حِس

مکمل کتاب : نظریٗہ رنگ و نُور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=16009

مشاہداتی بات یہ ہے کہ گوشت پوست کا لوتھڑا جب انسانی شکل و صورت اختیار کر لیتا ہے اور اس کے اندر آنکھ، کان، ناک اور دماغ بن جاتا ہے تو وہ سنتا بھی ہے، بولتا بھی ہے، دیکھتا بھی ہے اور محسوس بھی کرتا ہے۔ پیدا ہونے کے بعد ایک ضابطہ اور ایک قانون کے ساتھ اس کی نشوونما ہوتی ہے اور یہ نشوونما اسے اس مقام پر پہنچا دیتی ہے جہاں فرد کوبا شعور اور باعقل کہا جاتا ہے۔

نوع انسانی کا تجربہ ہے کہ دنیا میں ہر فرد اپنا الگ ادراک رکھتا ہے۔ یہ انفرادی ادراک ہی ایک دوسرے کی شناخت اور پہچان کا ذریعہ ہے۔

پہچاننے کے دوطریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے علاوہ کسی دوسرے آدمی کو دیکھتے ہیں۔ پہلے خود کو جسمانی خدوخال کے ساتھ فہم و ادراک کے ساتھ پہچانتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنے سامنے دوسرے شخص یا دوسری مخلوق کو پہچانتے ہیں۔ یہ جاننا ظاہری دنیا میں جاننا ہے۔ دوسری طرز یا باطن میں پہچاننا اس طرح ہے کہ باطنی رخ میں اللہ کے حکم کی تمام تصویریں محفوظ ہیں۔ جب کوئی شکل و صورت ہمارے سامنے آتی ہے تو ہم اسے باطنی وجود کی معرفت پہچان لیتے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ ہر ظاہری رخ باطن کا عکس ہے۔ جب تک کوئی شئے باطنی رخ کے ساتھ موجود نہیں ہوتی ظاہری شکل و صورت میں نظر نہیں آتی۔

افراد کائنات کی شناخت کا قانون یہ ہے کہ پوری کائنات یکجائی طور پر لوح محفوظ پر نقش ہے اور لوح محفوظ پر یکجائی پروگرام نقش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا ہر فرد دوسرے فرد سے باطنی شناخت کا ادراک رکھتا ہے۔

ہر انسان اپنے ذہن کو آئینہ تصور کرے تو دیکھنے کی براہ راست طرز یہ ہو گی کہ کوئی بھی صورت یا شئے پہلے ہمارے ذہن نے دیکھی۔ پھر ہم نے دیکھا۔ ہم جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں اپنے ذہن کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔ کوئی خیال ،کوئی تصور، کوئی شئے اس وقت تک نگاہ کے لئے قابل قبول نہیں ہے جب تک اس کی تصویر انسانی ذہن کی اسکرین پر پہلے سے منعکس نہ ہو۔

ہمارے سامنے ایک گلاس رکھا ہوا ہے۔ اس میں پانی بھرا ہوا ہے۔ نظریۂ رنگ و نور کی طرزوں میں یہ دیکھنا Fictionاور غیر حقیقی ہے۔ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ذہن کی اسکرین پر نگاہ اور علم کے ذریعے گلاس کا عکس اور پانی کی ماہیت جیسے ہی منتقل ہوتی ہے آنکھ اس نقش کو محفوظ کر لیتی ہے۔

نظریۂ رنگ و نور کے نقطہ نظر سے باہر دیکھنا، دیکھنا نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنی روح کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے باوجودیکہ اس کی آنکھ کا ڈیلا، آنکھ کی پتلی، آنکھ کا تل سب کچھ موجود ہے لیکن اسے کچھ نظر نہیں آتا۔ کیوں نظر نہیں آتا؟ اس لئے نظر نہیں آتا کہ جو چیز عکس قبول کر رہی تھی اس نے جسم سے اپنا رشتہ منقطع کر لیا ہے۔ یہ صورت حال موت کے علاوہ عام زندگی میں بھی پیش آتی ہے۔ مثلاً ایک آدمی اندھا ہو گیا اس کے سامنے بہت ساری چیزیں رکھی ہوئی ہیں لیکن اسے کچھ نظر نہیں آ رہا اس لئے نظر نہیں آ رہا کہ جو چیز دیکھنے کا ذریعہ تھی وہ موجود نہیں ہے۔ یعنی آنکھ نے دیکھ کر کسی چیز کا عکس ذہن پر منتقل نہیں کیا۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنکھیں صحیح ہیں۔ جسمانی حیثیت بھی برقرار ہے لیکن دماغ کےCellsبیکار ہو جاتے ہیں۔ وہ سیل جو انسان کے اندر حسیات پیدا کرتے ہیں یا وہ سیل جو دیکھنے کا ذریعہ بن کر تصویری خدوخال کو ظاہر کرتے ہیں ٹوٹ جاتے ہیں یا معطل ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں انسان نہ دیکھ سکتا ہے نہ محسوس کر سکتا ہے۔ ایک آدمی کو چیونٹی کاٹتی ہے اس نے چیونٹی کو دیکھا نہیں لیکن وہ چیونٹی کے کاٹنے کی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ وہ حس جو آدمی کے اندر کسی بھی طریقے سے علم بنتی ہے اس نے انسانی لا شعور کو یہ بتا دیا ہے کہ کسی چیز نے کاٹا ہے۔ انسان کو سب سے پہلے جس چیز کا علم حاصل ہوتا ہے خواہ وہ لمس کے ذریعے ہو، شامہ کے ذریعے ہو، سماعت کے ذریعے ہو یا بصارت کے ذریعے ہو، دراصل احساس کا پہلا درجہ ہوتا ہے۔

کسی چیز کو سننا، سننے کے بعد مفہوم اخذ کرنا یہ احساس کی دوسری درجہ بندی ہے۔ انسان کو جب کسی چیز کا پہلی مرتبہ عالم حاصل ہوتا ہے تو یہ احساس کا پہلا درجہ ہے۔ دیکھنا احساس کا دوسرا درجہ ہے، سننا احساس کا تیسرا درجہ ہے، چیز کو سونگھ کر اس کی خوشبو یا بدبو محسوس کرنا احساس کا چوتھا درجہ ہے، چھونا احساس کا پانچواں درج ہے۔ امر حقیقت یہ ہے کہ انسان فی الواقع ایک علم ہے اور علم مختلف درجوں میں احساس بنتا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 46 تا 49

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)