فکر کی گہرائی

مکمل کتاب : وقت؟

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17618

جب ہم کسی علم کی کنہ تک پہنچنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ہمیں ایسی فکر اور سوچ کی ضرورت پیش آتی ہے جو گہرائی میں سفر کرے…… سطحی سوچ سے کسی علم کی کنہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے……
دنیا کا کوئی بھی علم ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد میں تحقیق، تجسس، تلاش اور گہرائی موجود نہ ہو…… جیسے جیسے ہم کسی علم کے اندر تفکر کرتے ہیں اسی مناسبت سے اس علم میں ہمیں نئے نئے پہلو نظر آتے ہیں۔ جب ہم ان پہلوؤں پر اور زیادہ گہری نظر سے تفکر کرتے ہیں تو علم کی بہت سی شاخیں بن جاتی ہیں۔
علم کوئی بھی ہو…… فلسفہ ہو، منطق ہو یا علم الکلام ہو……
سب ہی کی طرزیں مشترک ہیں……
یعنی جس علم کے بارے میں جتنے زیادہ لوگ تفکر کرنے والے موجود ہوتے ہیں یا کسی ایک علم کی ریسرچ میں جتنے زیادہ باہوش دماغ شامل ہو جاتے ہیں وہ علم اسی مناسبت سے ترقی کرتا رہتا ہے اور نتیجہ میں وہ ایک مستحکم اور مبسوط علم بن جاتا ہے…… ایسا علم!…… جس کا اپنا ایک نظریہ، ایک فلسفہ اور اپنا ایک طرز عمل اور طرز استدلال ہوتا ہے……
موجودہ دور کے سائنسی علوم میں بھی یہی طریقہ کار موجود ہے…… ایک سائنس دان نے علم کے کسی ایک شعبہ پر تفکر کیا، تفکر کرتے کرتے وہ کسی مثبت نتیجہ پر پہنچا اور پھر وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا…… اس سائنسدان کو حاصل ہونے والا نتیجہ راہ نمائی تو کرتا تھا لیکن ابھی اس کی علمی حیثیت قائم نہیں ہوئی تھی۔
دوسرے آدمی نے، دوسرے طالب علم نے یا دوسرے سائنس دان نے اس علم کو آگے بڑھایا…… یوں کچھ روشن پہلو مزید نمایاں ہو گئے…… رفتہ رفتہ سینکڑوں اعلیٰ دماغ اس ریسرچ میں شریک ہوتے رہے اور علم کی ایک حیثیت قائم ہو گئی…… اس کی ایک تھیوری بن گئی…… پھر یہ علم اور آگے بڑھا…… اس میں مزید باہمت، باذوق دماغ شریک ہوئے اور اس تھیوری کو پریکٹیکل کی صورت دے دی گئی…… نتیجہ میں ایک ایسا علم تشکیل پا گیا جس سے کوئی عقل کا اندھا بھی انکار نہیں کر سکتا……

