مکانیت اور زمانیت کیا ہے

مکمل کتاب : نظریٗہ رنگ و نُور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=16934

کائنات جن حواس پر یا کائنات جن بنیادی فارمولوں پر قائم ہے اور چل رہی ہے ان کو بار بار مثالیں دے کر سمجھایا جا رہا ہے۔
انسان یا نوع انسانی اور نوع انسانی کی طرح دوسری تمام نوعیں، ان نوعوں میں جنات، فرشتے ، اجرام فلکی اور تمام کہکشانی نظام شامل ہیں۔ شعور کے اندر ان کی ابتداء ہوتی ہے اور شعور کے رد و بدل ہی سے ابتداء جب انتہا کو پہنچتی ہے تو اس کے مختلف نام رکھ دیئے جاتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم ابتداء کو پیدائش کا مرحلہ قرار دیں تو انتہا کو موت کا مرحلہ کہیں گے۔ لیکن جب شعوری حواس میں رہے ہوئے موت کے مرحلے پر تفکر کرتے ہیں تو موت کا مرحلہ بھی حیات کا ایک قدم ہے۔ ایک ایسی حیات کا قدم جس قدم کے بعد دوسرا قدم حیات ہے۔ انسان اور ساری کائنات جن حواس اور جن شعور میں حیات کے مراحل طے کر رہی ہے۔ وہ چاروں شعور دراصل مختلف کیفیات کے رد و بدل کا نام ہے۔ شعور کی کیفیت یہ ہے کہ ہم اتنے کمزور، ناتواں اور کم عقل ہیں کہ جب کسی چیز کو سمجھنا چاہتے ہیں تو تو اس چیز کی محدودیت ہمارے اوپر مسلط ہو جاتی ہے۔ یعنی شعور اس قدر محدود ہو جاتا ہے کہ اگر نظر کے سامنے باریک ترین پردہ بھی آ جائے تو بصارت کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ جب ہم محدود کیفیت سے نکل کر لامحدود کیفیت میں داخل ہوتے ہیں تو شعور میں توانائی داخل ہو جاتی ہے۔ اس توانائی سے جو کچھ شعور میں رہتے ہوئے دیکھتے ہیں ادراک کر لیتے ہیں۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ فرد کا شعور، نوع کا شعور، کائنات کا شعور اور ماورائے کائنات کا شعور ہی زندگی کے مراحل کا تعین کرتا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو علم عطا کیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ساری کائنات چار شعوروں سے مرکب ہے۔ ان چاروں شعوروں کو عظیم سائنسدان قلندر بابا اولیاءؒ نے نسمہ مرکب، نسمہ مفرد، نور مرکب اور نور مفرد کا نام دیا ہے۔ یہ چاروں شعور دراصل کائنات کی وہ حقیقت ہیں جس حقیقت پر سارے کائناتی امور متحرک ہیں۔ چار شعوروں کی تقسیم اس لئے ہے کہ ہم کائنات کو الگ الگ اجزاء کے ساتھ تخلیقی فارمولوں کو سمجھ سکیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شعور ایک ہی ہے اور ایک ہی شعور کائنات کی ہر شئے میں الگ الگ دور کر رہا ہے۔ جیسے جیسے شعور میں حرکت واقع ہو رہی ہے اسی مناسبت سے شعور میں درجہ بندی واقع ہو رہی ہے۔
انبیاء علیہم السلام کی طرز تعلیم میں یہ بات نظر آتی ہے کہ انہوں نے خالق کائنات کے حکم کا تعارف کرایا ہے۔ انبیاء کرام نے اپنی تعلیم میں زور دیا ہے کہ اس ذات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جس کے امر سے کائنات وجودمیں آئی۔ اس لئے کہ جب تک ذات مطلق کو نہیں سمجھا جائے گا۔ ذات مطلق کے امر یا حکم کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ کچھ لوگ اس بات پر معترض ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ امر کو سمجھنا یا خالق کائنات کی ذات مطلق کے ارادے کو سمجھنا کس طرح ممکن ہے؟ اس لئے کہ امر جب تک خود کسی انسان کا ادراک نہ بنے امر کا سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ عظیم سائنسدان قلندر بابا اولیاءؒ کہتے ہیں کہ یہ بات صحیح ہے اس لئے کہ جب تک امر خود اپنی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گا اس ذات مطلق کے تعارف سے محروم رہے گا، جس سے امر وابستہ ہے۔
امر کو سمجھنے کے لئے انسان کو اپنی اس کنہ سے وقوف حاصل کرنا ہو گا جو دراصل انسان کی صورت میں خود امر ہے۔ مقصد یہ ہے کہ انسان پہلے خالق کائنات کے امر کا تعارف حاصل کرتا ہے۔ جو انسان خود ہے یعنی ا س کی حیثیت امر کی ہے۔ جب وہ خود سے متعارف ہو جاتا ہے اور اپنے اندر حکم الٰہیہ سے متعارف ہو جاتا ہے تو وہ ذات مطلق کا تعارف حاصل کر سکتا ہے۔ جب تک کوئی روحانی آدمی امر کو نہیں جانتا، نہ خود اپنی ذات سے واقف ہو سکتا ہے اور نہ خالق کائنات کا تعارف حاصل کر سکتا ہے۔
جب موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر روشنی دیکھ کر سوال کیا کون؟
خالق کائنات نے جواباً کہا۔
میں ہوں تیرا رب۔

