کٹھن دور

مکمل کتاب : وقت؟

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19762

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
’’یہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں ہے ہدایت دیتی ہے، ان لوگوں کو جو متقی ہیں ،اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں اور قائم رکھتے ہیں صلوٰۃ اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
(سورۃ البقرہ۔ آیت 2-3)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب قرآن کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اس کتاب میں شک نہیں ہے……
اس کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی کے اوپر یقین کی دنیا روشن ہو…… تفکر کرنے سے یہ علم بھی حاصل ہوتا ہے کہ یقین کرنے والے لوگ ہی متقی اور پرہیز گار ہیں۔ پرہیز گار متقی لوگوں کی تعریف یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ ایمان سے مراد یقین ہے……
یقین کے درجہ پر فائز رہنے والے حضرات و خواتین کیلئے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ صلوٰۃ قائم کرتے ہیں…… اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں……

انسان کی زندگی…… وہ زندگی عالمِ ناسوت کی ہو یا آخرت کی ہو…… اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے…… اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو اپنی مرضی سے جس گھر، جس خاندان میں پیدا کرنا چاہتا ہے، وہاں وہ پیدا ہو جاتا ہے اور جب تک اس دنیا میں اللہ تعالیٰ بندہ کو زندہ رکھتا ہے، بندہ زندہ رہتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ اس دنیا سے بندہ کو عالمِ آخرت میں بھیجتا ہے، بندہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے……
ساڑھے چھ ارب انسان اس بات کو زبانی طور پرتو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس بات پر تمام انسانوں کا ٹھوس یقین نہیں ہے…… چھ ارب انسانوں کی اکثریت بے یقینی کا شکار ہے…… بہت سے لوگوں نے جو کچھ اپنے بزرگوں اور پُرکھوں سے سنا ہے وہ شک اور بے یقینی کے پردوں میں چھپا ہوا ہے……
باشعور انسان اس بات سے واقف ہے کہ ہم زندگی کے تمام مراحل وقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں گزارتے ہیں۔ ہماری زندگی لمحوں، سیکنڈوں، منٹوں، گھنٹوں اور شب وروز پر پھیلی ہوتی ہے۔
سوچنے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ انسان کے اندر طلب پیدا ہوتی ہے لیکن اس طلب کے ساتھ ترک بھی چپکا ہوا ہے…… انسان نہ طلب سے آزاد ہوتا ہے اور نہ ترک کو چھوڑتا ہے…… ترک اور طلب انسانی زندگی کے دو ایسے رخ ہیں جس سے انسان کسی بھی طرح آزاد نہیں ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا۔
اس بات کو اس طرح سمجھنا چاہئے……
آدمی ابھی سوچتا ہے کہ میں کھانا کھاؤں گا…… لیکن اس کے پیٹ میں گرانی ہے، اس لئے وہ کھانے کا ارادہ ترک کر دیتا ہے…… کب تک وہ اس ترک پر قائم رہے گا…… اس کے بارے میں اسے کچھ نہیں معلوم…… علی ہذاالقیاس…… طلب اور ترک کے افکار ہی اس کی زندگی کے اجزائے ترکیبی ہیں…… جو انسان کو ناکام یا کامیاب بناتے ہیں…… ابھی وہ ارادہ کرتا ہے…… پھر اسے ترک کر دیتا ہے…… چاہے منٹوں میں کرتا ہے، چند گھنٹوں میں کرتا ہے یا مہینوں اور سالوں میں ترک کرتا ہے……
اس استدلال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان یقین اور شک کے راستے پر دوڑ رہا ہے……
چونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں یہ بات واضح کر دی ہے کہ شک والا بندہ صاحب یقین نہیں ہوتا…… اور جو بندہ صاحب یقین نہیں ہوتا وہ غیب کی دنیا سے آگاہ نہیں ہوتا……
ساری پریشانیاں، ساری بیماریاں، ہر قسم کی الجھن، بیزاری، دماغی کشمکش، اعصابی کشاکش، رنج و الم، خوف اور غم شک کی دنیا سے وابستہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ دماغ میں شک کو جگہ دینے سے منع فرماتے ہیں…… اور ذہن میں یقین کو پختہ کرنے کا حکم دیتے ہیں……
قرآن پاک میں ارشاد ہے……
’’لاریب ہے یہ کتاب اور اس کو ہدایت دیتی ہے جس کا یقین غیب پر ہے۔‘‘
(سورۃ البقرہ۔ آیت 2)

انسان کے دماغ کا محور یقین اور شک پر ہے۔ شک اور یقین دماغی خلیوں میں ہمہ وقت عمل کرتا رہتا ہے۔ جس قدر شک کی زیادتی ہو گی اسی قدر دماغی خلیوں میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہوتی ہے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ یہی وہ دماغی خلیے ہیں جن کے زیر اثر تمام اعصاب کام کرتے ہیں اور اعصاب کی تحریکات ہی انسانی زندگی ہے……
آدمی کا دماغ اس کے اختیار میں ہے، وہ خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کو یقین کی طاقت سے کم اور زیادہ کر سکتا ہے…… دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ میں کمی سے اعصابی نقصانات کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں……
کائنات کے ہر ذرہ میں ہمہ وقت نور گشت کرتا رہتا ہے…… اور اس طرح گشت کرتا ہے کہ شئے کے محدود ترین مرکز سے بھی گزرتا رہتا ہے……

