بے تیغ سپاہی

مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ

مصنف : سہیل احمد عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14710

نواب صدیق علی خاں صاحب تحریکِ پاکستان کے ایک بہت فعال اور سرگرم رکن رہے ہیں۔ انہوں نے تحریکِ پاکستان کے مختلف پہلوؤں اوراس کے واقعات پر ایک قابلِ قدر کتاب ’’بے تیغ سپاہی‘‘ قلم بندکی جس میں انہوں نے حضرت تاج الاولیاء باباتاج الدینؒ کا ذکر بھی کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں:

جب میں والد مرحوم کی انگلی پکڑکر باباکے دربار میں گاہے گاہے جایا کرتاتھا باباصاحبؒ بالعموم لمباکُرتا پہنتے اوربرہنہ سراور برہنہ پا رہتے تھے۔ وہ اپنا زیادہ وقت پاپیادہ چلنے میں گزارا کرتے تھے۔ ایک دن اپنے سلیم شاہی جوتے پہنے ہوئے جس کی ایڑی کے حصّے کو میں نے شرارت میں سپاٹ بنادیاتھا۔ باباصاحبؒ کے پیچھے پیچھے والد کے ساتھ جارہاتھا کہ باباصاحبؒ ایک دم رک گئے اورمجھ سے فرمایا۔’’لاؤجی ہم تمہاری جوتی پہنیں گے۔‘‘ میں گھبرا گیا اور ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا۔ والدصاحب نے فوراً حکم کی تعمیل کرنے کو کہا۔ باباصاحبؒ نے اپنے پیروں کی چند انگلیاں ڈال کر میری جوتیاں پہن لیں اور تھوڑی دیر تک اِدھراُدھر پھرتے رہے۔ یقیناً یہ میری بڑی سرفرازی تھی۔ ایک عرصہ کے بعد اس کے بڑے دوررس نتائج برآمد ہوئے اورجولائی ۱۹۶۱؁ء میں افریقہ کی سفارتی صحرانوردی کے بعد ختم ہوئے۔

ان کا روزانہ کا معمول تھا کہ وہ اپنا کچھ وقت تانگہ میں بیٹھ کرناگپور کے گلی کوچوں میں پھر کر گزارا کرتے تھے۔ وہ اکثرہمارے آبائی گھر کے سامنے سے جو میرے بزرگوں کے بسائے ہوئے نواب محلّہ میں واقع تھا سواری میں گزارا کرتے اوراسے رشکِ ارم  بناتے۔ جذبۂ عشق خداوندی سے وہ اکثر اوقات بے تاب ہوکر بلند وپست آواز میں سلسلۂ تکلّم جاری رکھتے جو بعض اوقات مجھ ایسے کوڑھ مغزوں کے لئے بے معنٰی لیکن عارفین حق کے لئے معرفت کا ایک بحرِذخّار ہوتا۔ ان کا جلال کبھی اتنا بڑھ جاتا کہ ستانے والوں کو زدوکوب سے بھی باز نہ آتے۔ اورخصوصاً ان کی بہت پٹائی کرتے جو ان کے سامنے منہ کے بل اوندھے پڑجاتے یا پیر پکڑکر منتیں مرادیں مانگتے۔ میں اس دن کا واقعہ سنانا چاہتاہوں جس دن میری بڑی بہن جو صرف خاندان ہی میں نہیں بلکہ اس سے باہر بھی بہت محبت وعزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔ ہم سب کوروتا چھوڑ کر اس دنیا سے منہ موڑنے والی تھیں۔ دوپہر سے قبل ہم سب نے بابا کی سواری کو اپنے غم کدہ کے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھا اور سب اہلِ خاندان میری بہن کی گرتی ہوئی حالت دیکھ کر طالبِ دعا ہوئے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کی حالت تیزی سے بگڑنے لگی اور سب کو یقین ہوگیا کہ بس اب دمِ واپسیں ہے۔ عزیزوں نے خاموش آہ و زاری شروع کر دی۔ عصر ومغرب کے درمیان اطلاع ملی کہ حضور کی سواری پھر آرہی ہے۔ میں چشمِ پرنم کے ساتھ بے تحاشہ بھاگتا ہواسڑک پر پہنچا۔ حضور نے سواری رکوائی ۔ کچھ بے ربط جملے فرمائے جو میں اس وقت سمجھ نہ سکا۔ غالباً رحلت کی اطلاع اوردلاسا دینا مقصود تھا۔

