مریم بی اماں
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14718
مریم بی اماں کی پیدائش ہندوستان کے قصبہ کاجلیشور تعلقہ مرتضیٰ پورضلع اکولہ میں ہوئی۔ ان کے تین بھائی اورایک بہن تھی۔ والد کا نام عزیز الدین اوروالدہ نام عائشہ بی بی تھا۔ مریم بی نے قدرے قرآن کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اور بس۔ لیکن ذوقِ عبادت و ریاضت خوب پایاتھا۔ ان کا اکثر وقت غور وفکر اورخلوت نشینی میں گزرتا تھا۔ شادی کے بعد گھریلو مصروفیات اورذمہ داریوں کے باوجود ان معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
مریم بی کا خاندان ایک فقیر دوست خاندان تھا۔ درویشوں اور فقیروں کی خدمت میں حاضری دینا، ان کی خدمت کرنا، اس خاندان کے لوگوں کا شیوہ تھا۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب مریم بی کے بھائی غلام محی الدین صاحب کامٹی میں ملازمت کر رہے تھے اور مریم بی بھی ان دنوں کامٹی میں ان کے ساتھ رہتی تھیں ۔ جناب غلام محی الدین صاحب کو پتہ چلا کہ کامٹی میں ایک صاحبِ کمال اورروشن ضمیر بزرگ وارد ہوئے ہیں۔ ان بزرگ میں درویشی اورفقیری کے اوصاف دیکھ کر ایک دن غلام محی الدین صاحب نے بزرگ سے درخواست کی ۔’’حضرت! کیا ہی اچھا ہو اگر آپ ہمارے گھر میں چند دنوں مہمان رہ کر غریب خانہ کو رونق بخشیں اور ہمیں اپنی خدمت کا موقع فراہم کریں۔ ہم اسے اپنی خوش بختی تصور کریں گے۔‘‘
بزرگ نے درخواست قبول کرلی۔ ایک دن جب گھرکے سب لوگ بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے مریم بی کی والدہ یعنی عائشہ بی بی سے مخاطب ہوکر کہا۔’’ بی بی ! اللہ تعالیٰ نے تمہیں دولعل عطا کئے ہیں۔ اوریہ ان میں سے ایک ہے۔‘‘ بزرگ کا اشارہ مریم بی کی طرف تھا۔
ان بزرگ نے مریم بی کو مخاطب کیا۔ ’’بیٹی ! آفتابِ ولایت ناگپور کے افق سے ضیاپاشی کر رہا ہے۔ جاؤ اوراپنے جسم اور روح کو اس سے منور کر لو۔ ناگپور کا پاگل خانہ اس وقت شہنشاہ ہفت اقلیم باباتاج الدین کا پایہ تخت ہے ۔ ان کی خدمت میں جاؤ! مشیت نے تمہاری قسمت میں حضور باباصاحب کا فیض لکھاہے۔‘‘
مریم بی فوراً ناگپور کے پاگل خانے میں حاضر ہوئیں جہاں ان دنوں باباتاج الدینؒ رہتے تھے۔ مریم بی جیسے ہی وہاں پہنچیں ۔ باباصاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے قریب آکر کہا۔’’ ہم تو ایک عرصہ سے تیرا انتظار کر رہے تھے۔‘‘
یہ کہہ کر باباصاحب نے مریم بی کے دونوں ہاتھوں کی چوڑیاں توڑڈالیں اور کہا۔’’ روزانہ آیا کر!‘‘
محترمہ مریم بی نے حضرت باباصاحب کی ہدایت پر اس طرح عمل کیا کہ روزانہ پاگل خانے آتیں اور پھاٹک کے باہر ایک مخصوصی جگہ پر کھڑے ہوکر بابا صاحب کی طرف متوجہ رہتیں۔ رفتہ رفتہ اس شغل میں اتنی محویت اور استغراق پیداہوا کہ کھانے پینے اور کپڑوں کا ہوش تک جانے لگا۔
ایک سال گزر گیا۔ اسی دوران باباتاج الدینؒ پاگل خانے سے شکردرہ اور پھر واکی تشریف لے گئے۔ مریم بی بھی واکی تشریف لے گئیں اور قصبہ پاٹن ساؤنگی میں قیام کیا۔ یہاں بھی وہ ہر روزحضور باباصاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوتیں جو ان پر نہایت شفقت و محبت کی نظر رکھتے تھے۔ یہ زمانہ بھی تقریباً ایک سال پر محیط ہے۔
ایک روز باباتاج الدینؒ مریم بی کو لے کر کنہاں ندی کے اطراف میں پہنچے اور ایک ویران اوربے آباد جگہ جو جنگلی جانوروں کی گزرگاہ تھی۔ وہاں پہنچ کر رک گئے اور مریم بی کو حکم دیا۔’’ یہاں بیٹھ جاؤ اور بلا اجازت نہ اٹھنا۔‘‘
یہ سننا تھا کہ دل میں کسی قسم کی جھجک ، خوف یاڈرلائے بغیر مریم صاحبہ وہاں بیٹھ گئیں اور سامان خوردونوش تک کے متعلق نہ سوچا۔ مریم صاحبہ کو وہاں چھوڑکر باباتاج الدینؒ واپس چلے آئے۔