موسیٰ علیہ السلام نے جو روشنی دیکھی وہ روشنی امر رب تھی۔ وہ روشنی کس کی تھی؟ وہ روشنی ذات مطلق کی تھی۔ اس واقعے سے ذات مطلق اور ذات امر کی حدود کا تعین ہو جاتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام ذات امر ہے۔ خالق کائنات ذات مطلق ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ذات امر ہونے کے باوجود امر کو روشنی میں مشاہدہ کر کے یہ سوال کیا کہ ’’کون؟‘‘ یعنی امر نے اس بات کی احتیاج محسوس کی کہ وہ ذات مطلق کو پہچانے۔ موسیٰ علیہ السلام نے روشنی دیکھ کر یہ جان لیا کہ یہ میرا رب ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو اس بات کی احتیاج ہوئی کہ روشنی امر سے اپنا تعارف کرائے۔ اب یہاں چار باتیں زیر بحث آتی ہے۔

ایک ذات مطلق۔ ذات مطلق کی صفت ربانیت اور دوسرے موسیٰؑ کے تخلیق ہونے کا وصف۔
ایک طرف ذات مطلق اور اس کی صفات دوسری طرف ذات امر اور اس کی احتیاج۔
ایک طرف بحیثیت ذات مطلق دوسری طرف موسیٰؑ یا بندہ بحیثیت بندہ۔
تیسری طرف ذات مطلق اور اس کی صفات۔ وہ تمام صفات جو ربانیت کا احاطہ کرتی ہیں۔
چوتھی طرف موسیٰ ؑ بحیثیت ذات امر اور ذی احتیاج۔
امر ذات مطلق کا محتاج ہے اور ذات مطلق کسی چیز کی محتاج نہیں ہے یہی وہ چار باتیں ہیں جن پر علوم نبوت کا دارومدار ہے۔ بعض لوگوں نے ذات مطلق کو حقیقت مطلقہ کہا ہے اور امر مطلق کو کائنات کہا ہے۔ یہ طرز بیان حکمائے ربانی کا ہے۔ حکمائے ربانی سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے اندر تفکر ہے۔ جن کے اندر تلاش ہے۔ جو لوگ اپنی شعور کی سطح سے نکل کر لاشعور میں داخل ہونے کے بعد کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکمائے ربانی کے علاوہ انبیاء کرام کی اپنی ایک طرز فکر ہے۔ حکماء اور انبیاء میں فرق یہ ہے کہ انبیاء علم حضوری سے کسی چیز کی کنہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور حکمائے ربانی کی طرز تلاش یہ ہے کہ وہ پہلے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور ظاہر جس باطن پر قائم ہے اس کو تلاش کرتے ہیں اور تلاش سے کسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کائنات میں بے شمار لامحدود چیزیں ایسی ہیں جو ظاہر نہیں ہیں۔ آج کے سائنسی دور میں ایسی چیزوں کا انکشاف ہوا اور ہو رہا ہے جو چیزیں آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ حکمائے ربانی جن چیزوں کی علامتیں خارج میں نہیں دیکھتے ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ان کے اس عمل سے کائنات کے اندر مخفی خفائق زیادہ تر انجانے رہ جاتے ہیں۔ حکمائے ربانی کے برعکس انبیاء کا رویہ حقیقت پر مبنی ہے۔انبیاء کے رویہ میں یہ نقص نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ ظاہر سے باطن کو تلاش نہیں کرتے بلکہ باطن سے ظاہر کو تلاش کرتے ہیں۔ وہ ذات مطلق کے ذریعے امر مطلق کو تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی فکر ایسے اجزاء کو پالیتی ہے جو مظاہر کے پابند نہیں ہیں۔ انبیاء مظاہر کو نظر انداز نہیں کرتے تا ہم وہ مظاہر کو اصل قرار دے کر صرف مظاہر کی روشنی میں گم نہیں ہو جاتے۔ وہ مظاہر کو بھی اتنی اہمیت دیتے ہیں جتنی مظاہر کی اصلوں کو۔ انبیاء کی طرز فکر یہ ہے کہ وہ مظاہر کو اصل قرار نہیں دیتے۔ باطن کو اصل قرار دیتے ہیں۔ انبیاء کی فکر میں ذات مطلق ہی حیات ہے۔ اس لئے وہ حیات کو ابدی قرار دیتے ہیں۔ وہ کائنات کو ثانوی درجہ دیتے ہیں۔ انبیاء کہتے ہیں پہلے حیات ہے پھر کائنات ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہے کہ پہلے کائنات ہو پھر حیات ہو۔ حیات ہے تو کائنات ہے۔ اس کے برخلاف مظاہر کو اولیت دینے والے حکماء اس لئے حیات کی پنہائیوں اور گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتے کہ وہ پہلے کائنات کو اہمیت دیتے ہیں پھر حیات کو اہمیت دیتے ہیں۔ انبیاء نے یہ بات اپنی طرز فکر سے تخلیق کی ہے کہ فکر انسانی میں ایسی روشنی موجود ہے جو کسی ظاہر کے باطن کا، کسی حضور کے غیب کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ باالفاظ دیگر انسانی ذہن پر یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ حیات کی ابتداء کہاں سے ہوتی ہے اور انتہا کہاں تک ہے۔ جب ہم ابتداء کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک بات آتی ہے۔ پھر ابتداء، انتہا تک پہنچنے کے لئے فنا کا راستہ قائم کئے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام موت کے بعد کی زندگی کو سمجھنے پر زور دیتے ہیں۔
آخری نبی محمد الرسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرما ن ہے:

’’مرجاؤ مرنے سے پہلے‘‘

ظاہر زندگی میں اس باطن زندگی کو تلاش کرو جو زندگی کی اصل ہے اور جس زندگی میں اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ فنا در فنا، فنا در فنا کے مراحل سے گزر کر انسان ایک ایسے نقطے پر پہنچ رہا ہے جس نقطہ کو فنا نہیں ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جو ذات مطلق ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 165 تا 171

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)