مشفق استاد

مکمل کتاب : وقت؟

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17448

السلام علیکم!……
آپ کے اوپر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں……
آپ کے من مندر میں قندیل روشن ہو…..اور قندیل میں چراغ کی روشنی سے آپ کے اندر کا ماحول منور ہو…..اور اس نور سے سمٰوٰت اور ارض کا غیب آپ کے اوپر منکشف ہو……
عزیز قارئین!
میں ایک دستاویز ہوں……ایسی دستاویز جس میں شعور اور لاشعور کے اسرار ورموز اور غیب وشہود کی ایک نہیں، ہزار داستانیں ہیں…..ہر داستان ظاہر وباطن کے تانے بانے سے بُنی ہوئی زندگی ہے…… وہ زندگی!……جو قائم بھی ہے اور فنا بھی…..یہ زندگی عدم سے شروع ہوئی ہے…..اور ہر آن پردہ کے پیچھے چھپ رہی ہے اور غائب ہو رہی ہے…..
زندگی کیا ہے؟ لمحات کی یکجائی ہے!……اربوں کھربوں لمحے ایک جسم میں جمع ہو جاتے ہیں……اور حرکت میں منتقل ہو کر نادیدہ کتاب میں ریکارڈ ہو جاتے ہیں……یہ لمحات کبھی عمدہ، نفیس اور اعلیٰ کینوس پر نقش بن جاتے ہیں اور کبھی بھدّی عیب دار اسکرین پر داغ دھبوں اور بھونڈے زاویوں کے ساتھ ایسے نقوش بن جاتے ہیں جس کو دیکھ کر خود اپنا چہرہ بھیانک نظر آتا ہے اور بیزاری مسلط ہو جاتی ہے……
جب یہ نقش ونگار روشن، شفاف، چکنے اور چمکدار رنگوں سے مزین کینوس پر نظر آتے ہیں تو ہمارے اوپر ایک شان ظاہر ہوتی ہے……جس میں ہر اچھا منظر ہمارے دل کو لبھاتا ہے اور ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے……یہ زمین ہمیں جنتِ ارضی نظر آتی ہے……اور جنت سے متعلق جو علم ہمیں اپنے اسلاف سے ملا ہے، وہ سب ہمارے لئے مشاہدہ اور مظاہرہ بن جاتا ہے……اس کے برعکس جب ہم داغ دھبے والے نقوش کو دیکھتے ہیں، ہمارے اندر وہ علم متحرک ہو جاتا ہے جو دوزخ کے بارے میں اطلاعات پر مبنی ہے……
میرے ساتھیو!……میں آپ کا ایک ایسا دوست ہوں جو چاہتا ہے کہ آپ کی زندگی میں مسرت وشادمانی کے علاوہ کچھ نہ ہو……آپ خوش رہیں……آپ خوش رہیں گے تو آپ کا ماحول بھی ترنگ میں آئے گا……ایک آدمی کو ہنستا ہوا دیکھ کر دس آدمی بغیر کسی وجہ کے ہنسنے لگتے ہیں اور اسی طرح روتے بسورتے آدمی کو دیکھ کر دس آدمی اداس ہو جاتے ہیں……حالانکہ دونوں گروپس کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیوں ہنسے……اور یہ بھی ان کے علم میں نہیں ہوتا کہ وہ کیوں روئے……محض ایک آدمی کے رونے سے دس آدمی رو پڑتے ہیں اور ایک آدمی کے ہنسنے سے دس آدمی ہنسنے لگتے ہیں……اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت بڑے تالاب میں اگر ایک مچھلی سڑ جائے تو سارا تالاب بدبو بن جاتا ہے……حالانکہ تالاب میں اس سڑی ہوئی مچھلی کے ساتھ ہزاروں مچھلیاں اور بھی ہیں……مثل مشہور ہے کہ پکتی ہوئی دیگ میں سے ہزاروں لاکھوں چاولوں میں ایک چاول دیکھ کر یہ بتا دیا جاتا ہے کہ چاول پک گئے ہیں یا کچے ہیں……
میرے دوستو!
