ممتاز معاشرہ

مکمل کتاب : نظریٗہ رنگ و نُور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=15892

نظریۂ رنگ و نور ہمارے اوپر منکشف کرتا ہے کہ روحانیت پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں ماورائی علوم کا تذکرہ تو کیا گیا ہے لیکن اس علم کو ایک جمع ایک =دو ، اور دو جمع دو=چار کی طرح عام نہیں کیا گیا۔ بہت سے رموز و نکات بیان کئے گئے ہیں لیکن بے شمار اسرار پردے میں ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ماورائی علوم چونکہ منتقل ہوتے ہیں اس لئے ان کو محفوظ رہنا چاہئے اور ان کی حفاظت کرنی چاہئے۔ روحانی علوم حاصل ہونے کے بعد ان کے نتائج(مافوق الفطرت باتوں) کو چھپا لینا چاہئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسانوں کے اندر سوچنے سمجھنے اور علم حاصل کرنے کی صلاحیت اتنی موجود نہ تھی جتنی آج موجود ہے۔ سائنس کے اس ترقی یافتہ دور سے پہلے دور دراز آوازوں کا پہنچنا کرامت سمجھی جاتی تھی۔ لیکن اب سائنس دانوں نے آواز کا طول موج دریافت کر لیا ہے۔ خیالات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا بھی کرامت (مافوق الفطرت) بیان کیا جاتا تھا۔ آج کی دنیا میں ہزاروں میل کے فاصلے پر پوری پوری تصویریں منتقل ہو جاتی ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں صرف پچاس سال پہلے لوگوں سے یہ کہا جاتا تھا کہ آدمی روشنیوں کا بنا ہوا ہے تو لوگ مذاق اڑاتے تھے۔ آج سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آدمی لہروں کا مرکب ہے۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے یہ بات بتا دی کہ آدمی لہروں سے مرکب ہے بلکہ اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ کسی جگہ سے گزر جانے کے بعد تصویر لی جا سکتی ہے۔
پہلے زمانے میں دادی اور نانی بچوں کو اڑن کھٹولوں کے قصے سنایا کرتی تھیں کہ ایک اڑن کھٹولہ تھا اس پر ایک شہزادی اور شہزادہ بیٹھے اور اڑ گئے۔ نانی اور دادی کے اڑن کھٹولہ(ہوائی جہاز) آج ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ ہم اس میں بیٹھ کر اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق سفر بھی کرتے ہیں۔
ان مثالوں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ سائنس کی ترقی سے پہلے نوع انسانی کی صلاحیت اتنی نہیں تھی کہ ماورائی رموز و نکات اس کی سمجھ میں آ جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ روحانی سائنس کے ماہرین پہلے چند لوگوں کا انتخاب کرتے تھے اور ان کو علوم منتقل کر دیتے تھے لیکن اس دور میں انسان کی دماغی صلاحیت اور تفکر اتنا زیادہ ہے کہ جو چیزیں پہلے کشف و کرامات سمجھی جاتی تھیں اب وہ باتیں انسان کی عام زندگی میں داخل ہو گئی ہیں۔ جیسے جیسے علوم کے ذریعے انسان کی سکت بڑھتی گئی، شعور طاقتور ہوتا گیا۔ ذہانت میں اضافہ ہوا۔ گہری باتوں کو سمجھنے اور جاننے کی سکت بڑھی۔ سائنس کی ترقی سے یہ نقصان بھی ہوا کہ جیسے جیسے شعور کی طاقت بڑھی اسی مناسبت سے آدمی کے اندر یقین کی طاقت کمزور ہوتی چلی گئی۔
یقین کی طاقت کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ماوراء ہستی سے دور ہوتا چلا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنس کی ترقی کا مطمع نظر زیادہ تر دنیاوی آسائش و آرام کا حصول بن گیا ہے۔ دنیا چونکہ بے یقینی کا سمبل اور فکشن ہے اور مفروضہ حواس کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس لئے یہ ترقی بھی نوع انسان کے لئے عذاب بن گئی۔ اگر اس ترقی کی بنیاد ظاہری اسباب کے ساتھ ماورائی صلاحیت کی تلاش ہوتی تو یقین کمزور ہونے کے بجائے طاقتور ہوتا۔ اس کے باوجود سائنسی علوم کے پھیلاؤ سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ نوع انسانی کے اندر ماورائی علوم حاصل کرنے کا ذوق پیدا ہوا ہے۔