تیسرے واقعے کا تعلق میرے ہم عمر عزیز دوست سید عظیم الدین عرف میرصاحب سے ہے جو میرے بھائیوں جیسے تھے۔ میرے والد نے میرصاحب کی والدہ کو بہن بنایا تھا۔ اس مناسبت سے میں انہیں پھوپھی اور سید احمد حسین صاحب پٹیل کو پھوپھا کہتا تھا انہوں نے باباصاحبؒ سے بے پناہ عقیدت کی بنا پر ان کے دربارِ عرفان میں دنیا چھوڑکر مستقل سکونت اختیار کرلی تھی۔ میر صاحب کو شکار کا اتنا شوق تھا کہ وہ ناگپور کے اکناف یا اپنے مال گزاری گاؤں کے اطراف تمام وقت ہرن کا شکار کھیلا کرتے تھے۔ المختصر وہ دماغی توازن کھو بیٹھے اورمارنے پیٹنے پر اتر آئے۔ لوگ اور محلے والے ان سے ہراساں اورخوف زدہ رہنے لگے۔ ان کے والد نے دلی وابستگی کی وجہ سے میر صاحب کے ہاتھ پاؤں لوہے کی زنجیر میں باندھ کر ان کو تاج الاولیاءؒ کے دربار میں پہنچا دیا۔ میرصاحب تنومند، گورے چٹے، خوبصورت، دراز قد نوجوان تھے۔ دست درازی اور دشنام طرازی اس زمانے میں ان کا شغلِ حیات بن گیا تھا۔ میں ان کی حالتِ زار دیکھنے اور چار آنسو بہانے روزانہ جاتا تھا۔ ایک دن میرے والد محترم نے جنہیں علمِ طب سے شغف تھا فرمایا اگر میرصاحب کی فصد کھلوائی جائے تو وہ اچھے ہوجائیں گے۔ جب میں نے یہ پیغام پٹیل صاحب کو ان کی فرودگاہ پر پہنچایا تو وہ بالکل چراغ پاہوگئے اور فرمایا کہ باباصاحب کے دربار ان کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کیا جائے گا۔ میں آزردہ خاطر اپنا سامنہ لے کر گھر لوٹا اوروالد کو کل احوال سنایا ۔ وہ خاموش ہوگئے۔ لیکن میں نے دوسرے دن تک اپنا تمام وقت یہ سوچنے میں کاٹا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ حسبِ معمول عازمِ شکردرہ ہوا۔ دل نے کہا باباصاحبِ کشف ہیں۔ ان سے دل ہی دل میں کہہ ڈالو کہ میر صاحب کے والد کے دل میں خدا فصد کھلوانے کا خیال ڈال دے تاکہ میرا محبوب ترین دوست پھر سے تندرست ہوجائے۔ میں دربار میں پہنچا۔ وہاں روز جیسی چہل پہل تھی۔ عقیدت مند اور حاجت مند باباصاحب کو دوتہائی گھیر میں لئے بیٹھے تھے۔ باباصاحب ہمیشہ کے مطابق جذب سے سرشار اونچی اونچی آواز میں بولے چلے جارہے تھے۔ دائرہ کا جو ایک نہائی حصہ کھلا پڑا تھا۔ اس سمت میں بہت دور میرصاحب زنجیروں کے بندھن میں چیختے چلّاتے ہاتھ پیر مارتے ہوئے پڑے تھے۔ ایسی حالت میں بھی وہ مجھ سے قولاً یا فعلاً بری طرح پیش نہیں آئے۔ میں ان کے قریب جاکر بیٹھ گیا اور باباصاحبؒ کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت کی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اس جھرمٹ میں پٹیل صاحب پھوپھا ہاتھ باندھے ہوئے بیٹھے ہیں۔ان کی غیر متوقع موجودگی نے میری دلی تمنا کو تازیانہ لگایا۔ اورمیرا دل تڑپ گیا۔ اپنی دلی خواہش کو زبان ہلائے بغیر باباصاحبؒ تک پہنچا دیا۔ اورمیں انتہائی توجہ کے ساتھ اپنے جواب کے لئے ہمہ تن گوش ہوگیا۔ باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اورمیں بے چینی سے جواب کا منتظر تھا کہ بہ آوازِ بلند ایک جملہ فرمایا گیا تاکہ پھوپھا صاحب ، میں اور دیگر سامعین اچھی طرح سن لیں۔ ٹھیٹ مدراسی لب و لہجہ میں ارشاد فرمایا۔’’ پیشانی کی رگ کاٹ کر خون نکال دیوجی، اچھے ہوجاتے۔‘‘ میں فرطِ مسرت سے اچھل پڑا اور پھوپھا صاحب کی طرف جھپٹا۔ انہوں نے مجھے موقع دیئے بغیر کہا۔’’جاؤ بابا، تمہارا جو جی چاہے کرو۔‘‘میں میرصاحب کو ٹانگہ میں ڈال کر گھر لے گیا۔ والد صاحب بہت خوش ہوئے اور بھونسلہ راجاؤں کے خاندانی جراح سید احمد صاحب کو جونالے پار رہاکرتے تھے۔ شام کو بلواکر میرصاحب کی فصد کھلوائی اورپھر میرصاحب االلہ کی مہربانی سے دوبارہ بھلے چنگے ہوگئے۔