میں 33سال سے آپ کی خدمت میں ہر ماہ حاضر ہوتا ہوں……سب سے پہلے آپ حضرات میرے لباس یا کپڑوں پر اظہار خیال کرتے ہیں……کوئی تبصرہ کرتا ہے اور کوئی تنقید کرتا ہے…… میں اب تک تین سو ستانوے(397) روپ بدل کر آپ کے پاس آ چکا ہوں……اور آپ کی دعاؤں کے طفیل مجھے لگتا ہے کہ میری عمر آئندہ کئی نسلوں تک مجھے آپ کی خدمت کا موقع فراہم کرے گی……
جب میں آپ کی نظروں کے سامنے ہوتا ہوں تو سب سے پہلے آپ مجھے دلہن کے روپ میں دیکھتے ہیں……اور جو تبصرہ دلہن کیلئے لوگ کرتے ہیں، آپ کی نواشات بھی میرے اوپر ایسی ہی ہوتی ہیں……پھر آپ دلہن کے مزاج اور دلہن کی صلاحیتوں کو بیان کرتے ہیں……
دلہن اچھی ہے! ……دلہن سگھڑ ہے……دلہن اچھی بات کرتی ہے……اچھی بات نہیں کرتی……خاندان کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے؟ ……
میرے ہمسفر مسافرو! ……
آپ سب بھی میرا خاندان ہیں……میں آپ کا دوست……آپ کا ہمدرد……آپ کا بزرگ ہوں……جس طرح ساری دنیا کے بزرگ اپنی نسل کی حفاظت کرتے ہیں……ان کے اخلاق کو سنوارتے ہیں……شک اور وسوسوں کی جگہ ان کے اندر یقین پیدا کرتے ہیں……غیظ وغضب کی جگہ ان کو محبت والفت سے مانوس کرتے ہیں……بڑوں کا احترام سکھاتے ہیں اور چھوٹوں پر شفقت کا ہاتھ رکھتے ہیں……ان سب باتوں کا ایک ہی منشاء ہے……وہ یہ ہے کہ موجودہ نسل اور آئندہ آنیوالی نسل بامروت، باحمیت، باعزت اور نیک خُو ہو……عادل ہو……رحمدل ہو……اور حق تلفی اس کا شعار نہ ہو……
*****
میرے بزرگو! ……میرے بچو! ……اور میرے ہمدم وہمنوا……
میں بھی چاہتا ہوں کہ موجودہ اور آئندہ نسل چوپایوں سے، پرندوں سے، حشرات الارض سے ممتازہو……
تین سو ستانوے منزلیں……میری عمر ہے! ……اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں نے آپ کو تین سو تیس زاویوں سے……تین سو ستانوے طریقوں سے……اور تین سو ستانوے مثالوں سے یہ باور کرایا ہے کہ انسان حیوانات سے اس لئے ممتاز ہے کہ اس کے اندر قدرت نے ایسا Chipڈال دیا ہے جس Chipمیں زمین و آسمان کے سارے عجائبات وڈیو فلم بنے ہوئے ہیں……
زمین کے اوپر انسانی شماریات سے زیادہ درخت……اشجار……جھاڑیاں……بیل بوٹے……جڑی بوٹیاں……اور سمندر کے اندر لاشمار مخلوقات کے حیات و ممات……بچپن وبلوغت……نسل کشی……کی پوری فلم محفوظ ہے……
حیوانات سے ممتاز انسان یہ بات بہت آسانی سے جان لیتا ہے کہ کسی بڑے درخت میں تیس فٹ اونچائی پر اس درخت کو پانی کس طرح سیراب کر رہا ہے……درخت کے اندر کتنی رگیں ہیں……کتنی شریانیں ہیں……ایک فٹ درخت کے تنے میں کتنا پانی ہے؟……کتنی سختی ہے……کتنی نرمی ہے اور کتنی مضبوطی ہے……اسی طرح حیوانات سے ممتاز انسان اس بات کا بھی ادراک حاصل کر لیتا ہے کہ زمین کے ایک رقبے پر چار درخت لگے ہوئے ہیں……ایک درخت امرود کا ہے……دوسرا انار کا ہے……تیسرا آم کا ہے……چوتھا سنگترے کا ہے……زمین کا رقبہ ایک ہے……پانی بھی سب کو یکساں ملتا ہے……دھوپ بھی سب کیلئے برابر ہے……رات کی تاریکی بھی سب کے حصے میں یکساں ہے (روحانی لوگ ’’تاریکی‘‘ کو بھی روشنی کہتے ہیں) ……لیکن ہر درخت پر جب پھل آتا ہے تو اس کا رنگ، روپ، ذائقہ، خوبصورتی، بدصورتی سب الگ الگ ہوتا ہے……
