اللہ تعالیٰ کی نعمتیں

مکمل کتاب : وقت؟

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17458

ہماری زمین مسائلستان ہے! ..بلکہ سچ یہ ہے….یہ دنیا مصائبستان ہے..مسائل ومشکلات کے سلسلے میں خواتین وحضرات، بزرگ اور جوان..نحیف، کمزور وناتواں..بظاہر تندرست وتوانا لیکن اندر سے کھوکھلے انسان میرے پاس آتے رہتے ہیں..اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ میں عاجز ومسکین بندہ..پرشانیوں، خوفناک بیماریوں اور ذہنی الجھنوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ان سب کو مشورہ دیتا ہوں..

عظیمی بچوں نے جو اب تک ریکارڈ مرتب کیا ہے..اس کے مطابق کم وبیش اب تک انیس لاکھ افراد مجھ عاجز بندے کے مشورے سے فائدہ اٹھا چکے ہیں..
انیس لاکھ افراد سے ملاقات بجائے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے..

میں سوچتا ہوں..یہ لاکھوں افراد بزعمِ خود، خاندانی توقیر، عزت ومرتبہ، کبر ونخوت، امیری غریبی اور مذہب وملت کی تخصیص کے بغیر میرے پاس تشریف لائے..جبکہ میں بظاہر ایک بوریا نشین فقیر، عمر رسیدہ اور کمزور انسان ہوں..میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ انسان جب ’’خود‘‘ سے گزر جاتا ہے تو وہ ایک خول کے سوا اپنے آپ کو کچھ نہیں دیکھتا.. تو دنیا کی ہر چیز اسے محکوم نظر آتی ہے..اس طرح کہ حیات وممات میں اس کا وجود محکوم و مجبور ہے..
اگر انسان ایک دن کی پوری رودادِ زندگی قلمبند کرے اور بیدار ہونے کے وقت سے بستر میں جانے کے وقت تک کا محاسبہ کرے تو وہ یقیناً اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ماہ وسال کی یہ ساری زندگی ایک روٹین ہے..اور اس روٹین میں ہر انسان ہمہ وقت یکسانیت کے گرداب میں پھنسا رہتا ہے..لیکن بڑی عجیب بات یہ ہے کہ اس روٹین کی زندگی کا ہر عمل اس کیلئے نیا ہے..

وہ ہر روز کہتا ہے..سورج نیا نکلا ہے..