پچاس یا سو سال پہلے جو صلاحیت پچاس پچاس، سو سو سال کی ریاضت کے بعد حاصل ہوتی تھی اب وہ صلاحیت ارادہ کے اندر یقین مستحکم ہونے سے چند مہینوں میں بیدار اور متحرک ہو جاتی ہے۔
ماورائی زندگی میں داخل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی کھانا نہ کھائے، پانی نہ پیئے، کپڑے نہ پہنے، اس کے دوست احباب نہ ہوں یہ سب اس لئے ہونا ضروری ہے کہ دنیا کو وجود بخشنے والی ماورائی ہستی اس دنیا میں رونق دیکھنا چاہتی ہے۔ اس دنیا کو قائم رکھنا چاہتی ہے۔ اس دنیا کو خوبصورت دیکھنا چاہتی ہے۔ اسباب و وسائل جب تک دنیا میں موجود ہیں ، دنیا موجود رہے گی۔ جو وسائل موجود ہیں وہ پیدا ہوتے رہیں گے اور ان سے دنیا میں رہنے والوں کو فائدہ پہنچتا رہے گا۔
نظریۂ رنگ و نور اس بات کا درس دیتا ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے سارے کام پورے کئے جائیں۔ اچھا کھانا کھایئے، بہترین لباس پہنیئے، چٹنی کے ساتھ مرغ بھی کھایئے۔ لیکن ہر کام اور ہر عمل کا رخ اس ذات مطلق کی طرف موڑ دیجئے جس نے یہ دنیا بنائی۔ کھانا اس لئے کھایئے کہ اللہ چاہتا ہے کہ بندہ کھانا کھائے، بندے کھانا نہیں کھائیں گے تو دنیا ویران ہو جائے گی۔ پانی اس لئے پئیں کہ اللہ چاہتا ہے بندہ پانی پیئے تا کہ اللہ کا لگایا ہوا باغ (دنیا) سرسبز و شاداب رہے۔ آپ بیوی بچوں سے محبت کریں لیکن یہ محبت اس لئے کریں کہ اللہ چاہتا کہ بیوی بچوں سے محبت کی جائے تا کہ ان کی صحیح تربیت ہو اور وہ حیوانات سے ممتاز ہو کر زندگی گزاریں۔ ماوراء ہستی چاہتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کریں کہ انسانی اقدار عام ہوں اور بھیڑ بکریوں سے ممتاز ایک معاشرہ قائم ہو۔
روزمرہ زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ روزی اور رزق کا حاصل کرنا ہے، اس لئے کہ رزق حاصل کئے بغیر زندگی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ہماری زندگی مختلف مراحل اور زمانوں سے مزین ہے۔ زندگی کے قیام کا پہلا زمانہ یا مرحلہ ایسی بند کوٹھڑی ہے جس میں بظاہر نہ ہوا کاگزر ہے اور نہ ہی اس کوٹھڑی میں انسان کے اپنے ارادے اور اختیار سے کھانے پینے کی چیزیں مہیا ہوتی ہیں اور نہ ہی اس کوٹھڑی میں رہتے ہوئے وہ اپنی روزی حاصل کرنے کے لئے محنت و مشقت کرتا ہے۔ لیکن اسے رزق ملتا ہے اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ اس نشوونما کا دور نو9مہینے کی زندگی پر مشتمل ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچہ بتدریج اور توازن کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے اور اس کی ساری غذائی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں۔ نو مہینے کے بعد مکمل آدمی کی شکل و صورت اختیار کر کے بچہ اس بند کوٹھری سے باہر آ جاتا ہے۔ اب بھی وہ اس قابل نہیں ہے کہ اپنی ضروریات خود پوری کر سکے۔ اس کی زندگی کو نشوونما دینے کے لئے ماوراء ہستی نے ماں کے دل میں محبت ڈال دی اور ساتھ ہی ماں کے سینے کو اس بچے کے لئے دودھ کا چشمہ بنا دیا۔ بچہ بغیر کسی جدوجہد کے غذا حاصل کرتا رہتا ہے اور اس کی پرورش ہوتی رہتی ہے۔ بچپن سے گزر کر لڑکپن کے زمانے میں بھی اس کی تمام ضروریات کا کفیل ماوراء ہستی نے اس بچہ کے ماں باپ کو بنا دیا ہے۔ شعور کی دنیا میں داخل ہونے کے بعد یہ انقلاب برپا ہوتا کہ وہ سوچتا ہے کہ مجھے رزق حاصل کرنے کے لئے کچھ کرنا ہو گا وہ اس تگ و دو میں اپنی پچھلی ساری زندگی کو فراموش کر دیتا ہے۔ ماوراء ہستی نے جس طرح ماں کے دل کو محبت سے معمور کر دیا ہے اسی طرح زمین کے دل میں بھی اپنی مخلوق کی محبت ڈال دی اور اسے پابند کر دیا کہ وہ زمین پر آباد مخلوق کی خدمت کرے۔ اس طرح چاند اور سورج کو بھی خدمت گزاری کے لئے پابند کر دیا ہے۔ زمین اگر اپنا ارادہ اور اختیار استعمال کر کے گیہوں نہ اگائے، سورج اپنی روشنی اور دھوپ سے گندم یا چاول کو نہ پکائے تو غذائی ضروریات پوری نہیں ہوں گی۔ جب زمین پر کوئی چیز پیدا نہیں ہو گی تو نوع انسان اور دوسری نوعیں زندہ نہیں رہیں گی۔