اسی زمانے کا ایک اور واقعہ سنا کر اپنی عقیدتمندانہ شگفتگی کو تازہ اورزیادہ مستحکم کردوں۔ اس زمانے میں سی پی ویرآر کے ہائی اسکولوں کا الحاق الٰہ آباد یونیورسٹی سے ہونے کی وجہ سے میٹرک کے امتحان کے پرچے الٰہ آباد یونیورسٹی سے آیا کرتے تھے۔ حساب کے تین علیٰحدہ پرچے ہوا کرتے تھے۔ میں میٹرک کے امتحان میں شریک ہوا لیکن حساب میں بہت کمزور ہونے کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔ والد صاحب کے دل کو بہت ٹھیس لگی کیوں کہ انہوں نے میرے لئے بہت سے منصوبے تیار rکھے تھے۔ میں بہت مایوس و شرمسار تھا۔ بالآخر کلکتہ یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان دینے کی اجازت مل گئی۔ وہاں سب سے بڑی آسانی یہ تھی کہ حساب کا صرف ایک پرچہ ہوا کرتاتھا۔ امتحان میں شریک ہوا اور کلکتہ سے روزانہ ہوتے وقت چاردوستوں کو تاکید کرکے ناگپور لوٹاکہ نتیجہ جیسے ہی شائع ہو مجھے فوراً مطلع کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ امتحان کے نتیجے کا انتظار ایک طالبِ علم کے لئے کس قدر جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ میری بھی یہی اضطرابی کیفیت تھی۔ اور کبھی کبھی تو میرا اضطراب اس خیال سے ہوش اڑا دیتا تھا کہ اگر اب کے ناکام ہوگیا تو والد صاحب کو ناقابلِ بیان صدمہ ہوگا اورمیں انہیں اپنا منحوس چہرہ کیسے دکھاؤں گا۔ کلکتہ سے نتیجے کی وصول یابی میں کافی تاخیر ہوجانے کی وجہ سے دل بہت پریشان تھا۔ میں اس دن شکردرہ میرصاحب کی عیادت کو گیا تڑپتے دل سے دل ہی دل میں باباصاحبؒ سے عرضِ مدعا کر بیٹھا یعنی آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ میں کامیاب ہوجاؤں۔ اس دربار سے تو کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتاتھا۔ لہٰذا میں کیسے بے مرام لوٹتا۔ فدائیوں نے حضورکو گھیر رکھا تھا۔ میں بہت دور سوالی بنا ہوا میرصاحب کے پاس بیٹھا کسی کرامت کا انتظار کر رہا تھا۔ معلوم نہیں زور زور سے کیا کیا بہت سے بے ربط جملے ارشاد کئے جا رہے تھے کہ کیا دیکھتا ہوں عیسیٰ خاں صاحب جو ان کی خدمت میں اکثر حاضر رہا کرتے اور باباصاحبؒ کی ڈاک رکھا کرتے تھے باباصاحبؒ کے جو کھردری زمین پر لیٹے ہوئے تھے، پیردبارہے تھے، باباصاحبؒ اچانک اٹھ بیٹھے۔ عیسیٰ صاحب کے کرتے کی بالائی جیب میں ہاتھ ڈال کر چارپوسٹ کارڈ ہوا میں پھینکتے ہوئے بآواز بلند فرمایا۔’’جاؤ جی، نتیجہ آگیا، پہلے درجے میں پاس کر گئے۔ ‘‘میں خوشی خوشی بائیسکل لے کر گھر کے لئے روانہ ہوا۔ مکان کے باہر شہ نشیں کے قریب پہنچ کر سائیکل سے اترا ہی تھا کہ دور سے کسی نے زور سے پکار کر کہا۔ ’’میاں!میاں! ذرارک جائیے اور اپنی ڈاک لیتے جائیے۔‘‘دھڑکتے ہوئے دل سے مڑکر دیکھا۔ ڈاکیہ نے چار پوسٹ کارڈ دیئے۔ مضمون من وعن وہی تھا جس کا انکشاف پہلے ہی تاج الاولیاء کر چکے تھے۔