ہر نئے علم کو عوام الناس میں متعارف کرانے کیلئے اس علم کی مختلف طرزوں میں، مختلف پیرا یوں میں، مثالوں سے، نئی نئی ترغیبات اور تشبیہات کے ذریعے تشریح کی جاتی ہے…… جیس جیسے یہ تشریحات دماغ کے اوپر وارد ہوتی ہیں یا ان تمثیلات، ترغیبات اور تشبیہات سے شعور آشنا ہوتا ہے، اسی مناسبت سے شعور کے اندر سکت پیدا ہو جاتی ہے اور اس سکت کے نتیجے میں شعور گہرائی میں سفر کرنے لگتا ہے……
شعور کی گہرائی کا دوسرا نام لاشعور ہے!……
طالب علم جب شعور کی گہرائی میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے سامنے لاشعور کا دروازہ آ جاتا ہے……
اسی طرح جب روحانی علوم کا کوئی طالب علم شعور کی گہرائی سے گزر کر لاشعور کی گہرائی میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ ورائے لاشعور میں داخل ہو جاتا ہے……
ورائے لاشعور ہی ایسا علم ہے کہ جہاں انسان جان لیتا ہے کہ اس کائنات کا خالق کون ہے!……
تخلیق کائنات میں اس کی کون کون سی مصلحتیں اور رموز پوشیدہ ہیں!……
اگر انسان کے اندر تفکر کی راہیں موجود ہوں تو روحانی علوم کی تھیوری سے گزر کر پریکٹیکل میں داخل ہونا…… کائنات اور خالق کائنات کو جان لینا، پہچان لینا، آسان عمل بن جاتا ہے……
علم روحانیت کے تین اوراق ہیں!…… ہر ورق میں دو صفحے ہیں……
پہلے ورق کے پہلے صفحے پر تجلی کا عکس موجود ہے اور تجلی کے اس عکس میں وہ تمام رموز اور وہ تمام مصلحتیں نقش ہیں جو تخلیق کائنات کا بنیادی مصالحہ ہیں…… اس عکس، ان رموز اور مصلحتوں کو سمجھنے کے لئے دوسرے صفحے پر ایک ایسی تحریر ہے جس تحریر کو پڑھ کر انسان پہلے صفحے کی تشریحات رموز اور مصلحتوں سے واقف ہو سکتا ہے……
دوسرے ورق کے پہلے صفحے پر احکامات کا ریکارڈ ہے اور دوسرے صفحے پر کائنات کا اجتماعی پروگرام یا کائنات کے اجتماعی اعمال کی تشریح ہے…… کائنات سے مراد مخلوق کی تمام نوعیں ہیں جو کائنات میں موجود ہیں اور ہر آن اور ہر لمحہ زندہ ہیں……
تیسرے ورق کے پہلے صفحے پر انفرادی احکامات ہیں اور دوسرے صفحے پر ان احکامات کے نتیجے میں انفرادی اعمال و حرکات کا ریکارڈ ہے……

