پیشِ لفظ، ٹیلی پیتھی سیکھئے

مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=25667

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم

حضور قلندر بابا اولیاءؒ جو اس دَور کی ایک عظیم روحانی ہستی ہیں اپنی گراں قدر تصنیف “تذکرہ تاج الدین باباؒ” میں ارشاد فرماتے ہیں:۔
‘‘انسانوں کے درمیان ابتدائے آفرینش سے بات کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ آواز کی لہریں جن کے معنی معین کر لئے جاتے ہیں، سننے والوں کو مُطّلَع کرتی ہے۔یہ طریقہ اس ہی تبادلہ کی نقل ہے جو اَنا کی لہروں کے درمیان ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ:
• گونگا آدمی اپنے ہونٹوں کی خفیف جُنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جاتے ہیں۔یہ طریقہ بھی پہلے طریقے کا عکس ہے۔
• جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو اپنے حال سے مُطّلَع کر دیتے ہیں۔ یہاں بھی اَنا کی لہریں کام کرتی ہیں۔
• درخت آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درختوں میں نہیں ہوتی بلکہ دور دراز ایسے درختوں میں بھی ہوتی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔
• یہی قانون جَمادات میں بھی رائج ہے ۔ کنکروں، پتھروں، مٹی کے ذروں میں مِن و عَن اسی طرح تبادلہ خیال ہوتا ہے۔’’
انبیاءؑ اور روحانی طاقت رکھنے والے انسانوں کے کتنے ہی واقعات اس کے شاھد ہیں ۔
ساری کائنات میں ایک ہی شعور کار فرما ہے۔ اس کے ذریعے…. غیب و شُہود کی ہر لہر دوسری لہر کے معنی سمجھتی ہے، چاہے یہ دونوں لہریں کائنات کے دو کناروں پر واقع ہوں ۔
غیب و شُہود کی فراست اور معونیت کائنات کی رگِ جاں ہے۔ ہم اس رگِ جاں میں جو خود ہماری اپنی رگِ جاں بھی ہے۔ تفکر اور توجہ کر کے اپنے سیّارے اور دوسرے سیّاروں کے آثار و اَحوال کا اِنکشاف کر سکتے ہیں۔ انسانوں اور حیوانوں کے تصّورات، جنّات اور فرشتوں کی حرکات و سکَنات نباتات و جَمادات کی اندرونی تحریکات معلوم کر سکتے ہیں۔”
‘‘مسلسل توجہ دینے سے ذہن کائناتی لا شعور میں تحلیل ہو جاتا ہے اور ہمارے سراپا کا معین پرَت اَنا کی گرفت سے آزاد ہو کر ضرورت کے مطابق ہر چیز دیکھتا، سمجھتا، اور شعور میں محفوظ کر دیتا ہے’’۔

اپریل ۱۹۷۹ء میں جب روحانی ڈائجسٹ میں ٹیلی پیتھی کے اسباق شروع کئے گئے تو ہمارے پیشِ نظر یہی مقصد تھا کہ اس ذریعہ سے پاکیزہ نفسوں، شفاف ذہنوں پر قدم قدم چل کر غیب و شُہود کی وہ فَراست اور معنویّت، توفیق و سعادت کی حدود میں منکشف ہو جائے جو فراست اور معنویّت حضور بابا صاحبؒ کے الفاظ میں کائنات کی اور ہماری اپنی بھی رگِ جاں ہے۔
مقامِ تشکر و اِمتِنان ہے کہ اللہ ربُّ العزّت نے ہماری کوشش کو درجۂِ قبولیت عطا کیا۔ آ ئندہ صفحات میں محفوظ، ٹیلی پیتھی کے اسباق پر عمل پَیرا ہونے والے طلباء اور طالبات کی روح پرور وارِدات و کیفیات اس کی شہادت دیتی ہیں۔