اس واقعہ کو ایک ہفتہ گزرگیا۔ باباصاحبؒ کے خدام اورعقیدت مند اس دوران سخت حیران و پریشان رہے کیوں کہ باباصاحبؒ نے ایک ہفتہ مطلق نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ ایک ہفتے بعد بابا صاحبؒ باہر تشریف لائے اور بلند آواز سے پکارنا شروع کیا۔ ’’ لچھمن واکو ڑیا! لچھمن واکوڑیا!‘‘
مجمع میں سے ایک شخص فوراً ہاتھ باندھے سامنے آکھڑا ہوا۔ حضور باباصاحبؒ نے اس سے فرمایا۔’’ اماں مریم صاحبہ تیرے کھیت کی طرف کے جنگل میں موجود ہیں۔ توجا اور انہیں کھانا کھلا اور خدمت کیاکر۔‘‘
واکوڑیا نے فوراً کھانا تیار کروایا اورساتھ لے کر اماں مریم صاحبہ کی تلاش میں نکلا۔کافی دیر تلاش کے بعد اس نے جھاڑیوں کے جھنڈ میں اماں صاحبہ کو چادر اوڑھے لیٹے پایا۔ اس نے کئی آوازیں دیں لیکن اماں مریم صاحبہ کے جسم میں کوئی جنبش نہیں ہوئی اور وہ بدستور آنکھیں بندکئے چادر اوڑھے لیٹی رہیں۔
آخر میں واکو ڑیا نے کہا۔’’ میں بابا صاحب کے حکم پر آپ کے لئے کھانا لایا ہوں۔‘‘
مریم اماں صاحبہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھیں، نہایت تعظیم سے کھانا لیااور بڑی مشکل سے تھوڑا سا کھایا۔ لوگ کہتے ہیں کہ جس وقت واکوڑیا کھانا لے کر اماں صاحبہ کی تلاش میں گیا ہے، اس کے کافی دیر بعد باباصاحب نے کھانا منگوایا اورایک ہفتے کے بعد پہلا لقمہ منہ میں ڈالا۔
مریم اماں صاحبہ فرماتی تھیں کہ میری برسوں کی ریاضت کو حضور نے ازراہِ عنایت وشفقت دنوں میں طے کرایا کیوں کہ میں عورت ذات اوردبلی پتلی تھی۔ اس لئے حضور نے میرے حال پر خاص رحمت کی نظر رکھی۔ اورجلد ہی مجھ پر بابِ ولایت کھول دیا اور اپنی قربت میں رہنے کے لئے ارشاد فرمایا۔
مریم اماں صاحبہ کے لئے ایک جگہ مقرر کر دی گئی اور واکی شریف میں ایک چراغ سے دوسراچراغ روشن ہوگیا۔ تاج الاولیاء باباتاج الدینؒ کے فیض کی تقسیم اب مریم اماں صاحبہ کے ذریعے بھی ہونے لگی۔ باباصاحبؒ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو اماں صاحبہ کے پاس جانے کا حکم دیتے اور لوگ ان کے دربار سے بامراد لوٹتے۔ حاضرین نے یہ بات محسوس کی کہ جو بات حضرت باباتاج الدینؒ اپنی نشست گاہ پر فرماتے، اس بات کا اظہار اماں صاحبہ اپنی قیام گاہ پر کردیتی تھیں۔
باباتاج الدینؒ مریم اماں صاحبہ پر جو نظر عنایت رکھتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ بابا صاحب نے تنبیہ کر دی تھی کہ ان کے پاس حاضری دینے سے پہلے اماں صاحبہ کی خدمت میں حاضری دی جائے۔ لوگوں نے اکثر دیکھا کہ درویش اورفقراء جو دربارِتاج الاولیاء میں باباصاحب کے دیدار کے لئے حاضر ہوئے ان سے باباصاحبؒ اس وقت تک نہ ملے جب تک کہ انہوں نے مریم اماں صاحبہ کے ہاں حاضری نہ دی۔ لوگوں نے یہ بات بھی مشاہدہ کی کہ باباصاحبؒ مریم اماں صاحبہ کی کسی بات کو رد نہیں فرماتے تھے۔ باباصاحبؒ اماں صاحبہ کو احتراماً اپنی والدہ کے نام پر مریم بی کہہ کر پکارتے تھے اور فرمایا کہ وہ تو میری ماں ہے۔ زمانۂ ریاضت میں بابا صاحبؒ نے اماں صاحبہ کا نام بھائی عبدالرحیم رکھا تھا اور بعدمیں گاہے بہ گاہے اسی نام سے آواز دیتے تھے۔
جب باباتاج الدینؒ واکی سے شکردرہ منتقل ہوئے تومریم اماں صاحبہ بھی شکردرہ تشریف لے گئیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس زمانے میں آپ کو جسمِ خاکی ایک بوجھ معلوم ہونے لگا۔ ابھی شکردرہ میں آئے ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ آپ نے پیرہنِ خاکی اتارپھینکا اور اس مادّی دنیا سے پردہ فرمالیا۔ یہ مورخہ ۲۷؍شوال ۱۳۳۷ھ کا دن تھا۔ باباتاج الدینؒ کے حکم پر آپ کا جنازہ شکردرہ سے کامٹی لایا گیا اور گاڑھا گھاٹ پر آپ کو سپردِخاک کر دیا گیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 155 تا 160
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