لہروں میں ردوبدل کا قانون

مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45100

یہ قانون بہت فکر سے ذہن نشین کرنا چاہئیے کہ جس قدر خیالات ہمارے ذہن میں دَور کرتے رہتے ہیں ان میں بہت زیادہ ہمارے معاملات سے غیر متعلق ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق قریب اور دور کی ایسی مخلوق سے ہوتا ہے جو کائنات میں کہیں نہ کہیں موجود ہو۔ اس مخلوق کے تصورات لہروں کےذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ جب ہم ان تصورات کا جوڑ اپنی زندگی سے ملاتے ہیں تو ہزور کوشش کے باوجود ناکام رہ جاتے ہیں۔ اَنا کی جن لہروں کا ابھی تذکرہ ہو چکا ہے ان کے بارے میں بھی چند باتیں فکر طلب ہیں سائنس دان روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں ۔ لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہیں کہ زمانی مکانی فاصلے کو منقطع کر دے۔ البتہ اَنا کی لہریں لا تناہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہوتی ہیں۔ زمانی مکانی فاصلے ان کی گرفت میں رہتے ہیں۔ بہ الفاظَ دیگر یوں کہہ سکتے ہیں ” ان لہروں کے لئے زمانی مکانی فاصلے موجود ہی نہیں ہیں ۔” روشنی کی لہریں جن فاصلوں کو کم کرتی ہیں اَنا کی لہریں ان ہی فاصلوں کو بجائے خود وجود نہیں جانتیں۔
انسانوں کے درمیان ابتدائے آفرینش سے بات کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ آواز کی لہریں جن کے معنی معین کر لئے جاتے ہیں سننے والوں کو مطلع کرتی ہیں۔ یہ طریقہ ہی تبادلے کی نقل ہے جو اَنا کی لہروں کے درمیان ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی اپنے ہونٹوں کی خفیف سے جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی پہلے طریقے کا عکس ہے۔ جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو اپنے حال سے مطلع کر دیتے ہیں۔ یہاں بھی اَنا کی لہریں کام کرتی ہیں۔ درخت آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درختوں میں نہیں ہوتی بلکہ دور دراز ایسے درختوںمیں بھی ہوتی ہے جوہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں ۔ یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے۔ کنکروں ، پتھروں، مٹی کے ذروں میں من و عن اسی تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
( تذکرہ تاج الدین بابا تصنیف قلندر بابااولیاؒ)
درخت کی سر سبز شاخ آسانی سے مڑ جاتی ہے اور ہم اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق اس میں لچک پیدا کر لیتے ہین۔ اس کے برعکس سوکھی لکڑی کے ساتھ زور آزمائی کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ قدرت کا یہ فیضان جاری و ساری ہے۔ اور اللہ کے قانون کے مطابق:
” جو لوگ اللہ کے لئے جدو جہد کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے اوپر اپنے راستے کھول دیتے ہیں ”
آپ اس قانون کا سہارا لے کر ٹیلی پیتھی سیکھ سکتے ہیں۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 95 تا 96

ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :

0.1 - اِنتساب 1 - پیشِ لفظ، ٹیلی پیتھی سیکھئے 2 - ٹَیلی پَیتھی کیا ہے؟ 3 - نظر کا قانون 4 - ٹائم اسپیس 5 - کہکشانی نظام 5.1 - حضرت سلیمانؑ کا دربار 5.2 - خیال کی قوت 6 - خیالات کے تبادلہ کا قانون 6.1 - ارتکازِ توجہ 7 - ٹیلی پیتھی کا پہلا سبق 8 - مٹھاس اور نمک 8.1 - آئینہ بینی 10 - ٹیلی پیتھی اور سانس کی مشقیں 11 - ٹیلی پیتھی کا دوسرا سبق 12 - فکرِ سلیم 13 - قبر میں پیر 13.1 - ایک انسان ہزار جسم 13.2 - شیر کی عقیدت 14 - لہروں میں ردوبدل کا قانون 15 - کیفیات و واردت سبق 2 16 - علم کی درجہ بندی 16.1 - شاہد اور مشہود 17 - دماغی کشمکش 18 - ٹیلی پیتھی کا تیسرا سبق 19 - سائنس کا عقیدہ 20 - کیفیات و واردات سبق 3 21 - باطنی آنکھ 21 - تصور کی صحیح تعریف 22 - ٹیلی پیتھی کا چوتھا سبق 23 - 126 عناصر 24 - کیفیات و واردات سبق 4 25 - عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے 26 - قانونِ فطرت 27 - ٹیلی پیتھی کا پانچواں سبق 28 - ٹیلی پیتھی کا چھٹا سبق 29 - قیدو بند کی حالت 30 - چھٹے سبق کے دوران مرتب ہونیوالی کیفیات 31 - ساتواں سبق 32 - ٹیلی پیتھی کے ذریعے تصرف کا طریقہ 33 - آٹھواں سبق 34 - دماغ ایک درخت 35 - رُوحانی انسان 36 - روحانیت اور استدراج
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)