ہر روز ایک ہی نام سے، ایک سے حالات میں تقریباً یکساں رد وبدل ہونے والی کیفیات میں وہ دنوں کی گنتی گنتا رہتا ہے..اور دنوں کے شمار کو وہ نیا دن کہتا ہے..
قارئین! ..
آپ سے گزارش ہے کہ آپ سوچ کر بتایئے کہ ہر دن نیا دن کس طرح ہے؟ ..اور ہر روز ایک ہی افق سے نکلنے والے ایک ہی سورج کو ہم نیا سورج کیوں کہتے ہیں؟..
کیسی عجیب بات ہے کہ سورج ہر روز نیا نکلتا ہے اور سورج کے علاوہ کوئی چیز بظاہر تبدیل نہیں ہوتی..اگر ہم نے گھر میں ایک مہینے کا آٹا اور راشن رکھا ہوا ہے تو ہم ایک مہینے تک اسی آٹے اور راشن کو کھاتے ہیں..جس کمرے میں سوتے ہیں اس کمرے کے طول وعرض، لمبائی چوڑائی اور جو کچھ اس کمرے میں سامان رکھا ہوا ہے..ہمیں اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی..کھیت کھلیان، دیہات، شہر، ٹاؤن اور شہر کے اندر سڑکیں، تعمیرات..مندر، گرجا، مساجد..کسی میں ہمیں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی..اور ہم کہتے ہیں کہ سورج نیا نکلا ہے! ..اور دن نیا نکلا ہے! ..
جب آپ غور و فکر کریں گے..ایک بات آپ کو ناصرف محسوس ہو گی بلکہ یقین کا درجہ حاصل کر لے گی کہ چیزیں تبدیل ہو رہی ہوں یا نہ ہو رہی ہوں..
لیکن زمین پر رہنے والا ہر انسان روز تحلیل ہو رہا ہے..
اس کی زندگی کم ہو رہی ہے..
وہ کہیں دور ماضی میں گم ہو رہا ہے….
اور اس طرح گم ہو رہا ہے کہ ٹٹولنے کے علاوہ اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا..
وہ اس بات کا بھی مشاہدہ نہیں کرتا کہ اس کی زندگی کہاں گم ہو رہی ہے؟ ..
ایک خاتون، ایک مرد..دو افراد میرے پاس آئے..
انہوں نے کہاکہ..ہم پریشان ہیں..
غم نے ہمیں دبوچ لیا ہے..
خوف ہمیں ڈراتا ہے..
ہمیں خوفناک ڈراؤنے خواب نظر آتے ہیں..
نیند ہم سے روٹھ گئی ہے..
پریشانی ہمارا منہ چڑاتی ہے..
بیماریاں ہمارے تعاقب میں ہیں..
ہم زندہ ہیں! ..مگر زندگی ہمارے وجود کو ڈس رہی ہے..
ہم ہنستے ہیں..مگر ہماری ہنسی اور مسکراہٹ مصنوعی ہے..
ہم روتے ہیں..لیکن ہمارا رونا بھی ایک المیہ ہے..
اس لئے کہ رونے سے بھی غبار دل نہیں دھلتا..
ہم کیا کریں؟ ..کس طرح خوش رہیں؟ ..
زندگی میں در آنے والے طوفان کو کس طرح روکیں؟ ..
مر مر کے جینا..جینا تو نہیں ہے؟ ..
لگتا ہے کہ ہمارے دل نور سے خالی ہیں..اور بغض وعناد سے بھرے ہوئے ہیں! ..
ہماری سوچ زہریلی سوچ بن گئی ہے..ہم سوچ کر بھی خوش نہیں ہوتے..
خوف اور غم کے دبیز سائے ہمیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں..
سکون کیا ہے؟..
ہم نہیں جانتے..
راحت کسے کہتے ہیں؟ ..
ہمارے لئے ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے! ..
آخر ہم زندہ کیوں ہیں؟ ..
وہ فرحت وانبساط ہمیں کیوں حاصل نہیں ہے..جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں..اور بڑی بوڑھیوں، نانی دادی سے سنتے ہیں؟؟..
