آنکھ

مکمل کتاب : نظریٗہ رنگ و نُور

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=16100

فرد کی ایک حرکت جسمانی خدوخال کے ساتھ واقع ہوتی ہے۔ جسمانی خدوخال کے ساتھ واقع ہونے والی حرکت کو ہم منفرد یا اختیاری حرکت نہیں کہہ سکتے۔ یہ حرکت بہرحال کسی نہ کسی حرکت کے تابع ہے۔ جسمانی خدوخال کے ساتھ جو حرکات صادر ہوتی ہیں وہ تمام شعوری حرکات ہیں۔ جن کو خارجی زندگی کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جس مخفی احساس کے اوپر جسمانی وجود حرکت کرتا ہے وہ داخلی زندگی یا فرد کا لاشعور ہے۔ خارجی اور داخلی زندگی کی مثال یہ ہے کہ پانی ایک ضرورت یا تشنگی ہے۔ پیاس شئے کا ایک رخ ہے اور پانی دوسرا رخ ہے۔ پیاس روح کی شکل و صورت اور پانی جسم کی شکل و صورت ہے۔ جب ہم پیاس کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں دو رخ آتے ہیں۔ ایک رخ روح اور دوسرا جسم۔ یہ دونوں رخ کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ اگر دنیا سے پیاس کا احساس ختم ہو جائے تو پانی بھی فنا ہو جائے گا۔پانی اس لئے موجود ہے کہ پانی کی روح موجود ہے۔ زندگی کا تعارف خدوخال اور نقش و نگار کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ز ندگی کا ایک حصہ خدوخال اور نقش و نگار پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ رفتار کے اوپر قائم ہے۔
ایک بچہ جب پید ا ہوتا ہے ، مخصوص خدوخال اور نقش و نگار کے ساتھ دنیا میں آتا ہے۔ ان ہی مخصوص خدوخال کے ساتھ ساٹھ ستر سال زندہ رہتا ہے، نقش و نگار اور خدوخال میں جیسے جیسے تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ جیسے جیسے قدو قامت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے تبدیلی نظر آتی ہے۔ پیدائش سے ساٹھ ستر سال کا وقفہ ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتا ۔ زندگی جس وقت پر رواں دواں ہے، جس کو شعور دن اور ماہ و سال میں ریکارڈ کرتا ہے اس کو ہماری ظاہری آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ زندگی کا ایک رخ آنکھوں کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا رخ آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ وہ رخ جو آنکھوں کے سامنے ہے اور جس میں ہم نقش و نگار اور خدوخال کا بڑھنا گھٹنا دیکھتے ہیں، سب کا سب مکان Spaceہے اور جس خلاء میں یہ خدوخال گھٹ رہے ہیں اور بڑھ رہے ہیں اور جو آنکھوں سے اوجھل ہے وہ زمان Timeہے۔ انسان جہاں سے آیا ہے، آنے کے بعد اس کا بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپا یا مرنے کے بعد جہاں چلا گیا وہ Timeہے اور انسان نے جس طرح بچپن، جوانی اور بڑھاپے کو خدوخال کے ساتھ محسوس کیا وہ Spaceہے۔ جب ہم زمان کا تذکرہ کرتے ہیں تو نظریۂ رنگ و نور کے مطابق ساری کائنات زمانیت میں ایک دوسرے کے ساتھ ہم رشتہ ہے اور جب ہم مکانیت کا تذکرہ کرتے ہیں تو کائنات نوعی اعتبار سے اور انفرادی اعتبار سے الگ الگ ہے۔ ہم بھیڑ، بکری، بندر، چوہا، کتا اور انسان کی زندگی کا تذکرہ کرتے ہیں تو زندگی اور انرجی سب میں مشترک ہے۔ جب ہم نوعی اعتبار سے کائنات کا تذکرہ کرتے ہیں یا Spaceکی حدود کا تذکرہ کرتے ہیں تو چوہا، بندر اور ہاتھی الگ الگ خدوخال میں نظر آتے ہیں۔
تخلیق فارمولا یہ بنا کہ زندگی دو رخوں پر قائم ہے۔ ایک رخ زمان ہے اور دوسرا رخ مکان ہے۔ جو ایک طرف گھٹتا ہے دوسری طرف بڑھتا ہے اور Recordہو جاتا ہے۔
زندگی جس رخ پر قائم ہے سب کا سب Timeہے۔ زندگی جس رخ پر گھٹ رہی ہے، بڑھ رہی ہے یا فنا ہو رہی ہے سب کا سب Spaceہے۔ زمانیت یا ٹائم میں کائنات کا ہر فرد ایک دوسرے کو پہچانتا ہے اور ایک دوسرے سے متعارف ہے۔ سورج کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سورج جس طرح ہماری خدمت گزاری میں مصروف ہے اسی طرح زمین پر موجود ہر مخلوق کی خدمت گزاری میں مصروف ہے۔ نوکروڑ تیس لاکھ میل کے فاصلے پر جب ہم زمین سے سورج کو دیکھتے ہیں تو ہماری نگاہ کور چشمی محسوس نہیں کرتی۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب ہم اپنا رشتہ زمانیت سے قائم کر لیتے ہیں تو ہمارے لئے فاصلے معدوم ہو جاتے ہیں۔ ہماری آنکھ جو چند سو فٹ سے آگے نہیں دیکھ سکتی نو کروڑ تیس لاکھ میل دور دیکھ لیتی ہے۔
کائنات میں یا افراد کائنات میں تعارف کے لئے جو روشنی ذریعہ بن رہی ہے وہ ازل سے ایک ہی طرز پر قائم ہے۔ کائنات کے تمام افراد کی روح ایک ہے لیکن جسمانی خدوخال الگ الگ ہیں۔ جہاں روح ایک ہے وہاں ہر شئے میں اشتراک ہے مثلاً بھوک بکری کو بھی لگتی ہے، بھوک انسان کو بھی لگتی ہے، کبوتر کو بھی لگتی ہے، بھوک کا لگنا زمانیت ہے۔ لیکن انفرادی طور پر جب خدوخال مکانیت بنتے ہیں تو غذا الگ الگ ہو جاتی ہے۔ بھوک لگنا زمانیت پر قائم ہے اور بھوک کو مختلف چیزوں سے رفع کرنا اسپیس یا مکانیت ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 106 تا 109

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)