابلتا ہے۔ یہی فوارہ ہمیں احساس سے رُوشناس کرتا ہے لیکن چونکہ یہ فوارہ لاشمار رنگوں کی ترتیب سے نکلتا ہے، اسلئے فوارے کے اندر ابلنے والے رنگوں میں ترتیب قائم رکھنا یا رنگوں کو صحیح احساس کے ساتھ محسوس کرنا تقریباً محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جب شعورِ چہارم کے حواس میں زندگی بسر کرتے ہیں تو ہم سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ ان رنگوں سے ابلنے والے فوارے کو محسوس کرنے کے لئے چونکہ قیاس سے کام لینا پڑتا ہے، اسلئے جو کچھ دیکھتے ہیں اسے مفروضہ حواس کی دنیا کہا جاتا ہے۔
چونکہ شعورِ چہارم مفروضہ اور قیاس پر مبنی ہوتا ہے اسلئے روحانی علوم میں شعورِ چہارم پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ شعورِ چہارم میں جوکچھ نظر آتا ہے اسے روحانی لوگ مفروضہ قرار دیتے ہیں۔
روحانیت میں اعتماد کا سب سے بڑا ذریعہ ’’شعورِ اوّل‘‘ ہے کیونکہ شعورِ اوّل میں مشیئتِ الٰہی کا انکشاف ہوتا ہے اور مشیئتِ الٰہی کے انکشاف میں کسی غلطی کاامکان نہیں ہوتا۔ مشیئتِ الٰہی جس شعور میں بے نقاب ہوتی ہے اس شعور کو ’’حقیقتُ الحقائق‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی شعور کو ’’حقیقت محمدیہﷺ‘‘ بھی کہتے ہیں۔
قرآنِ پاک کی تعلیمات کی روشنی میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام سے پہلے جتنے انبیاء تشریف لائے ان سب نے دو شعوروں سے متعارف کرایا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات شعورِ دوئم سے شروع ہوئیں اور شعورِ سوئم تک ان تعلیمات کا پھیلاؤ رہا۔
شعورِ اوّل سے سب سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی صف میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام متعارف ہوئے۔ اس ہی کے باعث قرآنی مُتصوّفین (وہ حضرات جو قرآن کے علوم کے عارف ہیں) اس کو ’’حقیقتِ محمدیہﷺ‘‘ کہتے ہیں۔ قرآنِ پاک میں شعورِ اوّل کو علمُ القلم کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 264 تا 270
شرحِ لوح و قلم کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