نواب صدیق علی خاں مزید لکھتے ہیں۔’’ایک دن میرے والد صاحب حضرت باباصاحبؒ کے لئے نہایت اہتمام سے انڈے کی مٹھائی جسے پیوسی کہا جاتاتھا، بنوا کر لے گئے ۔ باباصاحبؒ پاگل خانے کے باہر سڑک کے کنارے گٹیّ کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ چند حاجت مند لوگ منت اورمرادوں کے کشکول لئے ہوئے دربار میں موجود تھے۔ والد نے مٹھائی پیش کی جسے حضورؒ بہت شوق اور رغبت سے کھانے لگے۔ والد صاحب کے دل میں معاً یہ خیال آیا کہ حضور کو ایسی مٹھائی کہاں سے ملتی ہوگی۔ حضور نے فوراً ہاتھ روک لیا اور پتھر اٹھا کر اس طرح آسانی سے کھانے لگے جیسے بڑا لذیذ حلوہ کھا رہے ہوں۔ جب والد نے ندامت کے آنسو بہائے اوردل سے توبہ کی تو حضور نے پتھروں کا کھانا بند کر دیا۔‘‘

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 101 تا 107

سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :

انتساب پیش لفظ اقتباس 1 - روحانی انسان 2 - نام اور القاب 3 - خاندان 4 - پیدائش 5 - بچپن اورجوانی 6 - فوج میں شمولیت 7 - دو نوکریاں نہیں کرتے 8 - نسبت فیضان 9 - پاگل جھونپڑی 10 - شکردرہ میں قیام 11 - واکی میں قیام 12 - شکردرہ کو واپسی 13 - معمولات 14 - اندازِ گفتگو 15 - رحمت و شفقت 16 - تعلیم و تلقین 17 - کشف و کرامات 18 - آگ 19 - مقدمہ 20 - طمانچے 21 - پتّہ اور انجن 22 - سول سرجن 23 - قریب المرگ لڑکی 24 - اجنبی بیرسٹر 25 - دنیا سے رخصتی 26 - جبلِ عرفات 27 - بحالی کا حکم 28 - دیکھنے کی چیز 29 - لمبی نکو کرورے 30 - غیبی ہاتھ 31 - میڈیکل سرٹیفکیٹ 32 - مشک کی خوشبو 33 - شیرو 34 - سرکشن پرشاد کی حاضری 35 - لڈو اور اولاد 36 - سزائے موت 37 - دست گیر 38 - دوتھال میں سارا ہے 39 - بدکردار لڑکا 40 - اجمیر یہیں ہے 41 - یہ اچھا پڑھے گا 42 - بارش میں آگ 43 - چھوت چھات 45 - ایک آدمی دوجسم۔۔۔؟ 46 - بڑے کھلاتے اچھے ہو جاتے 47 - معذور لڑکی 48 - کالے اور لال منہ کے بندر 49 - سونا بنانے کا نسخہ 50 - درشن دیوتا 51 - تحصیلدار 52 - محبوب کا دیدار 53 - پانچ جوتے 54 - بیگم صاحبہ بھوپال 55 - فاتحہ پڑھو 56 - ABDUS SAMAD SUSPENDED 57 - بدیسی مال 58 - آدھا دیوان 59 - کیوں دوڑتے ہو حضرت 60 - دال بھات 61 - اٹیک، فائر 62 - علی بردران اورگاندھی جی 63 - بے تیغ سپاہی 64 - ہندو مسلم فساد 65 - بھوت بنگلہ 66 - اللہ اللہ کر کے بیٹھ جاؤ 67 - شاعری 68 - وصال 69 - فیض اور فیض یافتگان 70 - حضرت انسان علی شاہ 71 - مریم بی اماں 72 - بابا قادر اولیاء 73 - حضرت مولانا محمد یوسف شاہ 74 - خواجہ علی امیرالدین 75 - حضرت قادر محی الدین 76 - مہاراجہ رگھو جی راؤ 77 - حضرت فتح محمد شاہ 78 - حضرت کملی والے شاہ 79 - حضرت رسول بابا 80 - حضرت مسکین شاہ 81 - حضرت اللہ کریم 82 - حضرت بابا عبدالرحمٰن 83 - حضرت بابا عبدالکریم 84 - حضرت حکیم نعیم الدین 85 - حضرت محمد عبدالعزیز عرف نانامیاں 86 - نیتا آنند بابا نیل کنٹھ راؤ 87 - سکّوبائی 88 - بی اماں صاحبہ 89 - حضرت دوّا بابا 90 - نانی صاحبہ 91 - حضرت محمد غوث بابا 92 - قاضی امجد علی 93 - حضرت فرید الدین کریم بابا 94 - قلندر بابا اولیاء 94.1 - سلسلۂ عظیمیہ 94.2 - لوح و قلم 94.3 - نقشے اور گراف 94.4 - رباعیات
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)