ٹیلی پیتھی یعنی انتقالِ خیال کی تکنیک، سِرّی علوم کی وہ شاخ ہے جسے عصرِ حاضر میں سب سے زیادہ عام توجہ حاصل ہوئی ہے۔
مغربی ممالک میں اور خود ہمارے ملک میں بھی ٹیلی پیتھی کے موضوع پر بے شمار کتابیں اب تک شائع ہو چکی ہیں ان کی علمی و عملی حیثیت پر کوئی تبصرہ کرنا اس وقت مقصود نہیں …. تا ہم اتنا ضرور کہنا ہے کہ انتقال ِ خیال کے علم کو پہلے روحانی ڈائجسٹ کے صفحات میں اور اب اس مکمل کتاب کی صورت میں ، جس نظری تشریح اور عملی رہنمائی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اس کی مثال کتابی علوم میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔ وجہ اسکی یہ ہے کہ جو پیش کیا ہے، اس کا مأخذ انگریزی کتب نہیں بلکہ اس کا سر چشمہ ہمارے روحانی اَسلاف کا وہ عظیم الشان ورثہ ہے جو سینہ بَہ سینہ منتقل ہوتا رہتا ہے۔ یہ ہمارے بزرگوں کا فیضان ہی ہے جس کی بدولت ٹیلی پیتھی سیکھنے والے حضرات خواتین میں وہ طرز ِ فکر منتقل ہوتی چلی گئی جسے رحمانی طرزِ فکر کہا جاتا ہے۔ ان کے رُخ درست ہو گئے اور وہ صراطِ مستقیم پر گامزن ہو گئے۔

اللّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ وَ الشُّکْرُ

اس کتاب کی اشاعت کے اعلان کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکری پھینک دی گئی ہے۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک دائرے بنتے چلے گئےاور ہر دائرہ قبولِ عام کی زندہ تصویر بن گیا۔ اللہ لطیف و خیبر کی طرف سے یہ بہت بڑا انعام ہےکہ کتاب چھپنے سے ہی شہر شہر، قریہ قریہ ، بازاروں اور نجی محفلوں میں اس کا تذکرہ عام ہو گیا۔
میں اپنے کرم فرما دوستوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے خلوص و محبت کی دولت بخشی ہے۔ بواسطۂِ رَحمت اللعالمین ﷺ، اللہ کے حضور دعا ہے کہ میری یہ کوشش مخلوقِ خدا کے لئے ذریعۂِ نجات بنے اور پریشان حال لوگ اس مقام پر فائز ہو جائیں جس کا تذکرہ خود خالقِ کائنات نے ان الفاظ میں کیا ہےـ

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (سورۃ یونس – 62)

جس طرح دنیا میں کسی بھی رائج علم کو سیکھنے کے لئے استاد ایک اہم ضرورت ہے اسی طرح اس کتاب میں دی ہوئی تدبیروں پر عمل کرنے کے لئے کسی استاد کی رہنمائی بہت ضروری ہے۔
موجودہ سائنسی دَور میں علمِ نفسیات (Psychology) اور علم ما بعدُ النّفسیات (Parapsychology) کے استاد اور روحانی (Spiritual) سلسلوں کے فیض یافتہ بزرگ بڑی آسانی کے ساتھ یہ فرائض انجام دے سکتے ہیں۔

وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (سورۃ ھُود – 88)

(خواجہ شمسُ الدین عظیمی)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 6 تا 8

ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :

0.1 - اِنتساب 1 - پیشِ لفظ، ٹیلی پیتھی سیکھئے 2 - ٹَیلی پَیتھی کیا ہے؟ 3 - نظر کا قانون 4 - ٹائم اسپیس 5 - کہکشانی نظام 5.1 - حضرت سلیمانؑ کا دربار 5.2 - خیال کی قوت 6 - خیالات کے تبادلہ کا قانون 6.1 - ارتکازِ توجہ 7 - ٹیلی پیتھی کا پہلا سبق 8 - مٹھاس اور نمک 8.1 - آئینہ بینی 10 - ٹیلی پیتھی اور سانس کی مشقیں 11 - ٹیلی پیتھی کا دوسرا سبق 12 - فکرِ سلیم 13 - قبر میں پیر 13.1 - ایک انسان ہزار جسم 13.2 - شیر کی عقیدت 14 - لہروں میں ردوبدل کا قانون 15 - کیفیات و واردت سبق 2 16 - علم کی درجہ بندی 16.1 - شاہد اور مشہود 17 - دماغی کشمکش 18 - ٹیلی پیتھی کا تیسرا سبق 19 - سائنس کا عقیدہ 20 - کیفیات و واردات سبق 3 21 - باطنی آنکھ 21 - تصور کی صحیح تعریف 22 - ٹیلی پیتھی کا چوتھا سبق 23 - 126 عناصر 24 - کیفیات و واردات سبق 4 25 - عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے 26 - قانونِ فطرت 27 - ٹیلی پیتھی کا پانچواں سبق 28 - ٹیلی پیتھی کا چھٹا سبق 29 - قیدو بند کی حالت 30 - چھٹے سبق کے دوران مرتب ہونیوالی کیفیات 31 - ساتواں سبق 32 - ٹیلی پیتھی کے ذریعے تصرف کا طریقہ 33 - آٹھواں سبق 34 - دماغ ایک درخت 35 - رُوحانی انسان 36 - روحانیت اور استدراج
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)