ایمان اور یقین

مکمل کتاب : وقت؟

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19805

ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص جو انتہائی درجے کا عقل پرست تھا، اپنے شاگردوں اور پیروکاروں میں بیٹھا اپنی عقل مندی کی شیخیاں بگھا ررہا تھا…… اسی دوران ایک خوش پوش لیکن فقیری مزاج کا حامل نوجوان اس محفل میں شامل ہوا……
’’فقیر‘‘…… سے عام طور پر مراد لی جاتی ہے کہ ایسا شخص جو ظاہری طور پر بُرے حال میں ہو…… لوگ اس کی فاقہ کش صورت اور پیوند زدہ لباس کو دیکھ کر اس کی کچھ مدد کر دیں……
جبکہ ’’فقیر‘‘ اللہ تعالیٰ کا ایسا بندہ ہے جسے اپنی روح کا عرفان حاصل ہوتا ہے……
روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے…… اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے…… اللہ تعالیٰ ہر شئے پر محیط ہے۔
عقل پرست نے نووارد نوجوان کو دیکھا تو باتوں باتوں میں اسے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا……
عقل پرست: کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو…..؟
نوجوان: یقیناً……
عقل پرست: کیا خدا واقعی مہربان اور رحم کرنے والا ہے…..؟
نوجوان: جی ہاں!
عقل پرست: کیا خدا ہر شئے پر قادر ہے…..؟
نوجوان: جی ہاں!
عقل پرست: میرا بھائی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہو گیا…… اس نے خدا کو مدد کے لئے پکارا تھا…… مگر خدا نے اس کی مدد تو نہیں کی…… !
نوجوان نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا……
عقل پرست: (فخریہ لہجے میں) تمہارے پاس کوئی جواب نہیں…… !
نوجوان خاموش رہا……
عقل پرست: کیا شیطان بھی مہربان ہے!
نوجوان: جی نہیں……
عقل پرست: شیطان کہاں سے آیا…… ؟
نوجوان: اللہ تعالیٰ نے اس کی تخلیق کی ہے!
عقل پرست: ٹھیک!…… دنیا میں برائی کے وجود کو تم تسلیم کرتے ہو…… ؟
نوجوان: جی ہاں……
عقل پرست: برائیاں اور خرابیاں دنیا میں ہر جگہ ہیں…… اور دنیا کی ہر شئے خدا نے تخلیق کی ہے…… اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے…… ؟؟
نوجوان: آپ کی بات درست ہے…… !
عقل پرست: اس کا مطلب یہ ہوا کہ برائی بھی خدا نے تخلیق کی ہے…… ؟
نوجوان خاموش رہا اور گہری نظروں سے عقل پرست کا جائزہ لیتا رہا……
عقل پرست: حواسِ خمسہ کے مشاہدے، عملی کسوٹی اور منطق کی مدد سے کسی بھی طرح خدا کا وجود ثابت نہیں ہوتا…… کیا تم اس بات کو رد کر سکتے ہو…… ؟
نوجوان: میں اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتا ہوں…… !
عقل پرست: یہی تو سب سے بڑا مسئلہ ہے…… دنیا کی کوئی بھی چیز جس کا انحصار محض یقین، اعتقاد، اعتبار اور عقیدت مندی پر ہو، وجود نہیں رکھتی……
نوجوان: (کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوا) کیا آپ مانتے ہیں کہ ’’گرمی‘‘ وجود رکھتی ہے؟
عقل پرست: کیوں نہیں بالکل وجود رکھتی ہے…… !
نوجوان: اور ’’سردی‘‘ بھی وجود رکھتی ہے……
عقل پرست: بالکل……
نوجوان: جی نہیں…… یہ غلط ہے…… سردی وجود نہیں رکھتی…… !
اب محفل میں موجود تمام افراد نوجوان کی طرف متوجہ ہو گئے……
نوجوان (اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے)…… صرف گرمی اپنا وجود رکھتی ہے…… سخت گرمی…… تیز گرمی…… ہلکی گرمی…… نرم گرمی…… معمولی گرمی…… اور گرمی کی معدومیت…… لیکن سردی کا کوئی وجود نہیں…… کیونکہ سردی محض ایک لفظ ہے…… جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گرمی کم ہے، کم سے کم ہے، بہت زیادہ کم ہے یا پھر موجود ہی نہیں ہے…… حرارت ایک توانائی ہے…… اور خنکی یا سردی اس توانائی کی ضد نہیں ہے بلکہ اس کی عدم موجودگی کا نام ہے……
