کیفیات و واردات سبق 4

مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45126

سید اصغر علی ظفر
۲۴ ۔نومبر: آج سے چو تھے سبق کا آغاز کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے تصور قائم ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ روشنیوں کا آبشار میرے اوپر گر رہا ہے اور یہ روشنیاں سر میں سے جذب ہو کر پیروں کے ذریعے EARTH ہو رہی ہیں۔ جس وقت روشنیاں سر میں جذب ہوتی ہین ان کا رنگ نیلا ہوتا ہے اور جب زمین مین ارتھ ہوتی ہیں تو بے رنگ ہو جاتی ہیں۔ ہون سمجھئے کہ رنگین لہروں کا رنگ میرے جسم مین پیوست ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد دیکھا کہ میں ایک گلوب مین ہوں اور اس گلوب کے اندر نیلا رنگ بھرا ہوا ہے۔ یکا یک ایک وسیع و عریض گنبد پر نظر پڑی جچ کا رنگ سبز تھا۔
صبح کی مشق کے دوران دیکھا کہ میرا سر کُھل گیا اور روشنیوں کے دو مجسم پرت میرے سراپا میں داخل ہو گئے اور انہوں نے میرے اندر صفائی شروع کر دی۔ پھر یہ مجسم پرت روشنی میں تحلیل ہو کر پیروں کے راستے باہر نکل گئے۔ روحانی یا جسمانی صفائی کے بعد نیلی شعاعیں تیزی کے ساتھ میرے جسممیں داخل ہونے لگیں۔
۲۵۔ نومبر: مشق کے دوران گنبد کی طرف خیال چلا گیا۔ دیکھا کہ جو رشنیاں نیچے آ رہی ہیں دراصل مین سفید رنگ کی ہیں لیکن گنبد مین سے گزرتے ہی نیلی ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا کہ گنبد کی چھت پر رنگوں کے دائرے بنے ہوئے ہیں۔ پہلا دائرہ بڑے قطر کا ہے۔ پھر اس سے چھوٹا۔ پھر دائروں کے قطر بتدریج چھوٹے ہوتے چلے گئے۔ اس دائروں مین موتی اور خوبصورت پتھر جڑے ہوئے ہیں۔ پھر دیکھا کہ گرتی ہوئی روشنیوں کا رنگ وقفے وقفے سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اور میرا جسم مقنا طیس کی طرح کھینچ کر اس کو اپنے اندر جذب کر رہا ہے۔
۲۷۔ نومبر: دیکھا کہ کوئی چیز آ کر گنبد کی چھت پر بیٹھ گئی۔ اور اس کو ہلانا شروع کر دیا ۔ گنبد کا ہلنا تھا کہ گری ہوئی روشنیوں میں شدت پیدا ہو گئی ۔ روشنی کی اس موسلا دھار بارش کو میں اپنے جسم پر محسوس کر رہا تھا۔ اور کبھی کبھی میرے اوپر کپکپی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ یہ روشنیاں کہان سے آتی ہیں؟ پتہ چلا کہ گنبد کی چھت پر ایک اینٹینا نما ٹاور ہے جو فضا سے روشنیوں کو جذب کر کے دائروں اور موتیوں کے ذریعے گنبد کے اندر بکھیر رہا ہے۔
۲۔ دسمبر: طرح طرح کی خوبسورت مناظر دیکھے۔ عالی شان عمارتیں، باغات، پھول، پورے تالاب۔ یہ سب ٹرانسپیرنٹ تھے اور ہر طرف روشنیوں کا دَور دورہ تھا۔