*****
میرے بچو! ……آپ مانیں نہ مانیں……آپ اس بات کو دل سے تسلیم کریں یا نہ کریں……آپ کی عقل اس بات کی وضاحت چاہے نہ چاہے……یہ آپ کو ماننا پڑے گا کہ میں آپ کا استاد ہوں! ……میں نے آپ کو بہت کچھ سکھایا ہے اور آئندہ بھی کچھ سکھانے کا میرے اندر عزم ہے……حوصلہ ہے……ولولہ ہے……اور آپ کیلئے بہترین جذبات واحساسات ہیں……
آیئے……اب کلاس لیتے ہیں! ……
آپ مذکورہ درختوں کے چار پتّے توڑ لیں……ان چار پتّوں کو سفید چکنے کاغذ پر یا سفید کپڑے پر اس طرح رکھیں کہ پتّوں کی ڈنڈیاں اور پتّوں کی نوک برابر ہو……اگر پتّے اٹھے ہوئے ہیں تو اُن کو آل پن لگا کر برابر برابر کر لیں……پہلے ایک پتّے کو مثلاً امرود کے پتّے کو غور سے دیکھیں……اور اس پتّے کے اندر جو رگیں ہیں……ان کو شمار کریں……جب آپ پتّے کو غور سے دیکھیں گے تو سب سے پہلے آپ کی نظر پتّے کی ڈنڈی پر پڑے گی، آپ دیکھیں گے کہ یہ ڈنڈی نیچے سے اوپر نوک کی طرف جا رہی ہے……اور اسی موٹی ڈنڈی یا موٹی رگ سے اور چھوٹی چھوٹی رگیں نکل رہی ہیں……ان رگوں کو شمار کر کے کاغذ پر اس کا نقش اتار لیں یعنی ہو بہو پتّے کا عکس کاغذ پر منتقل کر لیں……اب دوسرے پتّے کو غور سے دیکھیں جو انار کا پتّا ہے……اسی طرح تیسرے پتّے کو دیکھیں جو آم کا پتّا ہے اور چوتھے پتّے پر نظر جمائیں جو سنگترے کا ہے……
اس ساری کارروائی کے بعد آپ کے پاس چار پتّوں کے نقوش ہیں……نقوش سے مراد یہ ہے کہ آپ کے پاس چار پتّوں کی ہسٹری ہے……ہسٹری سے مراد ہے کہ آپ کو اس پتّے میں درخت کی ساری روئیداد لکھی ہوئی نظر آئے گی……جتنا غور کریں گے اتنے ہی یہ پتّے آپ کو Attractکریں گے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پتّے آپ سے گفتگو کرنا شروع کر دیں……
جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے کہ حیوانات سے ممتاز انسان کو ایسی نظر مل جاتی ہے جو نظر زمین کے اندر اتر جاتی ہے اور زمین کے اندر اللہ تعالیٰ کے اس Networkکو دیکھ لیتی ہے جو Networkایک ہی جگہ چار درختوں کو اُگا رہا ہے اور چار مختلف پودوں کے پھولوں کو الگ الگ رنگ میں ظاہر کر رہا ہے…… اور ہر درخت کا پھل ایک دوسرے سے رنگ، ذائقہ اور خوشبو میں الگ ہے……
اس سبق کو پڑھنے کے بعد اور اس عمل کی مشق کرنے کے بعد آپ میرے شاگرد بن گئے ہیں……
ہر استاد اپنے شاگردوں پر مہربان ہوتا ہے……ہر استاد کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو ایسے مقام پر دیکھنا چاہتا ہے جو مقام استاد کو حاصل نہیں ہے……پرائمری کلاس کا استاد یہ چاہتا ہے کہ اس کا شاگرد اسکول کا ہیڈ ماسٹر بنے……کالج کا پرنسپل بنے……یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے مقام تک پہنچے……حکومت میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہو……
دوسرے تمام اساتذہ کی طرح میں بھی یہی چاہتا ہوں! ……
جب میں دیکھتا ہوں کہ میرے شاگرد میری تعلیمات کو پڑھتے ہیں، غور کرتے ہیں، ڈسکشن کرتے اور مجھے خطوط لکھتے ہیں تو میرا دل خوشی سے معمور ہو جاتا ہے……
