ٹَیلی پَیتھی کیا ہے؟

مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=25677

سائنس کی دنیا کہکشانی اور شمسی نظاموں سے اچھی طرح رُوشناس ہے۔ کہکشانی اور شمسی نظاموں کی روشنی سے ہماری زمین کا تعلق کیا ہے اور ان نظاموں کی روشنی زمین کی نوعوں، انسانوں، حیوانات، نباتات اور جَمادات پر کیا اثر کرتی ہے یہ مرحلہ سائنس کے سامنے آ چکا ہے۔
سائنس دانوں کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ شمسی نظاموں کی روشنی حیوانات کے اندر، نباتات کے اندر اور جَمادات کے اندر کس طرح اور کیا عمل کرتی ہے اور کس طرح جانوروں ، انسانوں، نباتات اور جَمادات کی کیفیات میں ردّوبدل کرتی رہتی ہے؟
سائنس کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین پر موجود ہر شے کی بنیاد یا قیام لہر اور صرف لہر پر ہے، ایسی لہر جس کو روشنی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔
ٹیلی پیتھی میں ایسے علوم سے بحث کی جاتی ہے جو حواس کے پسِ پردہ شعور سے چھپ کر کام کرتے ہیں۔ یہ علم ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے حواس کی گرفت محض مَفروضہ ہے۔

مثال:
ہم جب کسی سخت چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس چیز کی سختی کا علم ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ہمارے دماغ کے اوپر وہ سخت چیز ٹکراتی نہیں ہے۔ سائنس کے نقطۂِ نظر اور مخفی علوم کی روشنی میں ہر شے دراصل شعاعوں یا لہروں کے مجموعہ کا نام ہے۔ جب ہم کسی لکڑی اور لوہے کی طرف کسی بھی طریقہ سے متوجہ ہوتے ہیں تو لکڑی یا لوہے کی شعاعیں ہمارے دماغ کو با خبر کر دیتی ہیں۔ با خبری کے لئے یہ ضروری نہیں کہ لکڑی یا لوہے کی سختی کو چھو کر محسوس کیا جائے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ شعاع یا لہر اپنے اندر سختی رکھتی ہے اور نہ وزن۔ پھر ہمیں یہ علم کیسے ہو جاتا ہے کہ فلاں چیز سخت ہے، فلاں چیز نرم ہے۔ ہم پانی کو دیکھتے ہیں یا چھو تے ہیں تو فوراً ہمارے دماغ میں یہ بات آ جاتی ہے کہ یہ پانی ہے حالانکہ ہمارے دماغ میں پانی کا کوئی اثر نہیں ہوتا یعنی دماغ بھیگتا نہیں ہے۔ جب ہمارا دماغ بھیگتا نہیں ہے تو ہم یہ کیسے کہہ دیتے ہیں کہ یہ پانی ہے؟
رنگ کی قسمیں ساٹھ سے زیادہ دریافت ہو چُکی ہیں۔ جب ہم کوئی رنگ دیکھتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ ہم اس رنگ کو فوراً پہچان لیتے ہیں بلکہ رنگ کے ہلکے یا تیز اثرات سے براہِ راستمتأثر ہوتے ہیں۔ ہرا رنگ اور ہریالی دیکھ کر ہمیں سکون محسوس ہوتا ہے۔ مسلسل اور متواتر سُرخ رنگ سامنے رہنے سے ہمارے دماغ پر نا گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اعتدال سے زیادہ سُرخ رنگ کے اثرات دماغ کو غیر متوازن بھی کر دیتے ہیں۔
حقائق یہ ہیں کی ہر شئے الگ اور معیّن مقدار کہ ساتھ وجود پذیر ہے۔ لہروں اور شعاعوں کی معیّن مقداریں ہی ہر شئے کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہیں۔ اور ہر شئے کی لہروں یا شعاعیں ہمیں اپنے وجود کی اطلاع فراہم کرتی ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ ہر موجود شئے دراصل لہروں یا شعاعوں کا دوسرا نام ہے اور شئے کی لہر یا شعاع ایک دوسرے سے الگ یا مختلف ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ انسان، حیوانات اور جَمادات کس کس قسم کی لہریں کام کرتی ہیں اور ان لہروں پر کس طرح کنٹرول حاصل کیا جاتا ہے تو ہم ان چیزوں کومتأثر کر سکتے ہیں۔
لہر یا شعاع دراصل ایک جاری و ساری حرکت ہے اور ہر شئے کے اندر لہروں یا شعاعوں کی حرکت کا فارمولا ہے۔
ہمارےاِردگِرد بہت سی آوازیں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ آوازیں بھی لہروں کی شکل میں موجود ہیں۔ ان کے قُطر (Wavelength) بہت چھوٹے اور بہت بڑے ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ چار سو قُطر سے نیچے کی آوازیں انسان نہیں سُن سکتا اور ایک ہزار چھ سو قُطر سے زیادہ اونچی آوازیں بھی نہیں سُن سکتا۔ چار سو قُطر سے نیچے کی آوازیں برقی رَو (لہر) کے ذریعے سنی جا سکتی ہیں۔ اور ایک ہزار چھ سو قطر سے اوپر کی آوازیں بھی بجُز برقی رَو کے سننا ممکن نہیں۔