ہم یہ سمجھتے ہیں..یہ سب افسانے ہیں جو لوگوں نے خود کو مطمئن کرنے کیلئے یا باالفاظ دیگر ILLUSIONمیں خود کو مبتلا کرنے کیلئے..لکھ لئے ہیں..بنا لئے ہیں..
یہ المناک داستان سن کر..میں نے ان سے پوچھا..
آپ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کا رواج ہے..ہر ملک اور ہر قوم میں یہ قانون نافذ ہے..کہ ملکیت اس وقت ہوتی ہے..جب اس کی قیمت ادا کی جائے..
غربت کی انتہا..چونسٹھ گز کا مکان! ..یا امارت کا عروج..تین ہزار گز کا پلاٹ! ..بغیر قیمت ادا کئے کسی آدمی کی ملکیت نہیں بنتا..
انسان کی زندگی میں پانی ایک اہم وسیلہ ہے..آپ گھروں میں پانی کے ٹینکر ڈلوائیں..یا فلیٹوں کے برآمدوں میں ٹینکیاں بنوائیں..یا واٹر بورڈ کو پانی کا ٹیکس ادا کریں..پانی آپ کو بغیر قیمت کے نہیں ملتا..
تاریکی دور کرنے کیلئے روشنی چاہئے..
اس روشنی کا متعارف نام بجلی ہے..بجلی کا ایک یونٹ بھی اگر جلایا جائے تو ہم اس کی قیمت ادا کرتے ہیں..
اگر خدانخواستہ ہم میں سے کسی خاتون یا مرد کو آکسیجن کی ضرورت پیش آجائے تو چھتیس گھنٹوں کے استعمال کیلئے..ہم تقریباً آٹھ ہزار روپے کی قیمت ادا کرتے ہیں..
بائی پاس سرجری کا مسئلہ درپیش ہو..تین لاکھ سے سات لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں..
گردوں کے نظام میں خلل واقع ہو جائے.. Dialysis کیلئے بھی ایک خطیر رقم ہم خرچ کرتے ہیں..
اس کے برعکس روشنی دھوپ بھی ہے..ٹھنڈی روشنی چاندنی بھی ہے..ہم اس کے لئے ایک پیسہ خرچ نہیں کرتے..
جس زمین پر ہم چلتے پھرتے ہیں..دفاتر اور مکانات تعمیر کرتے ہیں..
وہ زمین دراصل اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے!..
آیئے..چند سیکنڈ کیلئے..اپنے اندر جھانکیں..اور خود سے سوال کریں..اس زمین کے أصل مالک اللہ تعالیٰ کو ہم نے کتنی قیمت ادا کی؟ ..
ہوا..زندگی کی بنیادی ضرورت ہے..اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ابھی تک اجارہ داروں کو ہوا پر اقتدار حاصل نہیں ہوا..ورنہ ہر انسان کو سانس لینے کیلئے بھی ٹیکس ادا کرنا پڑتا..
ہوا کے ساتھ انسان کے اندر آکسیجن جل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ بنتی ہے..زندگی کا اصل ایندھن آکسیجن ہے..
ذرا غیر جانبدار ہو کر سوچئے کہ..ہوا، آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جس کی وجہ سے ہم زندہ ہیں..ہم اس کا کتنا ماہانہ بل ادا کرتے ہیں؟ ..
ہم پانی پیتے ہیں..ظالم انسان کی خود غرضی کی بناء پر اب ہم بوتلوں کے ذریعے پینے کا پانی حاصل کرتے ہیں..ایک بوتل 30روپے کی آتی ہے..تقریباً چار بوتل پانی ایک آدمی روزانہ پی لیتا ہے..یوں ایک روز میں ایک آدمی 120روپے کا پانی پیتا ہے..اور ایک مہینے میں 3600روپے پینے کے پانی پر خرچ کرتا ہے..
دوسری ضروریات کیلئے پانی کا استعمال الگ ہے..