میرے دل میں یہ تقاضہ ابھرتا ہے کہ میرے شاگرد دینی اور دنیوی اعتبار سے یکتائے روزگار ہوں……ماہر علم وفنون ہوں……اب میں اپنے بزرگوں……اپنے خوردوں……اپنے بیٹوں……اپنی بیٹیوں اور اپنے ہم سفر ساتھیوں سے چند دل کی باتیں کرتا ہوں……آپ کو پتہ ہے کہ دل کی باتوں کا مفہوم یہ ہے کہ دو دوست یا زیادہ دوست ایک دوسرے کے ہمراز بن جائیں……
الحمدللہ! ……مجھے اللہ تعالیٰ نے بہت علم دیا ہے……اللہ تعالیٰ نے مجھے انبیاء ؑ کی وراثت کو عام کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے……اللہ تعالیٰ نے مجھے اولیاء اللہ کا نقیب بنایا ہے……اور مجھے اس بات کا علم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ……
’’ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر علم سیکھنا فرض ہے‘‘……
(مشکوٰۃ شریف، جلد اول۔ حدیث نمبر 212)
*****
ہاں تو میں بات کر رہا تھا راز ونیاز کی……بات ذرا مشکل ہے! …… لیکن اتنی مشکل بھی نہیں ہے کہ سمجھ میں نہ آئے……البتہ غور وفکر کرنے کی ضرورت پیش آئے گی……
ہمیں بہت سارے علم حاصل ہیں……مثلاً ہم جانتے ہیں کہ کان سنتے ہیں……ہم جانتے ہیں کہ آنکھ دیکھتی ہے……ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ دماغ سوچتا ہے……اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ہاتھ ہلتے ہیں، پیر چلتے ہیں……
آپ کو معلوم ہے؟ ……کہ جب آنکھ دیکھتی ہے تو باہر نظر آنے والی چیزوں کا عکس اندر پڑتا ہے……جہاں عکس پڑتا ہے وہاں گھپ اندھیرا ہے……اتنی تاریکی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا……لیکن جب انسان دیکھتا ہے تو وہ چیز اسے روشن نظر آتی ہے……
کان سنتے ہیں……لیکن آدمی اگر دماغی طور پر ماؤف ہو تو وہ کچھ نہیں سنتا یا کسی ایک نقطے پر اس کا ذہن مرکوز ہو جائے تو بھی آس پاس کی آوازیں اسے سنائی نہیں دیتیں……اب یہ بڑی عجیب بات ہے کہ کان موجود ہے……آواز کانوں کے اندر اتر رہی ہے لیکن کان سن نہیں رہے……
ہاتھ ہل رہے ہیں، پیر چل رہے ہیں……لیکن اگر خدانخواستہ فالج ہو جائے…… (اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے) ……ہاتھ موجود ہے……ٹانگ بھی ٹھیک ہے……لیکن نہ ہاتھ میں حرکت ہے، نہ ٹانگوں میں حرکت ہے……یہ بات کیا ہوئی؟ ……جب ہاتھ موجود ہے تو حرکت کیوں نہیں؟ ……جب ٹانگیں موجود ہیں تو چلت پھرت کیوں مفقود ہو گئی؟ ……
اس کا سیدھا سا جواب یہ ہو گا کہ ہاتھ اور پیر کے ساتھ دماغ کا جو ربط تھا وہ ٹوٹ گیا! ……
ایک آدمی بیدار ہے……ہوش وحواس درست ہیں……جذبات واحساسات کی دنیا میں وہ سارے کام کر رہا ہے…………لیکن وہ سو جاتا ہے……سونے کی حالت میں نہ وہ چلتا ہے، نہ پھرتا ہے……نہ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے……نہ وہ خوش ہوتا ہے، نہ وہ غمگین ہوتا ہے……بڑی حیرت کی بات ہے کہ جسمانی طور پر تو وہ چل پھر نہیں رہا……کھاتا پیتا بھی نہیں ہے……لیکن! ……اس کے اندر کا ایک اور انسان اس کے مادی جسم سے باہر نکلتا ہے……یہ جسم کھاتا بھی ہے……پیتا بھی ہے……خوفزدہ بھی ہوتا ہے……اور خلا میں اڑتا بھی ہے……
یہ کونسا انسان ہے؟ ……
اب دیکھئے نا……جب آدمی سوتا ہے تو اس کے جسم میں زندگی ہے……دل پمپ کر رہا ہے……خون دوڑ رہا ہے……حرارت جسم کو توانائی دے رہی ہے……
