مذہب

مکمل کتاب : نظریٗہ رنگ و نُور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17356

جب ہم کائنات اور کائنات میں موجود نوعوں کا اور نوعوں کے افراد کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں اس تذکرے کو مکمل کرنے کے لئے تین مقامات سے گزرنا پڑتا ہے اوریہ تین مقامات ہی دراصل کائنات کی تخلیق کا وہ عمل ہیں جس عمل پرکائنات موجود ہے اور کائنات میں زندگی کے آثار و احوال پائے جاتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ انسان جب انفرادی طور پر زندگی گزارنا چاہتا ہے یا زندگی کو انفرادی دائرے میں رہ کر سمجھنا چاہتاہے تو اس کی سوچ محدود ہوتی ہے۔ اس کے اندر اخلاص نہیں ہوتا۔ کسی فرد کے اندر اخلاص کے معانی یہ ہیں کہ وہ انفرادی سوچ سے بالاتر ہو کر نوعی سوچ کو اپنالے۔ جب کوئی بندہ انفرادی طور پر آزاد ہو کر نوعی سوچ کو اپنا لیتا ہے تو اس کے اندر اخلاص کا چشمہ ابل پڑتا ہے۔ اس کی فہم و فراست انفرادیت سے نکل کر اجتماعی بن جاتی ہے۔ پھر یہی فرد جب اپنی نوع سے نکل کر کائنات کے اندر تمام نوعوں کے بارے میں تفکر کرتا ہے تو اخلاص کا یہ چشمہ بہت بڑا چشمہ بن جاتا ہے اور پوری نوعوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں انسان کی فہم و فراست نوعی درجہ بندیوں سے گزر کر کائناتی بن جاتی ہے۔ جب کسی انسان کے اندر اس کی سوچ کائنات کو احاطہ کر لیتی ہے تو کائنات سے اس کا رشتہ مستحکم ہو جاتا ہے اور وہ کائنات میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیتا ہے۔
ہم انسانی جسم کو مادی جسم کہتے ہیں۔ اس مادی جسم سے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لاشعور نے بنایا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو غذا انسان کو خارج سے ملتی ہے اس سے خون اور جسم بنتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہی جسم ایک خاص وقت میں ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے اور یہی جسم باوجودیکہ انتہائی ضعیف اور کمزور ہو جاتا ہے لیکن جسم ریزہ ریزہ نہیں ہوتا۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ خارج سے ملنے والی غذا سے خون اور جسم تخلیق ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ روشنی مادہ کی شکل میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ عظیم روحانی سائنسدان اس بات کو مثال دے کر بیان فرماتے ہیں۔ انسان کو اپنی زندگی میں ایک سے زیادہ مرتبہ سخت ترین بیماریوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ بیماری کے زمانے میں غذا کم سے کم رہ جاتی ہے یا مفقود ہو جاتی ہے۔ غذا کم ہونے یا مفقود ہوجانے سے موت واقع نہیں ہوتی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جسمانی مشین زندگی کو چلانے کی ذمہ دار نہیں ہے۔ ان مشاہدات سے یہ بات تحقیق ہو جاتی ہے کہ خارج سے انسانی جسم کو جو کچھ ملتا ہے وہ زندگی کا موجب نہیں ہے ۔ زندگی کا موجب صرف لاشعور کی کارفرمائی ہے اور کل ذات سے روشنی کی منتقلی ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے۔ پھر وہ چند ماہ کا ہوجاتا ہے۔ پھر ساٹھ ستر اسی اور نوے سال کا ہو جاتا ہے۔ اس کے خیالات میں اس کے علم و عمل میں ہر لمحہ تغیر ہوتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ اس کے جسم کا ہر ذرہ بدل جاتا ہے۔ لیکن وہ شخص نہیں بدلتا۔ وہ جو کچھ چند ماہ کی عمر میں تھا وہی نوے سال کی عمر میں ہوتا ہے۔ اگر اس کا نام زید ہے وہ ہمیشہ زید کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کل ذات سے جو تصور انسانی شعور کو منتقل کر دیا جائے وہ ہی تصور قائم رہتا ہے۔ چاہے جسم کا ایک ایک ذرہ تبدیل ہو جائے۔
زید کیا ہے ؟ فی الواقع ہم جب زید کی بنیاد Base Lineکا تذکرہ کرتے ہیں تو ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ زید کل ذات ہے۔ ردوبدل کل ذات میں نہیں یک ذات میں ہو رہا ہے۔
سورہ حدید میں بیان ہوا ہے:
’’وہی ہے جو ہر شئے کو محیط ہے۔‘‘