سوال یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو پانی کے کتنے پیسے بھیجتے ہیں؟ ..

یہ انسانی ضروریات کا مختصر سا خاکہ ہے..اب انسان کے جسم کی طرف توجہ فرمائیں..
جسم ایک صندوق ہے..اس صندوق میں پھیپھڑے، دل، معدہ، آنتیں، گردے، لبلبہ، پتہ وغیرہ ایک ترتیب اور توازن سے لٹکے ہوئے ہیں..
جب ہم کوئی مشین چلاتے ہیں..مشین کے کل پرزوں کو متحرک رکھنے کے لئے اس میں گریس ڈالتے ہیں..اس میں بجلی دوڑاتے ہیں..مشینوں کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے ائیر کنڈیشنر کا اہتمام کرتے ہیں..
ہمیں خود سے سوال کرنا ہے کہ ہمارے اندر جو مشینری..کھڑے چلتے، سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے..مسلسل چل رہی ہے..اس مشین کے چلنے میں ہم کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ ..کتنا بل Payکرتے ہیں؟ ..

ہماری پیشانی میں دو آنکھیں ہیں..ہم ان آنکھوں سے دیکھتے ہیں..اگر آنکھیں نہ ہوں..ہم کچھ نہیں دیکھ سکتے..آنکھیں اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی نعمت ہیں کہ اگر آنکھیں نہ ہوں تو دنیا کی ہر نعمت ہیچ اور بے کار ہے..
میں نے ان دونوں بچوں کو مشورہ دیا کہ آپ رات کو سونے سے پہلے یہ سوچیں کہ دن بھر میں آپ نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتیں استعمال کی ہیں..اس کو ایک ڈائری میں لکھیں..اور ڈائری تکیے کے نیچے رکھ کر سو جائیں..صبح جب آپ بیدار ہوں..ایک مرتبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھیں..اور یہ سوچیں کہ اگر ہم اندھے اٹھتے تو پھر کیا ہوتا؟..

ایک ہفتے کی اس مشق کے بعد آپ اپنے حالات آ کر بتائیں..

قارئین!.. آپ یقیناً حیرت کے دریا میں ڈوب جائیں گے..کہ ان دونوں بچوں نے مجھے آ کر بتایا کہ ہمارے اوپر سے خوف کی دبیز چادر اتر گئی ہے..ہم خوش ہیں کہ ہم اندھے نہیں ہو گئے..ہم خوش ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت مفت استعمال کرتے ہیں..

میرے بچو!..
آپ بھی روزانہ یہ عمل دہرائیں..رات کو سونے سے پہلے اپنا محاسبہ کریں..کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی کتنی نعمتیں حاصل کیں..اور ان نعمتوں میں سے کتنی نعمتوں کا شکریہ ادا کیا..ڈائری میں لکھیں..اور تکیے کے نیچے رکھ کر سو جائیں..صبح بیدار ہونے کے بعد ایک مرتبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھیں اور یہ سوچیں کہ اگر ہم اندھے اٹھتے تو کیا ہوتا؟ ..
*****
کسی سوداگر نے ایک خوبصورت طوطا پال رکھا تھا..اس طوطے میں ایک خوبی یہ تھی کہ یہ انسانوں کی طرح باتیں کرتا تھا..طوطے کے پر کٹے ہوئے تھے اور دکان میں گھومتا رہتا تھا..
خوبصورت طوطے کے بولنے کی وجہ سے دکان میں رونق لگی رہتی تھی..جب کوئی چور اُچکا چوری کی نیت سے کوئی چیز اٹھاتا تھا تو طوطا بولنے لگتا تھا..چور، چور..چور..
ایک روز بلی نے چوہے کو پکڑنے کیلئے حملہ کیا..طوطا یہ سمجھا کہ بلی مجھے شکار کرنا چاہتی ہے..طوطا! اپنی جان بچانے کیلئے ایک طرف بھاگا..وہاں روغن بادام سے بھری ہوئی بوتل سے ٹکرا گیا..بوتل گری..اور بادام کا تیل بہہ گیا..سوداگر نے جب یہ دیکھا کہ طوطے کی وجہ سے بادام کا قیمتی تیل ضائع ہو گیا ہے..تو اس نے طوطے کو گنجا کر دیا..
طوطے نے احتجاج کے طور پر بولنا چھوڑ دیا..
طوطے کو چپ کیا لگی کہ دکان کی رونق ہی ختم ہو گئی..کاروبار مندا ہو گیا..کئی روز تک سوداگر طوطے کی خوشامد کرتا رہا..ہری مرچ، امرود اور انار طوطے کو کھانے کے لئے دیئے کہ یہ خوش ہو کر دوبارہ بول پڑے..لیکن طوطے نے چپ سادھ لی..ہفتوں، مہینوں گزر گئے طوطا نہیں بولا..ایک روز دکان پر ایک کمبل پوش فقیر آیا..اس کا سر منڈا ہوا تھا..فقیر کو دیکھ کر طوطا ایک دم بول پڑا..تُو نے بھی تیل گرایا ہو گا..
*****
آپ نے گنّا اور بانس ضرور دیکھا ہو گا..دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں..دونوں زمین سے آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں..دونوں زمین میں سے ایک ہی پانی پیتے ہیں، جبکہ گنّا میٹھا اور رس دار ہوتا ہے..اور بانس اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے..
(مثنوی مولانا رومؒ)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 23 تا 28

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)