روح

مکمل کتاب : وقت؟

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17488

زمین پر آباد تمام مخلوقات میں سب سے ممتاز مخلوق انسان ہے..
انسان کی کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب وہ پیدا ہوتا ہے۔
جب وہ پیدا ہوتا ہے تو آنکھ، کان، ناک، منہ، سب کچھ ہونے کے باوجود اس کے اندر حواس نہیں ہوتے..اگر حواس ہوتے ہیں تو ان حواس کو ہم کسی بھی طرح دنیوی حواس نہیں کہہ سکتے..یعنی انسان کا نومولود بچہ شعوری اعتبار سے یا دنیوی اعتبار سے کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے..نہ اس کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ دن کیا ہے؟ ..اور نہ وہ اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ دن کے بعد رات کیوں آتی ہے؟ ..اور رات دن میں کیوں تبدیل ہو جاتی ہے؟ ..نہ اسے رشتوں ناطوں کا کچھ علم ہوتا ہے!..اگر فوری طور پر اس کو ماں سے جدا کر دیا جائے تو وہ اپنی ماں کو بھی نہیں پہچانتا۔
جسمانی طاقت کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ خود سے کروٹ نہیں بدل سکتا..چہرے پر اگر مکھی بیٹھ جائے تو اسے اڑا نہیں سکتا..اٹھ کر بیٹھ نہیں سکتا..ٹانگیں اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ اٹھ کر کھڑا بھی نہیں ہو سکتا..آواز کا Pollutionاس کے لئے اتنا زیادہ ناگوار ہوتا ہے کہ اگر اس کے سامنے اخبار کا صفحہ پلٹا جائے تو اس آواز سے وہ سہم جاتا ہے، ڈر جاتا ہے..ذرا سی اونچی آواز برداشت کرنے کی اس میں سکت نہیں ہوتی۔
پھر جب یہی بچہ!. ..جسے ہم گوشت پوست کا لوتھڑا بھی کہہ سکتے ہیں..اس کے اندر آواز کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے..بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے..تب وہ اپنی مرضی سے کروٹ بھی بدل لیتا ہے..بیٹھ بھی جاتا ہے..گھٹنوں کے بل چلتا ہے..بعد میں ٹانگوں پر کھڑا ہو جاتا ہے..اور ایک زمانہ گزرنے کے بعد اس کا جسم اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہی بچہ جو خود سے کروٹ نہیں لے سکتا تھا، دو ڈھائی من بوجھ بڑی آسانی سے اپنی کمر پر لاد لیتا ہے..اس کے جسم میں اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ وہی بچہ جو خود سے اٹھ نہیں سکتا تھا، کئی آدمیوں کا مقابلہ کر کے ان کو شکست دے دیتا ہے..اگر دُھن کا پکا ہو اور یقین اس کے اندر کام کرتا ہو تو پہاڑوں کو کاٹ ڈالتا ہے..زمین کو کھود دیتا ہے..زمین کی تہہ میں سے پانی نکال لیتا ہے..پیٹرول دریافت کر لیتا ہے..جس بچہ کو الف کہنا نہیں آتا، وہ Ph.Dکر لیتا ہے..
یہ کیسی عجیب کہانی ہے کہ ایک بچہ جو عقل و حواس اور شعور کے نام سے واقف ہی نہیں تھا، وہ دنیا میں دانشور کہلاتا ہے اور دانشوروں کی سی بڑی بڑی باتیں بھی کرتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے جو آدم سے شروع ہوا اور ہمارے زمانے تک بتدریج ارتقا پذیر ہے۔
یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جب بچہ پہلے دن زمین پر آیا تو اس کے اندر شعور نہیں تھا، لیکن آخر اب اس کے اندر شعور کیسے پیدا ہو گیا؟..دوسری بات یہ بھی تفکر کے لائق ہے کہ شعور پیدا کیوں ہوا؟ ..اس گوشت پوست کے لوتھڑے میں اتنی طاقت آخر کہاں سے پیدا ہو گئی؟ ..
