رسول اللہﷺ کی تعلیمات

مکمل کتاب : وقت؟

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17480

کوئی بھی انسان جب اس عالم رنگ و بو میں پیدا ہوتا ہے تو اسے بات سمجھنے یا سمجھانے کا طریقہ نہیں آتا..وہ آہستہ آہستہ نشوونما کے عمل سے گزرتا رہتا ہے..ماں اس کے لئے رول ماڈل بن جاتی ہے..ماں اسے جس چیز کا جو نام بتاتی ہے وہی اس کے حافظے پر نقش ہو جاتا ہے..اس طرح وہ دنیا میں رہنے کا ڈھب اور چیزوں کا نام ماں سے سیکھتا ہے..
القصہ مختصر..! دنیا کا کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا کام ہو یا بڑے سے بڑا پلان، تربیت کا عمل ہو یا کسی کارخانے میں مشین کی تیاری، کیمیکل کی مکسنگ ہو یا دواؤں کی پروڈکشن اور تعلیم سیکھنے کا عمل ہو یا اخلاقی اقدار کا حصول، سائنسی ایجادات ہو یا تسخیری فارمولے..
ان سب کے پس منظر میں رہنمائی امرِ لازم ہے..
جب ہم اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بات کرتے ہیں تو لامحالہ یہاں بھی کوئی نہ کوئی مثال موجود ہوتی ہے..ابتدا میں اخلاق کی درستی کیلئے والدین رول ماڈل بنتے ہیں، کہیں استاد یہ ذمہ داری پوری کرتا ہے، کہیں خاندان کے بزرگ رہنمائی کرتے ہیں..
کردار سازی میں کتابیں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ ان میں کہیں نہ کہیں جھول آ جاتا ہے جس کی وجہ سے جامعیت باقی نہیں رہتی..لہٰذا جب ہم انبیائے کرام کی اعلیٰ شخصیات پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ان میں جامعیت نظر آتی ہے..اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت مبارکہ ہمارے لئے بہترین رول ماڈل ہے.. آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہ کے اخلاقی پہلو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں..کردار سازی کے ان نبوی فارمولوں سے ہم اچھے باپ، رفیق، شوہر، بہن، بھائی، ہمدرد مالک، وفادار ملازم اور اچھے شہری بن سکتے ہیں..
دنیا میں خیر پر مبنی تمام تصورات ہمیں سیرت طیبہ میں نظر آتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے ذریعے ایک پر امن معاشرے کی تشکیل کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک اُجڈ، غیر مہذب، جاہل اور پسماندہ قوم کو ایسے گرانقدر اور سنہری اصول زندگی سکھائے جس کی بناء پر اسی قوم کے اندر ایک زبردست اور انقلابی تبدیلی رونما ہوئی اور ایک پرامن معاشرہ کی تشکیل ممکن ہوئی۔ عرب جیسی پسماندہ قوم کے اندر اس تبدیلی نے دنیا کو اسی طرح متاثر کیا جس طرح گھور اندھیرے میں چمکتا سورج آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ یہاں ہم تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند بیش قیمت جوہر پیش کر رہے ہیں۔ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونا امت محمدیﷺ کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
رب العالمین کے محبوب رحمت اللعالمین سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
’’اور تم اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو تو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے گی‘‘.. (بحوالہ حاکم)
’’اس کی ناک خاک آلود ہو‘‘ (یعنی ذلیل ہو)
یہ بات آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تین بار دہرائی۔ لوگوں نے پوچھا کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! کون ذلیل ہو‘‘..رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’وہ شخص جس نے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور ان دونوں میں سے ایک کی یا دونوں کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوا‘‘۔ (مسلم)
