ٹائم اسپیس

مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=25709

آپ نے ایسے مریض ضرور دیکھے ہوں گے کہ ان کے دماغ میں یہ بات نقش ہو گئی ہے کہ وہ اگر گھر سے باہر نکلیں گے تو ان کا ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔ خیال کی طاقت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے ذہن میں چھپکلی یا بلّی کا خوف بیٹھ جاتا ہے ۔ اور یہ خوف ان کے دماغ سے اس طرح چمٹ جاتا ہے کہ وہ ذہنی مریض بن کر رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ اس خوف کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ بس ایک مفروضہ کے تحت خیال خوف بن کر دماغ پر چھا جاتا ہے۔

میرے پاس ایک مریضہ لائی گئی جس کو یہ وہم ہو گیا تھا کہ اس کے اوپر جادو کیا گیا ہے اور اس جادو کی وجہ سے کھانے کے بعد اس کے پیٹ میں درد ہوتا ہے۔ شوہر اس بات کو بےبنیاد قرار دیتے تھے۔ میری تشخیص بھی یہی تھی کہ محض وہم ہے۔ علاج کے سلسلے میں ہضم سے متعلق کچھ دوائیں دے دی گئیں لیکن مرض میں افاقہ کی بجائے اضافہ ہو گیا اور درد کی شدت اتنی بڑھی کہ مریضہ کو دماغی دَورے پڑنے لگے۔ اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ علاج پر کئی ہزار روپے خرچ ہونے کے باوجود …. مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی…. کے مصداق مرض دِگرگوں ہو گیا۔ اس کے بعد نفسیاتی اسپتال میں ایک ماہ تک علاج ہوتا رہا۔ پھر عامل حضرات سے رجوع کیا گیا۔ جب کسی بھی صورت سے فائدہ نہ ہوا تو مریضہ کو میرے پاس لایا گیا، میں نے بہت اطمینان اور سکون کے ساتھ ان کے تمام حالات سنے اور ان سے کہا میں دیکھ کر بتاؤں گا کہ آپ کے اوپر کس قسم کا اثر ہے اور ان کو ہدایت کر دی کہ آپ دو تین روز کے بعد معلوم کر لیں۔ پندرہ روز تک وہ مجھ سے اپنے بارے میں پوچھتی اور میں ان سے فرصت نہ ملنے کی معذرت کرتا رہا۔ جب ان کا یقین اس نقطہ پر مرکوز ہو گیا کہ میرے سِوا ان کا علاج کوئی نہیں کر سکتا تو میں نے ان سے کہا ” آپ کے اوپر زبردست اثر ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ آپ صبح اذان سے پہلے اتنے منٹ پر بند آنکھوں سے میرا تصّور کر کے بیٹھ جائیں۔ میں اپنی روحانی طاقت سے یہ اثر ختم کر دوں گا۔”
اب آپ مریض کی زبان سے ان کا حال سنئے۔ مریضہ نے مجھے بتایا:
اس خیال سے کہ صبح وقت مقررہ پر میری آنکھ نہ لگ جائے میں ساری رات جاگتی رہی۔ گھڑی دیکھ کر وقت مقررہ پر آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ آپ کے اندر سے میرے دماغ میں لہریں منتقل ہو رہی ہیں۔ جیسے ہی یہ لہریں میرے دماغ سے ٹکرائیں میں نے دیکھا کہ میں ایک پُرانے قبرستا ن میں ہوں۔ وہاں دو پرانی قبروں کے درمیان ایک جگہ میں نے مٹی کھودی اور اس میں سے ایک گڑیا بر آمد ہوئی۔ اس گڑیا کے سینے پر میرا نام لکھا ہوا تھا۔ میں نے وہ گڑیا قبرستان کے کنویں میں ڈال دی اور اس وقت پیٹ کا درد ختم ہو گیا۔
وقتِ مقررہ پر میں نے صرف یہ عمل کیا کہ اپنے خیال کی قوت سے مریضہ کو یہ بتایا کہ آپ کے اوپر جو اثر تھا وہ ختم ہو گیا ہے…. جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اوپر کوئی اثر یا جادو نہیں تھا۔
قانونِ تخلیق کے تحت انسان تین پَرت کا مجموعہ ہے:
1. ایک پَرت صفاتی ہے….
2. دوسرا پَرت ذاتی ہے…. اور
3. تیسرا پَرت ذات اور صفات کو الگ الگ کرتا ہے…. اس ہی پَرت کو ہم جسَدخاکی کہتے ہیں….
ہر پَرت کے محسوسات جُداگانہ ہیں….
ذات کا پَرت وہم اور خیال کو بہت قریب سے دیکھتا ، سمجھتا اور محسوس کرتا ہے….
صفات کا پَرت وہم اور خیال کو تصّور بنا کر جسدِ خاکی کو منتقل کر دیتا ہے…. اور تصّورات کو معنی کا لباس پہنا کر خوشی یا غم کا مفہوم دیتا ہے۔ اگر اس کو ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو کسی خوب صورت باغ سے متعلق ہوں تو اس کے اندر رنگین لہریں، رنگین روشنیاں، خوشبو کے طوفان، حسن کے رجحانات رونما ہونے لگتے ہیں اور اگر ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو کسی حادثہ سے تعلق رکھتی ہوں تو اس کے اندر رنگین روشنیوں کی بجائے تاریکی، خوشبو کی جگہ بدبو اور حُسن کی جگہ بد صورتی، خوشی کی جگہ غم ، امید کی بجائے مایوسی اور محبت کی جگہ نفرت جیسے رجحانات رونما ہونے لگتے ہیں۔
قدرت نے جس پَرت کو غیر جانب دار (NEUTRAL) بنایا ہے اس میں دو قسم کے نقوش ہوتے ہیں۔ ایک نقشِ باطن جس کے اندر لطیف انوار کا ذخیرہ ہوتا ہے اور ٹائم اسپیس کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ دوسرا نقش ظاہر، جس کے اندر غرض پسندی، حسد ، ذہنی تعیُّش، احساسِ کمتری ، کم ظرفی اور تنگ نظَری جیسے جذبات تشکیل پاتے ہیں۔
اصل بات خیالات کو معنی پہنانے کی ہے۔ خیالات کو جو معنی دئیے جاتے ہیں وہ تصّور بن جاتا ہے اور پھر یہی تصّور مظاہراتی خدوخال اختیار کر کے ہماری زندگی کی راہ مُتعیّن کرتا ہے…. غم و اَندوہ سے لبریز…. یا…. آرام و آسائش سے بھر پور….
تصّورات میں اگر پیچیدگی ہے تو یہ اُلجھن، اضطراب اور پریشانی کا جامہ پہن لیتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو نقشِ باطن میں خراشیں پڑ جاتی ہیں۔ یہی خراشیں اخلاقی امراض کی بنیاد ہیں۔ ان ہی خراشوں سے بے شمار امراض پیدا ہوتے ہیں مثلاً مِرگی، دماغی فُتور کا عارضہ، مالیخولیاِ، خَفقان، کینسر، بھگندر، دِق اور سِل وغیرہ۔