آنکھ کے پردوں پر جو عمل ہوتا ہے وہ رَو یا لہر سے بنتا ہے۔
آنکھ کی حِس جس قدر ہوتی ہے اتنا ہی وہ رَو کو زیادہ قبول کرتی ہے اور اتنا ہی رَو میں امتیاز کر سکتی ہے۔
ٹیلی پیتھی کا اصل اصول یہی ہے کہ مشق کے ذریعے آنکھ کی حِس کو اس قدر تیز کر دیا جائے کہ صاحب ِمشقِ رَو اور حواس کی لہروں میں امتیاز کر لیں۔ آنکھیں بھی حواس میں شامل ہیں لیکن یہ ان چیزوں کا، جو باہر سے دیکھتی ہیں، زیادہ اثر قبول کرتی ہیں ۔ باہر کے عکس آنکھوں کے ذریعے اندرونی دماغ کومتأثر کرتے ہیں۔ اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ حواس تازہ یا افسردہ ہو جاتے ہیں، کمزور ہو جاتے ہیں یا طاقتور۔ ان ہی باتوں پر دماغی کام کا انحصار ہوتا ہے۔
ہم یہ بتا چکے ہیں کہ ایک ہزار چھ سو قُطر سے نیچے کی آوازیں برقی رَو کے ذریعے سُنی جا سکتی ہیں اور یہ اس لئے ممکن ہےکہ ہمارے تمام حواس اور خیالات بجائے ” برقی رَو ” ہیں ۔ اگر ہمارے خیالات برقی رَو سے الگ کوئی چیز ہوتے تو برقی رَو کو قبول ہی نہیں کرتے۔
ٹیلی پیتھی میں یہی خیالات جو دراصل برقی رَو ہیں، دوسرے آدمی کو منتقل کئے جاتے ہیں۔
خیالات منتقل کرنےکے لئے اس بات کی ضرورت پیش آتی ہے کہ یہ رَو کسی ایک ذرّہ پر یا کسی ایک سمت میں یا کسی ایک رُخ پر مرکوز ہو جائے۔اگر تھوڑی دیر بھی مرکوز رہے تو دُوردَراز تک اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ انسان کو اور ان چیزوں کو جو ذی رُوح نہیں سمجھی جا تیں، ان کو بھی اس رَو کے ذریعےمتأثر کیا جا سکتا ہے۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ باہر نہیں دیکھتے۔ کائنات کا ہر مظہر ہمارے اندر موجود ہے۔ ہم سمجھتے یہ ہیں کی ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ہمارے سامنے موجود ہے… حالانکہ خارج میں کسی شئے کا وجود محض مفروضہ ہے۔ ہر شئے ہمارے Inner میں قیام پذیر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم کسی چیز کا مشاہدہ اپنے اندر کرتے ہیں۔ اور یہ سب کا سب ہمارا علم ہے۔
اگر فی ا لواقع کسی شئے کا علم حاصل نہ ہو تو ہم اس چیز کو نہیں دیکھ سکتے۔
ٹیلی پیتھی میں پہلے پہل یہ مشق کرائی جاتی ہے کہ أشیاء ہمارے اندر موجود ہیں۔ مشق کی تکمیل کے بعد انسان یہ دیکھنے لگتا ہے کہ فلاں چیز میرے اندر موجود ہے اور مسلسل توجہ کے بعد اس چیز پر نظر ٹھرنائی جاتی ہے۔
اِرتکاز ِ توجہ کے لئے سانس کی مشق اور مراقبہ کرایا جاتا ہے۔

 

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 9 تا 15

ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :

0.1 - اِنتساب 1 - پیشِ لفظ، ٹیلی پیتھی سیکھئے 2 - ٹَیلی پَیتھی کیا ہے؟ 3 - نظر کا قانون 4 - ٹائم اسپیس 5 - کہکشانی نظام 5.1 - حضرت سلیمانؑ کا دربار 5.2 - خیال کی قوت 6 - خیالات کے تبادلہ کا قانون 6.1 - ارتکازِ توجہ 7 - ٹیلی پیتھی کا پہلا سبق 8 - مٹھاس اور نمک 8.1 - آئینہ بینی 10 - ٹیلی پیتھی اور سانس کی مشقیں 11 - ٹیلی پیتھی کا دوسرا سبق 12 - فکرِ سلیم 13 - قبر میں پیر 13.1 - ایک انسان ہزار جسم 13.2 - شیر کی عقیدت 14 - لہروں میں ردوبدل کا قانون 15 - کیفیات و واردت سبق 2 16 - علم کی درجہ بندی 16.1 - شاہد اور مشہود 17 - دماغی کشمکش 18 - ٹیلی پیتھی کا تیسرا سبق 19 - سائنس کا عقیدہ 20 - کیفیات و واردات سبق 3 21 - باطنی آنکھ 21 - تصور کی صحیح تعریف 22 - ٹیلی پیتھی کا چوتھا سبق 23 - 126 عناصر 24 - کیفیات و واردات سبق 4 25 - عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے 26 - قانونِ فطرت 27 - ٹیلی پیتھی کا پانچواں سبق 28 - ٹیلی پیتھی کا چھٹا سبق 29 - قیدو بند کی حالت 30 - چھٹے سبق کے دوران مرتب ہونیوالی کیفیات 31 - ساتواں سبق 32 - ٹیلی پیتھی کے ذریعے تصرف کا طریقہ 33 - آٹھواں سبق 34 - دماغ ایک درخت 35 - رُوحانی انسان 36 - روحانیت اور استدراج
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)