پہلی بات یہ ہے کہ بچہ جب اس دنیا میں آیا..
یہاں جب ہم نے یہ کہا کہ ’’بچہ آیا‘‘..تو لامحالہ ہم یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ بچہ کہیں سے آیا.. بچہ کہاں سے آیا؟ ..
مذہب اس بات کا جواب دیتا ہے کہ بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے عالم ارواح میں رہتا تھا..وہاں سے سفر کر کے ایک روح آئی..یعنی ایک بچہ ایک روح ہے..اس طرح ایک لاکھ بچے پیدا ہوئے تو ایک لاکھ روحیں آئیں..اور جب وہ روحیں یہاں آ گئیں تو ان میں اس دنیا کا شعور نہیں تھا..
جیسے جیسے روح نے اپنے بنائے ہوئے جسم کو نشوونما دی، اس دنیا کا شعور بچے کے اندر منتقل ہوتا رہا..
بچہ جب دنیا میں پیدا ہوا تو وہ سنتا بھی تھا..بولتا بھی تھا یعنی روتا تھا..ہاتھ پیر ہلاتا تھا..ہنستا بھی تھا..اس کے پاس اگر کوئی ناگوار آواز گزرتی تھی تو وہ ڈر بھی جاتا تھا..لیکن اس کے اندر دنیوی شعور اس طرح نہیں تھا جس طرح کسی دس سال یا چھ سال کے بچے میں ہوتا ہے۔
جب بچہ پیدا ہوا تو اس کے پاس سماعت بھی ہے..بصارت بھی ہے..شامہ بھی ہے..لمس بھی محسوس کرتا ہے..اس کے ہاتھ پیر میں جان بھی ہے..بول و براز کا نظام بھی متحرک ہے..لیکن آخر وہ کون سی ایسی چیز ہے کہ جو دنیا میں آنے کے بعد نومولود میں نہیں تھی؟..
بچے کے اندر نوع انسانی کے بالغ شعور افراد کی طرح دنیوی چپک، دنیوی خواہشات اور ناقص طرز عمل نہیں تھا..بچے کے اندر جو شعور موجود تھا وہ پاکیزہ شعور تھا..اس شعور میں کھوٹ اور ملاوٹ نہیں تھی..
آپ سب اس بات سے واقف ہیں کہ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا رہتا ہے اسی مناسبت سے وہ جھوٹ بھی بولتا ہے..سچ بھی بولتا ہے..چوری بھی کرتا ہے..ڈاکہ بھی ڈالتا ہے..نیک کام بھی کرتا ہے..برے کام بھی کرتا ہے..لیکن وہ یہ سب کچھ پیدا ہوتے ہی نہیں کرنے لگتا..اس شعور کو Developہونے میں کم از کم دس بارہ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے..اور بارہ سال سے اٹھارہ سال کی عمر میں وہ دنیوی نقطۂ نظر سے بالغ شعور کہلاتا ہے..
اس سے یہ ثابت ہوا کہ نومولود بچے کے اندر دیکھنے کی جو صلاحیت ہے، وہ درحقیت روح کی صلاحیت ہے!..وہ عالم ارواح سے دیکھتا ہوا آیا ہے..اگر اس کے اندر سننے کی صلاحیت ہے تو وہ اس کی روح کی صلاحیت ہے..عالم ارواح میں جن کانوں سے وہ سنتا تھا وہ دنیا میں آنے کے بعد بھی انہی کانوں سے سنتا ہے..اسی طرح اگر اس کے اندر بولنے کی صلاحیت ہے تو وہ صلاحیت بھی روح کی ہی صلاحیت ہے!..
والدین، خاندان اور ماحول جس قسم کی طرز فکر بچے کے اندر اُنڈیل دیتے ہیں، بچہ اس طرز فکر میں ڈھل جاتا ہے..
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جب بچہ پیدا ہوا، اس کے اندر دیکھنے کی صلاحیت نہیں تھی!..آنکھیں تھیں..آنکھوں میں روشنی بھی تھی..وہ دیکھتا بھی تھا..لیکن اپنی ماں کو یا باپ کو دیکھ کر پہچاننے کی صلاحیت اس میں نہیں تھی..جیسے جیسے وقت گزرا اس نے ماں کو بھی پہچانا، باپ کو بھی پہچانا، بہن بھائی کو بھی پہچانا..چلنے بھی لگا..باتیں بھی کرنے لگا..نیکیاں بھی کرنے لگا..عبادت بھی کرنے لگا..غیبت بھی کرنے لگا..چوریاں بھی کرنے لگا..چوری سے پرہیز بھی کرنے لگا..