احساسَ کمتری سے نجات
محمد سلیم قریشی۔ لاہور
پچلھے کئی ہفتوں سے دن مین اکثر خوبصورت نیلے رنگ کی روشنی چمکتی ہوئی نظر آتی ہے۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بات ذہن سوچتا ہے وہ ہو جاتی ہے۔ میں نے اس عرصے میں خاص طور پر ایک بات نوٹ کی ہے کہ پہلے میں احساسِ کمتری کی بنا پر کسی سے بات کرتے وقت اس سے آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتا تھا لیکن اب مین ہر شخص سے خود اعتمادی کے ساتھ بات کر سکتا ہوں۔
۸۔ فروری: پہلے سفید رشنیوں کے جھماکے ہوتے رہے۔ اس کے بعد زرد روشنی کی لہریں دکھائی دیں۔ پھر دیکھا کہ خانہ کعبہ ہے اور لوگ طواف کر رہے ہیں۔ اس منظر کو میں نے کافی اونچائی سے دیکھا۔ اس کے علاوہ اور بھی چیزیں نظر آئیں مگر یاد نہیں رہیں۔ ایک دفعہ ایسا لگا جیسے کم کے نچلے حصے سے کوئی چپکی ہوئی چیز نیچے اتر رہی ہے۔
۱۵۔ فروری: پہلے زرد رنگ کی لہریں ناک کی طرف آتی دیکھیں ۔ اس کے بعد نظر آیا کہ بہت سے لوگ ایک قطار میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ یکایک کسی زمین پر کوئی چیز پکینکی۔ اس کے چھینٹے اِدھر اُدھر بکھرے اور میں ان سے اپنا منہ بچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس کے بعد چھوٹے سائز میں سفید رنگ کی چمک دار خوبصورت لہریں ناک کے پاس سے گزریں ۔ لگ رہا تھا کہ جیسے کافی وقت گزر چکا ہے۔ آج سر میں ہلکا سا درد ہوا۔
۱۲۔ فروری: آج زرد لہروں کو ساکت حالت میں دیکھا۔ پھر دیکھا کہ سفید رنگ کے تختے ہیں اور ان پر کالے رنگ سے کچھ لکھا ہوا ہے۔
ملک حق نواز
۲۰ ۔فروری: مشق کے بعد سونے کے لئے لیٹا تو میرے دل سے کرنٹ نکل کر سارے جسم میں سرایت کر گیا اور جسم اس کی شدت سے تھر تھر کانپنے لگا۔ اس کے بعد دیکھا کہ میرے سامنے اندھیرا چھٹ گیا ہے۔
محمد لطیف۔ کراچی
۲۹۔ اپریل: مرقبہ شروع کیا تو کالے رنگ کے دائرے نظر آئے لیکن کچھ ہی دیر بعد بائیں آنکھ کر اوپر ایک روشن گولہ نظر آیا۔ پھر ایک دم مجھے اپنے چاروں طرف نور ہی نور نظر آیا۔ پھر وقفے وقفے سے نور کے جھماکے ہوتے رہے۔
۴۔ مئی: آج آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا ہواتھا۔ ساتھ ہی کسی چیز کا سایہ چلتا ہوا نظر آیا۔ پھر سفید لہریں نظرآئیں۔ اس کے بعد بائیں آنکھ کے سامنے روشنی نظر آئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد دائیں آنکھ کے سامنے بھی روشنی نظر آئی۔ پھر ایک لمحے کے لئے میں اس سفید روشنی میں ڈوب گیا۔
ایم اے، راولپنڈی
۱۰۔ مئی: شیشے کا بنا ہوا ایک گنبد ہے۔ اس میں سے روشنی نکل کر میرے سر پر پڑ رہی ہے۔ یکایک ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے گنبد کو چھیڑ دیا ہو اور بہت لہر میرے سر میں سے ہو کر پیروں میں سے ہوتی ہوئی زمین مین جذب ہو گئی، یہ کیفیت تقریباً ۸ سیکنڈ قائم رہی۔
۱۶ ۔ مئی: دیکھا کہ سفید رنگ کا گنبد ہے۔ اور ا سکا رنگ تبدیل ہو رہا ہے۔ بھی سبز ہو جاتا ہے اور کبھی نیلا۔

