باشعور انسان

مکمل کتاب : وقت؟

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19750

آدم و حوا کا پہلا مسکن جنت ہے!……
جنت ایک ایسی اسپیس پر آباد ہے جہاں مکانات عالیشان محلات، نہریں، مرغزار…… نیلے پیلے، اودے پیراہن سے آراستہ پھولوں کے تختے…… خوبصورت لان…… حور و غلمان…… پھلدار اور سایہ دار درخت ہیں…… باغات، پانی سے اُبلتے فوارے، کِل کِل کرتے جھرنے اور آبشاریں، ندی نالے، دریا، بوستان و نخلستان……
یہ سب چیزیں ہماری زمین پر بھی موجود ہیں……
زمین ایک اسپیس ہے!…… اسپیس کا مطلب ہے بہت بڑی جگہ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کر دینا……
جب ہم اپنی زمین کا تذکرہ کرتے ہیں تو زمین سے مراد کوئی ایک ملک یا کسی ملک کے کئی شہر مراد نہیں ہوتے……
زمین سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اتنا بڑا رقبہ کہ جو اعداد و شمار میں نہ آئے……
ہماری زمین کے اعداد و شمار جو بھی بیان کیے جاتے ہیں…… زمین کا وہ حصہ ہے جو معلوم زمین ہے!……
بتایا جاتا ہے کہ زمین پر تین حصے پانی ہے، ایک حصہ خشکی ہے…… زمین کی یہ صورت بھی نظر آتی ہے کہ زمین کے اوپر کڑوں یا چھلوں کی شکل میں پہاڑ ایستادہ ہیں اور ان پہاڑوں کے درمیان خالی جگہ یا Vallies، ملک، شہر اور محلوں میں تقسیم ہوتی ہے۔
زمین کا رقبہ جو کچھ بتایا جاتا ہے وہ محض قیاس پر مبنی ہے…… زمین کا پورا ناپ تول ابھی تک ممکن نہیں ہوا…… سائنسی ترقی کے اس دور میں بھی ایسے علاقے ہیں جو ابھی دریافت نہیں ہوئے اور ان علاقوں کو Uncivilizedکہا جاتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ زمین واحد سیارہ ہے جس پر زندگی کے آثار نظر آتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے!…… ہر سیارے پر آبادیاں ہیں…… بالکل اسی طرح جیسے ہماری زمین آباد ہے……
ہر سیارے کی زمین پر چاند، سورج، ستارے اور کہکشائیں نظر آتی ہیں……
ہم شعوری طور پر مانتے ہیں کہ آکسیجن پر زندگی کا دارومدار ہے!……
جبکہ یہ بات عقل تسلیم نہیں کرتی……
عقل رہنمائی کرتی ہے کہ ایک گھر میں چھ آدمی ہیں اور یہ چھ آدمی آکسیجن کے اوپر زندہ ہیں…… لیکن ہوتا یہ ہے کہ ان چھ آدمیوں میں سے ایک آدمی کا انتقال ہو جاتا ہے…… اگر ہم گھر کو ایک غبارہ سمجھ لیں اور اس غبارے کے اندر کلیتاً آکسیجن کا عمل دخل مان لیں تو یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے کہ غبارے میں آکسیجن موجود ہے…… غبارے میں آکسیجن موجود ہونے کے باوصف پانچ آدمی زندہ رہتے ہیں اور ایک آدمی مر جاتا ہے…… اگر زندگی کا دارومدار آکسیجن پر نہیں ہے تو آکسیجن ایک آدمی کیلئے کیوں زندگی کا سہارا نہیں بن رہی؟…… باقی پانچ آدمی آکسیجن سے کیوں مستفید ہو رہے ہیں؟……
اور آکسیجن کے ذریعے مرنے والے فرد کو کیوں زندہ نہیں کر لیا جاتا؟……