’’اے لوگو! تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں اور اسی طرح تم پر تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں۔ عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کے ہمیشہ پابند رہو کیونکہ وہ تمہاری زیر نگرانی ہیں اور اس حیثیت میں نہیں کہ اپنے معاملات خود چلا سکیں، عورتوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو..تم نے ان کو اللہ تعالیٰ کی امانت کے طور پر حاصل کیا اور اللہ تعالیٰ کے کلمات کے ذریعے جائز اور حلال کیا ہے۔‘‘
(سیرت ابن ہشام۔ جلد دوم)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’میرے پاس ایک عورت آئی، اس کے ساتھ دو بچیاں تھیں، وہ مجھ سے کچھ مانگنے آئی تھی۔ اس وقت میرے پاس سوائے ایک کھجور کے کچھ اور نہ تھا، وہی میں نے اسے دے دی۔ اس نے اس کھجور کو ان دونوں لڑکیوں میں برابر تقسیم کر دیا اور خود کچھ نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کے بعد حضرت نبی صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس تشریف لائے تو میں نے اس عورت کا حال بیان کیا کہ باوجود بھوکی ہونے کے اس نے اپنے اوپر دو بچیوں کو ترجیح دی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کو اس کی بچیوں کے ذریعہ آزمائش میں ڈالا گیا، پھر اس نے ان بچیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بچیاں اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی۔‘‘
(بخاری۔مسلم)
’’مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کے دروازے پر چکر لگاتا ہے اور ایک لقمہ، دو لقمے اور ایک کھجور، دو کھجور لے کر لوٹتا ہے بلکہ مسکین وہ ہے جو اتنا مال نہیں رکھتا کہ اپنی ضرورت پوری کر سکے اور اس کی غربت کو لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ اسے صدقہ دیں اور نہ ہی وہ لوگوں کے سامنے کھڑا ہو کر ہاتھ پھیلاتا ہے‘‘
(بخاری۔مسلم)
’’ہر نیک کام صدقہ ہے اور یہ بھی نیک کام ہے کہ تو اپنے بھائی سے ہنستے کھیلتے چہرے کے ساتھ ملاقات کرے۔‘‘
(بخاری)
’’اُکھڑ پن جس چیز میں ہو گا اسے بدنُما کر دے گا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نرمی والا ہے اور نرمی پسند کرتا ہے۔‘‘
’’مسلمان کی سعادت اور خوش بختی کی علامت تین چیزیں ہیں: (۱) کشادہ مکان۔ (۲) اچھا پڑوسی۔ (۳) مناسب اور اچھی سواری۔
(الادب المفرد۔ صفحہ نمبر 20)
’’مومن سراپا محبت و الفت ہے، اس شخص میں کوئی خیر نہیں جو نہ کسی سے الفت رکھتا ہے اور نہ کوئی اس سے مانوس ہے۔‘‘
(مشکوٰۃ)
’’راست باز، امانت دار تاجر روز حشر نبیوں، صدیقوں اور شہداء کے ساتھ ہو گا‘‘
(مشکوٰۃ)
’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ دوستی قائم کرنے سے پہلے دیکھ لینا چاہئے کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو..؟‘‘
(مشکوٰۃ)
’’اپنے بھائی کی رہنمائی کرو‘‘
(مستدرک حاکم)
’’عمل کرتے رہو، جو شخص جس کام کیلئے پیدا کیا گیا ہے اس کیلئے وہ آسان ہے‘‘
(امام بخاری و مسلم)
’’جس کو عقل دی گئی اس نے فلاح پائی۔‘‘
(بخاری)
’’اپنی اولاد کی عزت کرو، اور ان کو اچھے آداب سکھاؤ‘‘..
(بخاری)
’’سچا وعدہ ایمان کی علامت ہے۔‘‘
(مستدرک حاکم)
’’نماز سکون، عاجزی اور تواضع اختیار کرنے کا نام ہے۔‘‘
(مسلم)
’’میانہ روی آدھی زندگی ہے اور حسن خلق آدھا دین ہے۔‘‘
(سن الکبریٰ، صغریٰ۔ شعب الایمان)

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 47 تا 50

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)