روحانی طرز فکر کو اپنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے ماوراء ہستی کی مخصوص طرز فکر کو قبول کیا جائے پھر طرز فکر والی ہستی سے تعلق قائم کر لیا جائے۔ یہ تعلق اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب طرز فکر حاصل کرنے والا اس ہستی کے عادات و اطوار کو اپنی عادات و اطوار اپنا لے اور جس کی طرز فکر حاصل کرنا مقصود ہو وہ بھی دوسرے آدمی کو اپنا قرب عطا کر دے اور اس کو اپنی جان کا ایک حصہ سمجھے۔
ہمارے اندر جب کوئی تقاضہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی اطلاع وارد ہوتی ہے کہ جسم اپنی انرجی اور طاقت بحال رکھنے کے لئے کسی چیز کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ جسم کو گرم و سرد وسائل یا خوردونوش کی ضرورت ہے۔ اس نقطے پر ان تمام چیزوں کے نقوش بن جاتے ہیں اور یہ نقوش ہی جسمانی نشوونما کی بنیاد بنتے ہیں۔ اسی صورت میں کھانے پینے اور استعمال کی دوسری چیزوں کے اندر کام کرنے والی لہریں انسان کو اپنے اندر کھینچنے لگی ہیں۔
قانون:
ہم کہتے ہیں کہ ہم روٹی کھاتے ہیں، صحیح بات یہ ہے کہ گندم کے اندر روشنی یا Energyہمیں اپنی طرف کھنچتی ہے اور جب ہم اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جاتے ہیں تو ہمارے اندر کی بھوک گندم کے اندر جذب ہو جاتی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ ہم چاول یا گندم نہیں کھاتے بلکہ چاول یا گندم ہمیں کھا جاتے ہیں۔ گندم کے اندر کشش ثقل موجود ہے، کشش ثقل ہمیں کھینچ لیتی ہے ، ہم کشش ثقل کو نہیں کھینچتے۔ جب ہمارے اندر یہ تقاضہ پوری گہرائیوں کے ساتھ سرگرم عمل ہو جاتا ہے تو ہمیں بھوک کا احساس ہوتا ہے۔ احساس سے مراد یہ ہے کہ اب ہم بغیر کھانا کھائے نہیں رہ سکتے۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں کھانا مظہر بن جاتا ہے۔
روزمرہ کی زندگی، رہن سہن اور معاشرے میں رائج اخلاقی قوانین و ضوابط(طبیعات) سے ہر شخص اپنے علم کی حدود میں واقفیت رکھتا ہے۔ طبیعات کے بعد دوسرا علم جو عام ذہن سے اوپر کے درجے کا علم ہے۔ اہل دانش نے اس کا نام نفسیات رکھا ہے۔ نفسیات میں وہ باتیں زیر بحث آتی ہیں جن پر طبیعات یا شعور کی بنیادی قائم ہیں۔
ہر نوع میں بچے اپنی مخصوص نوع کے نقش و نگار پر پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بلی آدمیوں سے کتنی ہی زیادہ مانوس ہو اس کی نسل بلی ہی ہوتی ہے۔ کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ بکری سے گائے پیدا ہوتی ہو یا گائے سے کبوتر پیدا ہوا ہو۔
شکم مادر میں ایک طرف نوعی تصورات بچے کو منتقل ہوتے ہیں اور دوسری طرف ماں اور باپ کے تصورات بچے کو منتقل ہوتے ہیں۔ ان تصورات میں متعین مقداریں کام کرتی ہیں۔
’’بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے تخلیق کیا اور مقداروں کے ساتھ ہدایت بخشی۔‘‘ (قرآن)
یہ مقداریں ہی نوع کو الگ الگ کرتی ہیں۔ تخلیقی فارمولوں میں جب یہ مقداریں بکری کے رنگ و روپ میں تبدیل ہوتی ہیں تو بکری بن جاتی ہیں اور جب یہی مقداریں آدم کے نقش و نگار میں تبدیل ہوتی ہیں تو آدمی بن جاتا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 23 تا 30

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)