جس طرح زمین پر حیات و ممات ہے…… اسی طرح دوسرے سیاروں میں بھی موت اور زندگی کا سلسلہ جاری ہے……
ہماری زمین پر بلڈنگیں تعمیر ہوتی ہیں…… کھیتی باڑی ہوتی ہے، فیکٹریاں لگتی ہیں، ہوائی جہاز اُڑتے ہیں، بڑے بڑے پانی کے جہاز سمندر کی سطح پر تیرتے ہیں…… بادبانی کشتیاں سمندر کی منہ زور لہروں کا مقابلہ کر کے سفر کرتی ہیں……
اسی طرح دوسری دنیاؤں میں بھی سب کچھ ہو رہا ہے……
زمین جس طرح سے بھی بنی اور زمین کے اوپر فضا اور زمین کے اندر موجود تہوں میں بے شمار گیسزGasesکام کر رہی ہیں…… دوسرے سیاروں کا بھی یہی حال احوال ہے…… زمین کی ایک خصوصیت ہے…… وہ خصوصیت یہ ہے کہ زمین اپنے حسن کو دوبالا کرنے کیلئے…… تزئین و آرائش کیلئے اپنے اندر سے تخلیق کرتی ہے…… اس تخلیق میں رنگینی ہے…… کائنات میں نافذ تخلیقی قانون کے مطابق زمین پر کوئی ایک شئے ایسی نہیں ہے جو بے رنگ ہو…… کھیت کھلیان دیکھئے تو وہاں رنگ ہیں…… پھول پھلواری پر توجہ کیجئے!…… رنگ رنگ…… سینکڑوں رنگ ہیں…… درخت کے سراپا نظر ڈالئے…… درخت میں ہر چیز رنگین ہے…… درخت کی جڑوں کا رنگ الگ ہے…… تنے کا رنگ الگ ہے…… درخت کے لباس کا رنگ الگ ہے…… لباس سے مراد درخت کی چھال ہے…… پتوں کا رنگ الگ ہے…… درخت میں لگے ہوئے پھولوں کا رنگ منفرد ہے…… اور درخت میں لگنے والے پھل بھی بے رنگ نہیں ہوتے…… یہ رنگینی دراصل زمین کی زیبائش ہے…… اس زیبائش سے مخلوق کو آسائش ملتی ہے……
زمین پر تقریبا ساڑھے گیارہ ہزار نوعیں آباد ہیں!…… ہر نوع میں کم سے کم دو سو مخلوقات شمار کی جا سکتی ہیں…… کتنی زیادہ ہو سکتی ہیں؟…… اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے!……
مچھلی ایک نوع ہے!……
بہت بڑے Aquariumکے اندر رنگ برنگ مچھلیوں میں کوئی سرخ ہے…… کوئیPurpleہے…… مچھلی کی کوئی مخلوقTransparentہے…… کوئی چھوٹی ہے…… کوئی بہت بڑی ہے……
کوئی مچھلی اتنی بڑی ہے کہ اس کی خوراک کا ایک لقمہ کئی ہزار مچھلیاں بن جاتی ہیں……
یہی مثال درختوں کی، پرندوں، چوپایوں کے اوپر بھی صادق آتی ہے……
ہماری زمین!…… کائناتی تخلیقی قوانین کے مطابق دو حصوں میں تقسیم ہے……
ایک حصہ وہ زمین ہے جس پر آدم زاد چلتا پھرتا، سوتا جاگتا اور کھاتا پیتا ہے……
زمین کا دوسرا حصہ خلا میں واقع ہے…… خلا میں واقع زمین بھی ہماری زمین کی طرح ہے…… اس زمین پر جنات کی آبادیاں ہیں…… جنات کی آبادی میں مذکر مؤنث دونوں افراد ہیں…… نسلی سلسلہ بھی انسانی آبادیوں کی طرح قائم ہے…… جنات کی دنیا میں لہلہاتی کھیتیاں ہیں، باغات ہیں، جمادات، نباتات، معدنیات، دریا، سمندر سب ہیں۔
جنات کی مخلوق انسانوں کی طرح کھاتی پیتی ہے، کاروبار کرتی ہے…… اور ان کے یہاں سائنسی ایجادات و ترقی کا گراف انسانوں کی ترقی سے زیادہ ہے……
ہم نے بات شروع کی تھی کہ آدم و حوا کا پہلا مسکن جنت تھا…… اور اب بھی ہے……