کائنات کے اجزائے ترکیبی میں جو حرکت ہے وہ نور کی حرکت ہے، اگر اس حرکت کو ذرّات میں سے گزرتے وقت کوئی ناپسندیدہ عمل پیش آ جائے تو ایک طوفانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے…… حرکت میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے…… چونکہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ایک مکمل سسٹم میں تغیر واقع ہو رہا ہے، اس لئے کوئی نہ کوئی اثر مرتب ہوتا ہے……
سائنس یہ ثابت کر چکی ہے کہ انسانی فکر و خیالات کا اثر براہ راست خون اور جسم پر پڑتا ہے…… خیالات میں اگر پراگندگی ہے…… تو خون پر اس کا اچھا اثر مرتب نہیں ہوتا…… مثلاً ایک آدمی سڑی ہوئی غذائیں کھاتا ہے…… یا دوسرا آدمی ایسے خیالات میں زندگی گزارتا ہے جس سے اس کا ضمیر ملامت کرتا ہے…… تو ان حالات میں آدمی کا جسمانی نظام اور شعوری واردات و کیفیات متاثر ہوتی ہیں……
انسان ذہنی طور پر خود غرض ہو کر سب کچھ دنیا کو ہی سمجھنے لگے تو اس سے بار بار لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے…… حق تلفی ایک تخریب ہے…… جس طرح خود غرضی تخریب ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ سے دوری اور دنیا میں انہماک بھی ایک بڑی تخریب اور تباہی ہے…… یہی وہ طرز عمل ہے کہ جس سے انسان کے خیالات میں کثافت پیدا ہوتی ہے…… آج کے دور میں بیماریوں کو ختم کرنے کیلئے نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں…… لیکن ایسے حالات پیدا کرنے کیلئے دوائیوں کی قیمتوں کے مقابلے میں عشر عشیر سرمایہ خرچ نہیں کیا جاتا، جس سے بیماریاں پیدا نہ ہوں…… جن بیماریوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا علاج نہیں ہے، انہی بیماریوں کے علاج میں اتنا زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ عام آدمی کسی بھی طرح علاج نہیں کرا سکتا……
اس وقت دنیا کی آبادی ساڑھے چھ ارب سے زائد ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق ساڑھے چھ ارب انسانوں میں 3ارب 23کروڑ 67لاکھ افراد مندرجہ ذیل بیماریوں میں مبتلا ہیں…… شوگر، بلڈ پریشر کے مریض 17کروڑ70لاکھ…… کینسر کے مریض 5کروڑ 80 لاکھ …… ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریض 52کروڑ…… ملیریا کے مریض 36کروڑ…… ڈپریشن، شیزوفرینیا کے مریض 14کروڑ50لاکھ وغیرہ وغیرہ……
دنیوی اعداد و شمار کے مطابق یہ دور ترقی کا دور ہے!…… انسانی شعور کی معراج کا دور ہے!…… لیکن اگر صحیح معنوں میں غور و فکر کیا جائے تو یہ دوردرماندگی، پریشان حالی، خود غرضی، حق تلفی اور بیماریوں کا دور ہے……
شک اور وسوسہ شعوری کیفیات ہیں…… شعور میں شک ہوتا ہے…… لاشعور میں شک نہیں ہوتا…… لاشعور میں یقین کی دنیا روشن ہوتی ہے…… جب کوئی انسان شعوری زندگی میں ہوتا ہے تو اس کے اوپر ٹائم اسپیس کی گرفت مسلط ہوتی ہے اور وہ شکوک و شبہات میں مبتلا رہتا ہے…… اور جب کوئی انسان لاشعوری زندگی (غیب پر یقین کی زندگی) میں ہوتا ہے تو اس کے اوپر سے وسوسوں اور پریشانیوں کی یلغار ختم ہو جاتی ہے……
ہم اس بات سے واقف ہیں کہ جب ہم کوئی بھی نیک کام کرتے ہیں یعنی صلوٰۃ قائم کرتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں یا کسی غریب کو کھانا کھلاتے ہیں، کسی غریب لڑکی کی شادی کروا دیتے ہیں تو ہمارے اوپر سے وقتی طور پر سہی، رنج و الم کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔
آج کے دور کی پریشانی اور لاعلاج بیماریوں کی وجوہات یہ ہیں کہ انسان کے اندر سے یقین نکل گیا ہے…… شک اور وسوسوں نے اس کو اپنا آلۂ کار بنا لیا ہے…… آفات الٰہی ارضی و سماوی اور لاعلاج بیماریوں سے نجات پانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے احکامات پر پورا پورا عمل کریں۔ شک اور وسوسوں سے دور رہیں اور یقین کو اپنا نصب العین بنائیں……
*****
کسی پریشانی اور بیماری سے نجات پانے کیلئے ضروری ہے کہ اس بیماری اور پریشانی کے اسباب کا علم ہو…… جب ہمیں بیماری کا علم ہو جاتا ہے تو ہم علاج کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں…… ہمارے اندر کتنا شک ہے اور کتنا یقین ہے اس کو جانچنے اور پرکھنے کیلئے ہم ایک گوشوارہ پیش کر رہے ہیں…… اس گوشوارہ میں آپ کو صبح بیدار ہونے کے بعد سے رات کے وقت سونے تک اپنا محاسبہ کرنا ہو گا…… طریقہ یہ ہے کہ…… آپ رات کو سونے سے پہلے یاد کریں کہ صبح سے رات تک آپ نے شک اور وسوسہ میں کتنا وقت گزارا ہے اور یقین کی دنیا میں آپ کتنی دیر رہے ہیں……

نوٹ: خیر و شر کے اعمال کو الگ الگ جمع کر کے دیکھیں کہ آج دن بھر میں کتنے فیصد اچھے کام کئے اور کتنے فیصد بُرے……

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 165 تا 169

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)