یہاں ہمیں دو باتوں کا پتہ چلتا ہے..اول یہ کہ ہماری مادی زندگی میں جسم کی ذاتی حرکت کوئی نہیں ہے اور اس کے ثبوت کیلئے بچپن کی مثال ہمارے سامنے ہے..دوسری مثال یہ ہے کہ بالفرض ایک آدمی 40سال کی عمر کا ہے، اس کے اوپر موت وارد ہو جاتی ہے..
موت وارد ہونے کا کیا مطلب ہوا؟..
جسم موجود ہے، جسم میں آنکھیں بھی ہیں، کان بھی موجود ہیں، ہاتھ پیر بھی ہیں، دل بھی ہے لیکن جب روح نکل گئی تو اب اس کے اندر کوئی صلاحیت نہیں ہے..اب اس کی پوزیشن پہلے دن کے بچے کی طرح ہے..جس طرح بچہ کروٹ نہیں بدل سکتا، اسی طرح مردہ آدمی کروٹ نہیں بدل سکتا..جس طرح بچہ بیٹھ نہیں سکتا، اسی طرح مردہ بیٹھ نہیں سکتا..جس طرح ایک بچہ وزن نہیں اٹھا سکتا، اسی طرح ایک مردہ آدمی بھی وزن نہیں اٹھا سکتا..
اس ساری تفصیل کا حاصل یہ ہوا کہ انسان کے مادی جسم کو روح تشکیل دیتی ہے اور اس جسم میں حرکت، نشوونما اور زندگی کی تمام طرزیں روح کی محتاج ہیں..
قارئین کرام!……ہمارے جسم کی ساری صلاحیتیں روح کے تابع ہیں……
مخلوق دو طرح سے تخلیق ہوئی..اول عالم ارواح میں جہاں ارواح نے اللہ تعالیٰ کی آواز سن کر اور اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت ابھی مخلوق نے وہ روپ اختیار نہیں کیا جہاں مخلوق، خالق کو قبول کرے یا رد کرے..عالم ارواح میں، جہاں اختیار زیر بحث نہیں آتا..مخلوق نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے..اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے؟ ..لہٰذا عالم ارواح کے بعد مخلوق عالم ناسوت میں آئی..یہاں روح نے ایک اور جسم بنایا جسے ہم مادی جسم کہتے ہیں..یہاں مادی جسم میں روح نے یوم ازل کی کیفیت کو دہرایا..
اختیار کہاں سے آیا؟ ..
اللہ تعالیٰ نے روز اول یہ اختیار دیا تھا..
الست بربکم؟ ..کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ ..
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے روز اول اقرار یا انکار کا اختیار دے دیا تھا..
چاہے قبول کرو..چاہے قبول نہ کرو..
اس اختیار کے استعمال کیلئے روح کو یہ ڈیوٹی دی گئی کہ روح ایک اور وجود بنائے..لیکن اس جسمانی وجود اور اپنے درمیان پردہ رکھے..ایسا پردہ جو کوشش اور جدوجہد کے بغیر نہ اٹھے..
پیارے قارئین! روحانیت کا حصول ہرگز مشکل امر نہیں ہے لیکن روحانیت بہت مشکل سفر بھی ہے..مشکل اس لئے نہیں کہ روح کے بغیر آپ زندہ ہی نہیں رہ سکتے..روح آپ کی Realityہے..اگر آپ کو یہ یقین حاصل ہو جائے تو آپ کے اور روح کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی فاصلہ نہیں ہے..اس لئے روحانیت بہت آسان ہے..لیکن اگر آپ اس مفروضے پر یقین رکھتے ہیں کہ سب چیزوں کا تعلق مادی جسم ہے پھر یہ بہت مشکل سفر ہے..

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 57 تا 60

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)