باشعور انسان اسے کہتے ہیں جو گرد و نواح کی صورتحال سے واقف ہو…… باشعور انسان وہ ہے جو اپنے آپ سے واقفیت رکھتا ہو……
ذی شعور اسے کہا جاتا ہے جو اپنے اندر کی دنیا سے باخبر ہو……
میرے بچو!……
یہ ساری تمہید اس لئے ہے کہ ہمیں غور کرنا ہے……
آدم و حوا جب جنت میں رہتے تھے تو ان میں کون سا حواس یا شعور کام کرتا تھا؟……
اس لئے کہ ہم جنت کے شعور کو رد نہیں کر سکتے!……
جنت!…… ایک لامحدود رقبہ ہے…… علم الٰہی سے منکشف ہوتا ہے کہ وہاں باغات ہیں…… انار اور کھجور کے درخت ہیں…… انگور کی بیلیں ہیں…… خوشنما قطار در قطار درخت ہیں…… پھولوں کے تختے ہیں…… ایسے پھول جن میں کئی کئی رنگوں کی آمیزش ہے…… ہوا چلتی ہے تو ساز بجتے ہیں…… پھول ہلتے ہیں تو جل بجھ روشنیوں کا ادراک ہوتا ہے…… خوشبو کا یہ عالم ہے کہ فضا میں سے پھولوں کی مہک گھونٹ گھونٹ اندر اُتر جاتی ہے……
حوریں!…… اتنی خوبصورت ہیں کہ آدمی دیکھ لیتا ہے تو لرزہ طاری ہو جاتا ہے……
غلمان!…… عفوانِ شباب کی مکمل تصویر ہیں……
پانی!…… دودھ جیسا سفید اور میٹھا ہوتا ہے……
شہد!…… شہد کا سنہری رنگ اور ذائقہ ہماری زمین کے شہد سے ہزار گنا افضل ہوتا ہے……
جب قطار در قطار درخت انار، کھجور اور انگور کا تذکرہ آتا ہے تو شعور ایک قدم آگے نہیں بڑھتا…… لیکن وہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جنت میں شعور اور حواس دونوں موجود ہیں……
اب سوچنا یہ ہے کہ جنت کے شعور سے آدم و حوا کو عارضی محرومی کیوں ہوئی؟……
یہ عام بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی پر انعام و اکرام کرتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ آدمی انعام و اکرام کرنے والی ہستی کا شکر گزار ہو اور اس کے احکامات کی تعمیل کرے…… جو ضابطے اس نے متعین کر دیئے ہیں ان کی خلاف ورزی نہ کرے……
جنت میں ایسا نہیں ہو سکا…… آدم و حوا کیلئے جو احکامات صادر ہوئے تھے ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا…… ان احکامات میں بنیادی بات یقین کا درجہ حاصل کرنا تھا…… اور یہ بات ذہن نشین کر دی گئی تھی کہ اگر تعمیل حکم سے سرموانحراف ہوا، چاہے وہ سہواً کیوں نہ ہو…… تو جنت کے شعور پر پردہ آ جائے گا…… جیسے ہی جنت کے شعور پر پردہ آ گیا…… آدم و حوا کا پہلا مسکن جنت نہیں رہی…… اور لامحدود شعور پر محدود شعور کا غلبہ ہو گیا……
محدود شعور کا مطلب احساس محرومی اضطراب اور گھٹن ہے……
اس دنیا میں رہتے ہوئے اگر آدم و حوا کی اولاد محدود شعور سے نکل کر جنت کے لامحدود شعور میں داخل ہو جائے تو یہ دنیا اس کیلئے جنت بن جاتی ہے…… جتنی دیر اس دنیا میں قیام رہے گا جنت کی کیفیات اس کے اوپر غالب رہیں گی……
اور جب اس دنیا کا سفر ختم ہو گا…… تو جنت کا ابدی سکون اسے حاصل ہو جائے گا……

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 151 تا 154

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)