معمولات
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14618
بابا تاج الدینؒ وقت اور معمول کے پابند نہ تھے۔ واکی کا زمانۂ قیام ہو یا شکردرہ کا دورِسکونت۔ لوگ دیکھتے کہ باباصاحب ابھی ندی کے کنارے بیٹھے ہوئے ہیں تو کچھ دیر بعد جنگل میں کسی درخت کے نیچے تشریف فرماہیں۔
شکردرہ میں صبح چاربجے باباصاحب کی خدمت میں چائے پیش کی جاتی اوراس وقت سے لوگ آپ کے گرد جمع ہونا شروع ہوجاتے۔ باباصاحب کبھی چائے پی لیتے۔ کبھی کسی کو دے دیتے۔ کبھی کچھ پی کر باقی حاضرین کو عنایت کر دی جاتی۔ دن نکلنے کے بعد بابا صاحب اکثر محل سے باہر نکلتے۔ شکردرہ محل کے باہر دکان دار، راجا کے نوکر اورزائرین اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے لیکن ان کی منتظرنظریں وقفے وقفے سے محل کے دروازے کی طرف اٹھ جاتیں اور جوں ہی بابا صاحب محل سے باہر آتے، ایک شور بلند ہوتا کہ باباصاحب آرہے ہیں۔ مٹھائی والے مٹھائی لیکر دوڑتے، پھول والے گجرے اٹھاکر بھاگتے اورزائرین بابا کے پیچھے پیچھے چل پڑتے۔ محبّین پھول نچھاور کرتے رہتے۔ کوئی بڑھ کر گجرا گلے میں ڈال دیتا۔ باباصاحب چلتے چلتے کسی مقام پر بیٹھ بھی جاتے۔ لوگ پھول اور مٹھائی پیش کرتے، کوئی نذر پیش کرتا۔ باباصاحب بڑبڑاتے ہوئے سائلین کو جواب دیتے رہتے۔ ہجوم کی وجہ سے بابا صاحب کا شفقت بھرا لہجہ کبھی کبھی پیار بھری ڈانٹ میں تبدیل ہوجاتا۔ خفاہوکر مار بھی دیتے لیکن فدائین پیچھا نہیں چھوڑتے تھے۔
بابا صاحب کبھی شہر کی طرف جاتے اور کبھی جنگل کا رخ کرتے۔ جنگل کی طرف پیدل بھی چل دیتے لیکن اکثر سواری پر جاتے تھے۔ سواری کے لئے بیل گاڑی یا تانگہ ساتھ ہوتا تھا۔ لیکن زیادہ ترتانگے میں سفر کرتے تھے۔ باباصاحب محل سے نکل کر جب دور تک پیدل چلے جاتے تولوگ کوشش کرتے کہ کسی طرح باباصاحب تانگہ میں سوار ہو جائیں۔ ایسا بھی ہوتا کہ باباصاحب خود سواری طلب کرتے۔ ہیرا لعل نامی کوچوان تانگہ حاضر کرتا۔ تانگے کے گھوڑے کانام باباصاحب نے بہادر رکھا تھا۔ باباصاحب تانگے میں سوار ہوجاتے تو ایک پہلوان سامنے اور ایک پائیدان پر بیٹھ کر ساتھ جاتے تھے۔ ’بہادر‘ گھوڑا باباصاحب کے اشارے کا منتظر رہتا تھا۔ جوں ہی باباصاحب کی زبان سے نکلتا’’بڑھاؤ‘‘گھوڑا خودہی سرپٹ دوڑنے لگتا۔ کوچوان کو باگیں کھینچنے اور دائیں یا بائیں اشارہ دینے کی اجازت نہ تھی۔ بہادر از خود سڑکوں اورجنگلوں کے راستوں پر دوڑتارہتا۔ جیسے ہی تانگہ شکردرہ سے نکلتا، زیارت وقدم بوسی کے لئے لوگوں کو ہجوم ہوجاتا۔ اورہجوم کے اکثرلوگ تانگے کے ساتھ دوڑتے رہتے۔ باباصاحب شہرکا گشت کرتے، کسی کسی جگہ گاڑی رکوا کر لوگوں سے ملاقات کرتے تھے۔ ہر جگہ رکنے میں کوئی رمز پوشیدہ ہوتا تھا۔ اکثر دور سے آئے ہوئے لوگ جو باباصاحب سے ملاقات کی متمنّی ہوتے تھے اورملاقات کا موقع حاصل نہیں ہوپاتا تھا، باباصاحب ان سے ملتے تھے۔ ایسابھی ہوتا کہ کہیں رک کر مصیبت زدوں اورپریشان حالوں کو تسلی دیتے ۔
باباصاحب پیدل جنگل کا رخ کرتے تو لوگ کھانا اور چائے لے کر ساتھ جاتے۔ باباصاحب اکثر دوپہر کا کھانا جنگل میں کھاتے تھے۔ کبھی خود طلب کرتے اور کبھی وقت ہونے پرلوگ پیش کرتے۔ ہر شخص اپنا توشے دان کھول کر بابا صاحب کے سامنے پیش کرتا۔ باباصاحب کسی توشےدان میں سے کچھ کھا لیتے اور باقی کھانا زائرین میں تقسیم ہوجاتا۔ باباصاحب دال چاول شوق سے کھاتے تھے اور کبھی کبھی یہ شعر پڑھتے۔
دال چاول پیڑکا پھول یہ نہ کھایا تو مٹی دھول
جنگل میں کئی کئی دن قیام رہتا۔ کبھی کسی گاؤں میں چلے جاتے اور کبھی گاؤں سے باہر ہی رہتے۔ لوگ جنگل میں بھی باباصاحب کے ساتھ مقیم رہتے۔ دربار تاج الاولیاء کے آداب میں یہ بات شامل تھی کہ کوئی بغیر اجازت واپس نہیں جاتا تھا۔ بعض لوگوں کو ملاقات کے بعد ہی جانے کی اجازت مل جاتی اور بعض ہفتوں وہاں رہتے۔ حاضرین دربارموسم کی سختیاں اورمسافرت کے دن برداشت کرتے لیکن جانے کانام نہیں لیتے تھے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 38 تا 40
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