سونے کا محل
محمد جہا نگیر تبسم
۶۔ جنوری: خدا خدا کر کے تسور قائمہوا اور ساتھ ہی تیسری مشق کے دوران مرتب ہونے والی کیفیات کا تصور بھی آتا رہا ۔ دیکھا کہ جب روشنی میرے دماغ کے نادر جذب ہوتی ہے تو دماغ بھاری ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد خود کو ایک چوکور چیز میں پروانہپرواز کرتے دیکھا۔ دورانِ مرقبہ ایک بزرگ بھی دکھائی دئیے جو کبھی میری شکل کے بن جاتے ہین اور کبھی مین ان کی شکل کا بن جاتا ۔ صبح کی نماز ادا کر رہاتھا تو محسوس ہوا کہ میں خلا میں نماز ادرا کر رہا ہوں۔
۷۔ جنوری: آنکھوں کے سامنے سونے کا محل کی طرح کوئی چیز آگئی۔ جس میں حضرت عائشہ ؓ کھڑی ہوئی تھیں۔ لیکن چہرہ مبارک دوسری طرف تھا۔
۱۱۔ جنوری: مراقبہ میں جاتے ہی غنودگی چھا گئی۔ اس عالم میں خود کو ایک غار کے اندر دیکھا۔ جسم میں کوئی برقی رَو کی طرح گردش کرتی رہی۔ سر کے دائیں جانب کوئی چیز سرکتی ہوئی اور ساتھ ہی کوئی ٹھنڈی چیز دماغ میں رینگتی ہوئی محسوس ہوئی۔ پھر ایک خوبصورت باغ دکھائی دیا۔ اس کی چار دیواری سونے اور چاندی کی طرح تھی۔ فرش کا رنگ سبز تھا۔ پھر میں نے خود کو ایک گنبد پر کھڑا پایا۔ ابھی گنبد پر ہی تھا کہ آسمان سے انسانی شکل کا ایک گروہ میری طرفآتا دکھائی دیا۔ گنبد پر اتر کر انہوں نے کہا کہ ہم تم اپنے لینے آئے ہیں۔ اور ان میں سے ایک بزرگ نے تخت پر مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ تخت تیزی سے پرواز کرتا ہوا آسمان پر جا پہنچا۔ وہاں پر بہت خوبصورت چیزیں دیکھیں۔ بہت سے لوگ بھی تھے۔ کوئی کچھ کہہ رہا تھا، کوئی کچھ۔ ان میں سے ایک روٹی کھار ہا تھا ۔ اس نے مجھے بھی روٹی دی۔ پھر وہ مجھے ایک چمک دار سفید کمرے میں لے گیا اور کہا کہ یہ آپ کا کمرہ ہے۔ کمرہ اتنا سفید تھا کہ اندر کی چیزیں صاف دکھائی دیتی تھیں یعنی اس کی دیواریں بالکل شیشے کی طرح ٹراسپیرنٹ تھیں۔ میں کمرے کے اندر گیا۔ ابھی دوسرے دروازے کی طرف جانے ہی والا تھا کہ پاؤں پھسل گیا اور وہاں بھی مجھے نیلی روشنیاں ہی دکھائی دیں۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو فوری طور پر نہیں کھلیں۔ آہستہ آہستہ کھلیں۔ جب چلنے لگا تو ایسا محسوس ہوا کہ ہوامیں چل رہا ہوں اور دایاں پاؤں سُن ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 145 تا 147

ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :

0.1 - اِنتساب 1 - پیشِ لفظ، ٹیلی پیتھی سیکھئے 2 - ٹَیلی پَیتھی کیا ہے؟ 3 - نظر کا قانون 4 - ٹائم اسپیس 5 - کہکشانی نظام 5.1 - حضرت سلیمانؑ کا دربار 5.2 - خیال کی قوت 6 - خیالات کے تبادلہ کا قانون 6.1 - ارتکازِ توجہ 7 - ٹیلی پیتھی کا پہلا سبق 8 - مٹھاس اور نمک 8.1 - آئینہ بینی 10 - ٹیلی پیتھی اور سانس کی مشقیں 11 - ٹیلی پیتھی کا دوسرا سبق 12 - فکرِ سلیم 13 - قبر میں پیر 13.1 - ایک انسان ہزار جسم 13.2 - شیر کی عقیدت 14 - لہروں میں ردوبدل کا قانون 15 - کیفیات و واردت سبق 2 16 - علم کی درجہ بندی 16.1 - شاہد اور مشہود 17 - دماغی کشمکش 18 - ٹیلی پیتھی کا تیسرا سبق 19 - سائنس کا عقیدہ 20 - کیفیات و واردات سبق 3 21 - باطنی آنکھ 21 - تصور کی صحیح تعریف 22 - ٹیلی پیتھی کا چوتھا سبق 23 - 126 عناصر 24 - کیفیات و واردات سبق 4 25 - عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے 26 - قانونِ فطرت 27 - ٹیلی پیتھی کا پانچواں سبق 28 - ٹیلی پیتھی کا چھٹا سبق 29 - قیدو بند کی حالت 30 - چھٹے سبق کے دوران مرتب ہونیوالی کیفیات 31 - ساتواں سبق 32 - ٹیلی پیتھی کے ذریعے تصرف کا طریقہ 33 - آٹھواں سبق 34 - دماغ ایک درخت 35 - رُوحانی انسان 36 - روحانیت اور استدراج
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)