محفل میں سناٹا طاری ہو گیا تھا……
نوجوان: آپ کا اندھیرے کے متعلق کیا خیال ہے؟ کیا اندھیرا واقعی کوئی وجود رکھتا ہے؟……
عقل پرست: ہاں…… بالکل…… اس لئے کہ رات کے وقت دنیا اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے۔
نوجوان: جی نہیں…… یہ درست نہیں ہے…… اندھیرا دراصل روشنی کی کمی، بہت کمی اور بہت زیادہ کمی کا نام ہے…… صرف اور صرف روشنی وجود رکھتی ہے…… روشنی میں اضافہ ہوتا ہے اور روشنی ہی میں کمی ہوتی ہے…… نہ تو اندھیرے میں کمی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس میں کسی طرح اضافہ ممکن ہے…… اس لئے کہ اس کا وجود ہی نہیں ہے……
عقل پرست: یہ تو تم نے انتہائی احمقانہ خیال پیش کیا ہے……
نوجوان: نہیں! ایسا نہیں ہے…… میں دراصل آپ پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ خدا سے متعلق آپ کے فلسفیانہ تصورات میں ایک خامی موجود ہے…… !
عقل پرست: کیسی خامی…… ؟؟
نوجوان: آپ کا بیان ثنویت کے نظریے پر مبنی ہے…… جس کے تحت ہر چیز میں دو اصول عمل پیرا ہوتے ہیں…… مثلاً موت اور زندگی، روح اور مادہ، خیر و شر…… آپ خدا کو اس لئے تسلیم نہیں کرتے کہ آپ کے حواسِ خمسہ اس کا ادراک نہیں کر پاتے…… ایسی اور بہت سی چیزیں بھی تو دنیا میں موجود ہیں جو حواسِ خمسہ کے دائرے میں نہیں آتیں…… مثلاً الیکٹران کا بہاؤ جسے عرف عام میں بجلی یا کرنٹ کہا جاتا ہے…… مقناطیسی لہریں، خیال اور خود آپ کی عقل…… وغیرہ وغیرہ……
یاد رہے، موت بھی زندگی کی ضد نہیں ہے بلکہ زندگی کی عدم موجودگی کا نام ہے……
اب آپ میرے ایک سوال کا جواب دیں…… آپ کا ماننا ہے کہ انسان ارتقائی عمل سے پہلے جانور تھا…… کیا آپ نے اس ارتقائی عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے…… ؟
عقل پرست: نہیں…… !
نوجوان: جب آپ نے ارتقائی عمل کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تو پھر یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ محض آپ اور آپ جیسے لوگوں کی محض ایک اختراع ہے جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں!……
عقل پرست خاموش رہا اور محفل میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں……
نوجوان: (حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے) کیا یہاں کوئی ایسا فرد موجود ہے جس نے اپنی یا اپنے محترم استاد کی عقل اپنی آنکھوں سے دیکھی ہو…… ؟
سب بے ساختہ ہنس پڑے……
نوجوان: کیا کوئی ایسا ہے جس نے ان کی عقل کو سنا، چکھا، سونگھا یا چھوا ہو…… ؟
محفل میں موجود افراد کوئی جواب دینے کے بجائے دوبارہ ہنسنے لگے……
نوجوان: (عقل پرست سے مخاطب ہو کر) لہٰذا حسی مشاہدہ، عملی کسوٹی اور منطق کی رو سے بھی آپ کی عقل کا وجود ثابت نہیں ہوتا…… چنانچہ ہم یہ کیسے مان لیں کہ آپ جو کہہ رہے ہیں وہ درست ہے؟ آپ کے شاگرد اور پیروکار کس طرح تسلیم کر لیں کہ آپ جو کچھ انہیں تعلیم دے رہے ہیں وہ حقیقی ہے؟
عقل پرست: اس لئے کہ میں اسکالر ہوں، استاد ہوں…… انہیں میری بات کا یقین ہونا چاہئے۔
نوجوان: (مسکراتے ہوئے) یقین…… ! جی ہاں…… یہی یقین تو ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تعلق پیدا کرتا ہے…… اسی یقین کی بدولت دنیا کی ہر مخلوق زندہ ہے اور پروان چڑھ رہی ہے اور اسی ’’یقین‘‘ میں ترقی کے بعد انسان کا اپنے خالق سے رابطہ بھی قائم ہو سکتا ہے…… قرآن میں اسی یقین کو ’’ایمان‘‘ کے لفظ سے بیان کیا گیا ہے، جو یقین کا انتہائی بلند درجہ ہے……

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 213 تا 216

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)