چھٹے سبق کے دوران مرتب ہونیوالی کیفیات

مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45140

ع۔ ص۔ کراچی
حسب دستور مراقبہ کیا۔ مراقبہ میں یہ تصور پوری طرح قائم ہو گیا کہ ناف کہ جگہ ایک روشن نقطہ ہے جو ستارے کی طرح جگمگ کر رہا ہے۔ یکایک ا س نقطہ میں حرکت ہوئی اور یہ ANTI- CLOCK-WISE گھومنے لگا۔ بالکل اس طرح جیسے کوئی بچہ پھلجڑی کو گھماتا ہے یا گھومتی ہوئی آتشبازی جس کے اندر سے روشن پھول گرتے ہیں۔ بس فرق یہ تھا کہ اس نقطہ میں سے بجائے اس کے کہ آتشبازی کی طرح پھول گر یں شعاعیں نکل رہی تھیں۔ ان شعاعوں نے جب زمین کا چکر لگایا تو یہ عقدہ کھلا کہ زمین کے اندر موجود ہر مخلوق میں ایسا ہی ایک روشن نقطہ ہے اور ہر روشن نقطہ کی شعاعیں تمام مخلوق کے روشن نقطوں میں ایک دوسرے سے ردوبدل ہو رہی ہیں ۔ذہن میں اتنی گہرائی پیدا ہو گئی کہ دوسری مخلوق کے روشن نقطہ کی شعاعیں ناف کی جگہ میرے اندر روشن نقطہ میں جذب ہونے لگیں۔ پھر یہ روشن نقطہ، ٹی وی کی طرح، ایک اسکرین بن گیا۔ اور اس میں موجودات کو عکس نمایاں ہونے لگا۔ پہلے مدھم مدھم، پھر ذرا روشن، پھر اور زیادہ روشن۔ انتہا یہ کہ میں نے اپنے اندر اس اسکرین پر زمین کے اوپر تمام مناظرِ قدرت کو فلم کی طرح دیکھا۔
میں اس پر کیف مشاہدے میں اتنا محو ہو گیا کہ ذہن سے یہ بات نکل گئی کہ میرا بھی اپنا کوئی وجود ہے۔ کیفیت کے بعد میں نے یہ محسوس کیا کہ درختوں کے اندر روشن نقطہ مجھے اپنی طرف توجہ کر رہا ہے۔ اور پھر درخت نے مجھ سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ اس درخت نے مھجے بتایا کہ میں فلاں نسل سے تعلق رکھتا ہوں اور میرے آباو اجداد اس سر زمین پر کڑوڑوں سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ پھر میں نے دیکھا کہ پہاڑ کے اندر روشن نقطہ مجھ سے مخاطب ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ میری پیدائش اور نشوونما بھی اسی طرح ہوئی ہے جس طرح زمین کی دوسری مخلوق کی پیدائش عمل میں آئی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ میری نسل میں ٹائم اسپیس کی وہ صورت نہیں ہے جو دوسری مخلوق کے ساتھ ہے۔ میری نشوونما بہت دھیرے دھیرے ہوتی ہے۔ اگر کوئی درخت پانچ سال میں جوان ہوتا ہے تو میری جوانی کا دور ہزاروں سال کے اوپر محیط ہوتا ہے۔ میں نے جب اس کی وجہ دریافت کی تو پہاڑ نے مجھ سے کہا میرے سانس کی رفتار عام حالات سے ہٹ کر ہے۔ میرے ایک سانس کا وقفہ پندرہ منٹ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری نشوونما میں اتنا زیادہ طویل عرصہ لگ جاتا ہے۔
لاہور
رات کو سونے سے پہلے، آدھی رات گزرنے کے بعد میں نے چھٹے سبق کی مشق کی۔ دیکھا کہ میں ایک شیشے کا بنا ہوا خول ہوں۔ اس شیشے میں چھ روشن قمقمے ہیں۔ ایک قمقمہ جو بہت زیادہ روشن ہے میرے جسم میں ناف کے مقام پر آویزاں ہے۔ اس قمقمے کے اندر جو باریک تارہیں ان کی تعداد اتنی ہے کہ جو میرے اندازے کے مطابق شمار میں نہیں آ سکتی۔ قمقمے کے اندر روشن تا ر میں کائنات میں موجود ہر مخلوق بندھی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ قمقمہ کٹھ پتلی نچانے والے کا ہاتھ ہے۔ جب یہ تار ہلتے ہیں تو طرح طرح کی مخلوقات آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہیں۔ نیولے کی طرح ایک جانور کو دیکھ کر میرے اوپر ہیبت طاری ہو گئی۔ یہ جانور اتنا بڑاتھا کہ دور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا تھا کہ کوئی پہاڑ ہے۔ اس کے بعد میں نے زمین پر بہت بڑے بڑے ہاتھی چلتے پھرتے دیکھے۔ جس طرح کوئی مگر مچھ کسی بڑی مچھلی کو نگل جاتا ہے اسی طرح اس پر ہیبت جانور نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہاتھی کا نگل لیا۔ یہ اتنا ڈراؤنا منظر تھا کہ میرے اوپر لرزہ طاری ہو گیا ۔ اور میں مراقبہ جاری نہ رکھ سکا۔
ن۔ اختر، سرگودھا
چھٹے سبق کی مشق کرتے ہوئے ایک مہینہ ہو گئے ہیں۔ ابتدائی دس دنوں میں کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ سر بے انتہا بھاری رہا۔ زیادہ بوجھ سر کے بائیں طرف تھا۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دماغ پھٹ جائے گا۔ جب تکلیف کا احساس بہت دیادہ بڑھ گیا تو میں نے آپ کی ہدایت کے مطابق صبح، شام، رات چینی ملا کر پھلوں کا رس پینا شروع کر دیا۔ اس تکلیف دہ حالت میں بالکل غیر اختیاری طرو پر میں ایک پارک میں چلا گیا۔ وہاں تالاب کے کنارے بیٹھا ہوا خلا میں گھور رہا تھا کہ دماغ میں روشنی کا ایک جھماکا ہوا۔ روشنی کا یہ جھماکا اتنا تیز تھا کہ میری آنکھیں چکا چوند ہو گئیں اور کھلی آنکھوں سے یہ نظر آیا کہ ناف کے مقام سے سورج کی طرح شعاعوں کا ایک دھارا بہہ نکلا ہے۔ اب ایک نئی صورتِ حال پیدا ہو گئی۔ میں نے ان روشنیوں کو تالاب میں تیرتی ہوئی مچھلیوں پر مرکوز کر دیا اس ارادے کے ساتھ کہ تالاب کی تمام مچھلیاں سطحِ آب پر آجائیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تالاب کی تمام مچھلیاں اُوپر آگئیں۔ پھر میں نے یہ ارادہ کیا کہ آدھی مچھلیاں سطح، آب پر تیرتی رہیں اور آدھی مچھلیاں پانیمیں چلی جائیں۔ اس کی بھی تعمیل ہوئی۔ اس کے بعد اپنےا ندر سے نکلنے والی ان لہروں کو میں نے گلاب کے سُرخ پھولوں پر مرکرز کر دیا اس ارادے کے ساتھ کہ پھول کا رنگ سفید ہو جائے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پھول کی سُرخ پنکھڑیاں سفید ہو گئیں۔ لیکن اس بات سے مجھے سخت صدمہ ہوا کہ پھول شاخ پر قائم نہ رہ سکا اور مُر جھا گیا۔
ھدایت: ماورائی علوم سیکھنے والے تمام طلبا و طالبات کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ کوئی کام ایسا نہ کریں جس مین تخریب کا پہلو ہو۔ یہ آب سے سطح۔ آب پر مچھلیوں کو لانے میں اور گلاب کے رنگ کی تبدیلی میں تخریب کا پہلو نمایاں ہے۔ ماورائی علوم اس لئے سکھائے جاتے ہیں کہ انسان اپنی باطنی صلاحیتوں کو بیدار کر کے نوعِ انسانی اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کرے۔
ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ نے ہر چیز تعمیری انداز میں تخلیق کی ہے۔ اسی طرزِ فکر کو بیدار اور اُجاگر کرنے کے لئے وہ اسباق بیان کئے گئے ہیں جو اس روحانیت سے ہم رشتہ ہیں جس کی تصدیق اللہ کی کتاب کرتی ہے اور جس کو عام کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے ہیں۔
تخریبی ذہن کے کسی بندے کو اس کتاب سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں ہے اس لئے کہ تخریبی سےعمل خود اُسے نقصان پہنچے گا۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 162 تا 165

ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :

0.1 - اِنتساب 1 - پیشِ لفظ، ٹیلی پیتھی سیکھئے 2 - ٹَیلی پَیتھی کیا ہے؟ 3 - نظر کا قانون 4 - ٹائم اسپیس 5 - کہکشانی نظام 5.1 - حضرت سلیمانؑ کا دربار 5.2 - خیال کی قوت 6 - خیالات کے تبادلہ کا قانون 6.1 - ارتکازِ توجہ 7 - ٹیلی پیتھی کا پہلا سبق 8 - مٹھاس اور نمک 8.1 - آئینہ بینی 10 - ٹیلی پیتھی اور سانس کی مشقیں 11 - ٹیلی پیتھی کا دوسرا سبق 12 - فکرِ سلیم 13 - قبر میں پیر 13.1 - ایک انسان ہزار جسم 13.2 - شیر کی عقیدت 14 - لہروں میں ردوبدل کا قانون 15 - کیفیات و واردت سبق 2 16 - علم کی درجہ بندی 16.1 - شاہد اور مشہود 17 - دماغی کشمکش 18 - ٹیلی پیتھی کا تیسرا سبق 19 - سائنس کا عقیدہ 20 - کیفیات و واردات سبق 3 21 - باطنی آنکھ 21 - تصور کی صحیح تعریف 22 - ٹیلی پیتھی کا چوتھا سبق 23 - 126 عناصر 24 - کیفیات و واردات سبق 4 25 - عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے 26 - قانونِ فطرت 27 - ٹیلی پیتھی کا پانچواں سبق 28 - ٹیلی پیتھی کا چھٹا سبق 29 - قیدو بند کی حالت 30 - چھٹے سبق کے دوران مرتب ہونیوالی کیفیات 31 - ساتواں سبق 32 - ٹیلی پیتھی کے ذریعے تصرف کا طریقہ 33 - آٹھواں سبق 34 - دماغ ایک درخت 35 - رُوحانی انسان 36 - روحانیت اور استدراج
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)