لیکن انسان بے حرکت ہے! ……
یہ وہ سوالات ہیں جو آپ کے اسکول ماسٹر نے آپ کے اندر موجود Black Boardپر لکھے ہیں……آپ ان کا جواب تلاش کریں……اور آپ کو جو معلومات حاصل ہوں، وہ مجھے لکھیں……
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسا ہمدم، رفیق اور استاد ہے کہ اس نے بتایا ہی نہیں کہ میں کون ہوں! ……چلئے……میں اپنا تعارف کرائے دیتا ہوں……میرا نام روحانی ڈائجسٹ ہے……جو آپ کی خدمت میں مصروف اور ہمہ وقت مستعد ہے……اور آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ میں تین سو ستانوے (397) مہینے سے آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہوں……
آپ کا ہمدرد……دوست……اور آپ کا مشفق استاد……
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ
*****
ایک استاد تھا اور ایک شاگرد……

شاگرد کی آنکھ میں نقص تھا……کبھی آنکھ ٹھیک دیکھتی تھی اور کبھی اسے دو نظر آتے تھے……
استاد نے شاگرد سے کہا……میرے گھر جاؤ، وہاں کمرے میں ایک طاق ہے……طاق میں ایک آئینہ رکھا ہوا ہے……اسے میرے پاس لے آؤ……
شاگرد استاد کے گھر پہنچا……اس نے دیکھا کہ طاق میں دو آئینے رکھے ہوئے ہیں……وہ اس مخمصے میں پڑ گیا کہ کون سا آئینہ اٹھاؤں؟ ……جب وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکا تو استاد کی خدمت میں حاضر ہوا……اور کہا……سر! طاق میں دو آئینے رکھے ہوئے ہیں……میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کون سا آئینہ لے کر آؤں؟ ……
استاد نے حیرت زدہ ہو کر کہا……ارے بھئی! ……نہیں……وہاں ایک ہی آئینہ رکھا ہوا ہے……
شاگرد نے قسم کھا کر کہا……نہیں سر! وہاں دو آئینے ہیں……
استاد نے اس کو ڈانٹا، سرزنش کی……بُری بات ہے! اچھے اور شریف لوگ قسمیں نہیں کھاتے……
شاگرد بولا……سر! میں توبہ کرتا ہوں……آئندہ قسم نہیں کھاؤں گا……لیکن! طاق میں دو ہی آئینے رکھے ہوئے ہیں……
استاد نے شاگرد سے کہا……چلو ٹھیک ہے……دو ہی ہوں گے……اب تم ایسا کرو کہ گھر جا کر طاق میں رکھے ہوئے ایک آئینے کو توڑ دو……اور دوسرا آئینہ لے آؤ……
شاگرد استاد کے گھر پہنچا اور طاق میں سے آئینہ اٹھا کر فرش پر دے مارا……آئینہ چکنا چور ہو گیا……اب جو اس نے اپنے خیال میں دوسرا آئینہ اٹھانے کے لئے طاق میں دیکھا تو وہاں آئینہ نہیں تھا……
اس کہانی میں یہ اشارہ ہے کہ آدمی کا اگر زاویۂ نظر صحیح نہ ہو تو اس کے اندر اچھائی اور برائی تمیز کرنے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے……اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دیکھنے، جانچنے، پرکھنے اور استعمال کرنے کی دو دو صلاحیتیں عطا کی ہیں……
زاویۂ نظر میں اگر پیغمبرانہ طرزِ فکر ہے تو آدمی صراطِ مستقیم پر قائم رہتا ہے اور اگر اس کے اندر شیطانی طرز فکر ہے تو وہ وسوسوں میں گھرا رہتا ہے……
انسان جس قدر شک اور وسوسوں میں گرفتار رہتا ہے……اتنا ہی صراط مستقیم سے دور ہوتا رہت

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 11 تا 18

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)