جب تک ہماری بنیادی خواہشات غیر آسودہ رہتی ہیں ہم مغموم رہتے ہیں۔ یہ غیر آسودگی ہمیں غیر مطمئن اور مضمحل رکھتی ہے۔ زندگی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہم ایسی چیز کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں جس میں مسرت کا پہلو نمایاں ہو۔ چونکہ ہم غم زدہ یا پُرمسرت زندگی گزارنے کے قانون سے ناواقف ہیں اس لئے زیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ ہم مسرت کی تلاش میں اکثر و بیشتر غلط سمت قدم بڑھاتے رہتے ہیں اور نا واقفیت کی بنیاد پر اپنے لئے ایسا راستہ منتخب کر لیتے ہیں جس میں تاریکی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
ہم جب زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ زندگی کے روز و شب اور ماہ و سال آدھے سے زیادہ آزردگی اور مایوسی میں گزر جاتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون سا راستہ ہے جس راستے میں مسرت کی روشن قندیلیں اپنی روشنی بکھیر رہی ہیں۔ وہ کون سی فضا ہے جس میں شبنم موتی بن جاتی ہے ۔ وہ کون سا ما حول ہے جو معطر اور پُر سکون ہے۔ وہ کون سی خوشبو ہے جس سے شعور روشن ہو جاتا ہے۔ ہم نا خوش اور غیر مطمئن اس لئے ہوتے ہیں کہ ہمارے اندر جو خواہش پیدا ہوتی ہے وہ غیر شعوری ہے اور ہم خواہش کے پسِ پردہ ضرورت سے ناواقف ہیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 16 تا 19

ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :

0.1 - اِنتساب 1 - پیشِ لفظ، ٹیلی پیتھی سیکھئے 2 - ٹَیلی پَیتھی کیا ہے؟ 3 - نظر کا قانون 4 - ٹائم اسپیس 5 - کہکشانی نظام 5.1 - حضرت سلیمانؑ کا دربار 5.2 - خیال کی قوت 6 - خیالات کے تبادلہ کا قانون 6.1 - ارتکازِ توجہ 7 - ٹیلی پیتھی کا پہلا سبق 8 - مٹھاس اور نمک 8.1 - آئینہ بینی 10 - ٹیلی پیتھی اور سانس کی مشقیں 11 - ٹیلی پیتھی کا دوسرا سبق 12 - فکرِ سلیم 13 - قبر میں پیر 13.1 - ایک انسان ہزار جسم 13.2 - شیر کی عقیدت 14 - لہروں میں ردوبدل کا قانون 15 - کیفیات و واردت سبق 2 16 - علم کی درجہ بندی 16.1 - شاہد اور مشہود 17 - دماغی کشمکش 18 - ٹیلی پیتھی کا تیسرا سبق 19 - سائنس کا عقیدہ 20 - کیفیات و واردات سبق 3 21 - باطنی آنکھ 21 - تصور کی صحیح تعریف 22 - ٹیلی پیتھی کا چوتھا سبق 23 - 126 عناصر 24 - کیفیات و واردات سبق 4 25 - عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے 26 - قانونِ فطرت 27 - ٹیلی پیتھی کا پانچواں سبق 28 - ٹیلی پیتھی کا چھٹا سبق 29 - قیدو بند کی حالت 30 - چھٹے سبق کے دوران مرتب ہونیوالی کیفیات 31 - ساتواں سبق 32 - ٹیلی پیتھی کے ذریعے تصرف کا طریقہ 33 - آٹھواں سبق 34 - دماغ ایک درخت 35 - رُوحانی انسان 36 - روحانیت اور استدراج
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)