آخری الہامی کتاب قرآن پاک میں جہاں آدم ؑ کی خلافت و نیابت کا تذکرہ بیان ہوا ہے، وہاں بنیادی بات یہ بیان ہوئی ہے کہ آدم ؑ کو علم الاسماء عطا کیا گیا ہے…… یہ علم الاسماء ہی تھا جس کی بنیاد پر فرشتوں نے آدم ؑ کو سجدہ کیا…… انسان کا شرف صرف اس بات پر قائم ہے کہ اسے خالق کائنات کی نیابت حاصل ہے اور وہ نیابت کے علوم سے واقف ہے……
خالق کائنات نے جب آدم ؑ کو علم الاسماء عطا کر دیا اور اپنی تخلیقی صفات سے آدمؑ کو آگاہ کر دیا تو آدمؑ کا یہ علم پوری نوع انسانی کا ورثہ بن گیا……
تخلیق کا فارمولا یہ ہے کہ انسان کے اندر روح کام کر رہی ہے…… اگر انسان کے اندر یا آدم زاد کے اندر روح موجود نہیں ہے تو آدم زاد کا وجود ناقابل تذکرہ ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں……
جب خالق کائنات نے آدمؑ کے اندر اپنی روح پھونک دی تو اس کے اندر حواس بیدار ہو گئے……
روح کیا ہے؟…… خالق کائنات اللہ تعالیٰ کا امر ہے……
اللہ تعالیٰ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے…… ’’ہو جا‘‘…… اور وہ چیز ہو جاتی ہے……
پیدائش کا مطلب یہ ہے کہ روح اپنے لئے ایک وجود بنا کر اس دنیا میں اپنا مظاہرہ کرتی ہے……
بچہ میں اگر روح نہ ہو تو وہ بچہ مردہ کہلائے گا……
روح جسم کی تشکیل اور پیدائش کے بعد جسم کو بڑھاتی رہتی ہے…… لیکن بڑھنے کے اس عمل سے پہلا جسم غائب ہوتا رہتا ہے…… ہر پہلے منٹ کو فنا ہے اور دوسرے منٹ کو بقا ہے…… ہر تیسرے منٹ کو فنا ہے تو چوتھے منٹ کو بقا ہے……
فنا غیب ہے اور بقا شہود ہے……
ساری کائنات غیب اور شہود کی ایک بیلٹ پر چل رہی ہے……
جو چیز کبھی شہود ہوتی ہے ، وہ غیب میں چلی جاتی ہے…… غیب اور شہود دونوں ایک دوسرے سے اس طرح چپکے ہوئے ہیں کہ غیب کو شہود سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ شہود کو غیب سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے……
آپ 40سال کے ایک فرد سے اس کے بچپن کے دو ماہ الگ نہیں کر سکتے!…… اس کی جوانی علیحدہ نہیں کر سکتے!…… 70سال کی عمر تک کون سی علامت ہے جس میں تبدیلی ظاہر نہیں ہوئی؟ …… چہرے کے نقش ونگار، خدوخال…… ہر چیز تبدیل ہو گئی…… یعنی ایک دن کا بچہ! جس کا نام رکھا گیا تھا، وہ غیب میں چلا گیا……
اللہ تعالیٰ نے اس کائناتی سسٹم کو غیب اور شہود پر متحرک رکھا ہوا ہے…… چونکہ شہود بذات خود متغیر شئے ہے ، اس لئے متغیر شئے کو قائم رکھنے کیلئے بھی متغیر چیزیں درکار ہیں…… ان میں دن، رات بھی شامل ہیں…… کروڑوں سال سے دن رات باری باری بدل بدل کر آ رہے ہیں…… اسی طرح لاکھوں سال سے انسان گندم کھا رہے ہیں، جو موسم کے حساب سے کبھی غیب میں چلی جاتی ہے اور پھر دوبارہ موجود ہو جاتی ہے…… یہ تغیر و تبدل حیات و ممات کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے……
حیات و ممات کو قائم رکھنے کیلئے مخلوق کو ایک نظام کے تحت وسائل کا پابند و محتاج رکھنا بھی ضروری ہے…… ہم سب ہوا، پانی اور غذا کے محتاج ہیں…… اور اگر پانی یا ہوا نہ ہو تو زمین مردہ ہو جائے گی……
نتیجہ میں مخلوق ختم ہو جائے گی…… لیکن اس سارے سسٹم میں اصل حیثیت روح کی ہے!……
کائنات میں جتنی بھی اشیاء موجود ہیں…… وہ زمین کے اوپر ہوں یا زمین کے اندر…… آسمانی مخلوق، سات آسمان یا عرش وکرسی…… ہر شئے میں روح موجود ہے!…… اور جو چیز ہمیں ظاہری آنکھوں سے یا صفاتی آنکھوں سے نظر آتی ہے وہ سب روح کا لباس ہے…… روح آدمی کے خدوخال کے مطابق گوشت پوست کے جسم کے ذریعے اپنا مظاہرہ کرتی ہے…… اس جسم سے روح جب اپنا رشتہ منقطع کر لیتی ہے تو یہ جسم منتشر ہو کر مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
روح سے واقفیت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ دنیوی دلچسپیاں کم کر کے زیادہ سے زیادہ وقت ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھا جائے……
روحانیت میں ایک نقطے پر توجہ مرکوز کرنے کا نام مراقبہ ہے!……

مراقبہ کا مطلب یہ ہے کہ ہر طرف سے توجہ ہٹا کر ایک ذات اقدس و اکبر سے ذہنی رابطہ قائم کر لیا جائے…… جب کسی بندے کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے قائم ہو جاتا ہے اور اس کے اوپر سے مفروضہ حواس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے تو وہ مراقبہ کی کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے……
مراقبہ ایسے عمل کا نام ہے جس میں کوئی بندہ بیداری کی حالت میں رہ کر بھی اس عالم میں سفر کر سکتا ہے جس کو ہم روحانی دنیا کہتے ہیں…… روحانی دنیا میں داخل ہونے کے بعد بندہ اس خصوصی تعلق سے واقف ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان بحیثیت خالق و مخلوق ہر لمحہ اور ہر آن موجود ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 91 تا 95

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)