کائنات کا علم ایک ذات کو حاصل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب زید کل ذات ہے تو اسے کائنات کا علم کیوں حاصل نہیں ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ زید اپنی ذات کے اندر گم رہتا ہے اور وہ کل ذات سے لاتعلق رہتا ہے۔ زید اپنی ذات سے باہر نہیں نکلنا چاہتا۔ قانون یہ ہے کہ اگر کوئی فرد اپنی حدودمیں رہ کر اپنی ذات کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کی سوچ محدود ہے۔ محض ذات کی حدود میں سوچنے سے اس کے اندر محدودیت پیدا ہونے کی بناء پر اخلاص پیدا نہیں ہوتا۔ محدود انفرادی سوچ محدود حواس ہیں اور نوعی سوچ لامحدود حواس ہیں۔ جب فکر میں گہرائی پیدا ہوتی ہے تو لامحدود حواس کل ذات کی روشنی بن جاتے ہیں۔ اگر ایک شخص کی تمام دل چسپیاں اپنے خاندان تک محدود ہیں اس کی سوچ خاندان کی حدود میں سوچتی ہے۔ جتنی فہم محدود ہو گی، مشاہدات اسی مناسبت سے محدود ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی ایک شخص نے اپنی تمام دلچسپیاں محض خاندان تک محدود رکھ کر اپنی فہم کو محدود کرلیا ہے۔ فہم خاندان تک محدود ہونے کی بناء پر وہ خاندان سے باہر دیکھنے سے قاصر ہے۔ یہ قانون ہے کہ انسان کی آنکھ، کان اپنی فہم کی حدود میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ وہ فہم کی حدود سے باہر نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں۔

وہ انسان جس کی سوچ صرف اپنی ذات تک محدود ہے کبھی ماورائی دنیاؤں کے راستوں پر قدم نہیں بڑھا سکتا۔ ماورائی دنیاؤں کے راستے پر چلنے کے لئے ضروری ہے کہ بندہ انفرادی سوچ سے آزاد ہو جائے اور اس کے اندر انفرادی سوچ کی جگہ اجتماعی سوچ متحرک ہو جائے۔ انسانی زندگی میں مذہب اس لئے ضروری ہے کہ ہر مذہب افراد کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ انفرادی سوچ سے نکل کر اجتماعی سوچ کو اپنی طرز زندگی بنا لیا جائے۔ ہر مذہب بھائی چارے کا حکم دیتا ہے۔ ہر مذہب محبت کرنا سکھاتا ہے۔ ہر مذہب کی تعلیمات یہ ہیں کہ تفرقہ نہ ڈالو۔ متحد ہو کر رہو۔ ہر مذہب تعلیم دیتا ہے کہ جو کچھ اپنے لئے چاہو دوسروں کے لئے بھی چاہو۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب انسان کے لئے لازمہ حیات ہے۔ جب تک کوئی آدمی مذہبی اقدار کو نہیں اپنائے گا۔ اس کے اندر کائنات سے متعلق اخلاص پیدا نہیں ہو گا اور جب تک کسی قوم کے اندر ایمان اور یقین نہیں ہو گا، کائنات کا اخلاص نہیں ہو گا، انفرادی سوچ رکھنے والی قوم کائناتی قدروں کا مشاہدہ نہیں کر سکتی۔ اس وضع کی قومیں ہزاروں سال کی عمر پانے کے باوجود پالنے کا بچہ رہتی ہیں۔
یہ روشنی جس کو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں یک ذات اور کل ذات کے درمیان ایک پردہ ہے۔ اس روشنی کے ذریعے کل ذات کے تصورات یک ذات کو منتقل ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہیں گے کہ کل ذات جو اطلاعات یک ذات کو دیتی ہے ان اطلاعات کو یہ روشنی، رنگ اور روشنی ، ابعاد (Dimension)دے کر یک ذات کو پہنچاتی ہے۔ اس کی مثال ٹیلیویژن Television سے دی جا سکتی ہے۔ ٹی وی کی سطح پر وہ ساری چیزیں نظر آتی ہیں اور آوازیں آتی ہیں جوStation سے ارسال کی جاتی ہیں۔ جس وقت یہ ترسیل منقطع ہو جاتی ہے تو نہ تصویر دکھائی دیتی ہے اور نہ آواز سنائی دیتی ہے۔
یہ حال کل ذات سے آنے والی اطلاعات کا ہے۔ نوع انسانی کے افراد کو روشنی کے ذریعے اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ اس طرح اطلاع ملتی ہے انسانی افراد اسی طرح دیکھتے اور جانتے ہیں۔ جس روشن میں ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں وہ یک ذات اور کل ذات کے درمیان پردہ ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 192 تا 197

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)