قناعت اور اضطراب
مکمل کتاب : وقت؟
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19771
دنیا کے نقشے کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دنیا گول ہے!……
لاشعوری بیلٹ پر چلنے والے لوگ کہتے ہیں کہ دنیا پپیتے کی شکل کی ہے!……
ہمیں معلوم ہے کہ دنیا محوری اور طولانی گردش میں چل رہی ہے!……
ہر زمانے میں زمین پر دو قسم کے انسان موجود رہے، ایک قسم کے لوگ دنیا میں جی لگانے کو مقصد حیات سمجھتے ہیں…… دوسری قسم کے لوگ دنیا کی ہر چیز سے استفادہ کرتے ہیں لیکن دنیا میں دل نہیں لگاتے…… وہ کہتے ہیں…… چونکہ دنیا کی ہر چیز فانی ہے تو فانی چیز میں دل لگانا خلاف عقل و شعور ہے……
زمین پر بسنے والے سارے انسان پر سکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں…… سکون کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ انسان خوش رہے…… شک اور وسوسوں سے آزاد رہ کر زندگی گزارے…… سکون آشنا زندگی گزارنے کی خواہش ہرگروہ کے ہر فرد کو ہے!……
جو فرد بھی خوش نہیں ہے، وہ خوشی کی تلاش میں سرگرداں ہے…..
ہر آدمی کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اس کا کوئی دوست ہو…… دوست ایک بھی ہوتا ہے اور کئی دوست بھی ہو سکتے ہیں……
بڑے لوگ کہتے ہیں آدمی Social Animalہے!……
یعنی آدمی جانور تو ہے لیکن Socialہے!…… Socialکا مطلب یہ ہے کہ آدمی آدمیوں کے ساتھ میل جول رکھے…… اپنے جذبات و احساسات میں دوسروں کے جذبات و احساسات شامل کرے…… خوشی غمی میں شریک ہو……
دوستی کی پرکھ یہ ہے کہ دوست دوست کے کام آئے اور دوست کے اچھے برے معاملات کو دوست کے ساتھ مل کر سلجھائے……
ہم اس مجلس میں دو کرداروں کا تذکرہ کر رہے ہیں……
ایک کا نام قناعت!…… اور دوسرے کا نام اضطراب ہے……
دونوں ایک دن، ایک ساعت، چند سیکنڈ کے وقفہ سے پیدا ہوئے…… دونوں نے ماں کا دودھ پیا…… دونوں ماں کی گود میں ہنستے کھیلتے، کلکاریاں بھرتے رہے…… دونوں گھروں میں عزیز رشتہ دار موجود تھے۔
گھر میں صحن، برآمدہ، کمرے، کچن تھے…… دونوں بچوں نے وہی کھانا کھایا جو سب لوگ کھاتے ہیں…… وہی پانی پیا جو سب پیتے ہیں…… اس کے باوجود دونوں کے مزاج اور طبیعت میں فرق تھا……
ایک گھر میں آسائش و آرام کی ہر چیز مہیا تھی…… اور دوسرے گھر میں ضروریات زندگی پوری کرنے کیلئے چیزیں کم تھیں۔
ایک گھر بڑا تھا…… دوسرا اس سے قدرے چھوٹا تھا…… چھوٹے گھر میں صفائی زیادہ تھی…… گھاس کے لان، درخت، پھول اور پودے تھے……
چونکہ دونوں کردار ایک محلے میں رہتے تھے اس لئے دونوں نے ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کی…… دونوں پڑھ لکھ کر فارغ ہوئے اور معاش کے کاموں میں مصروف ہو گئے…… جیسے کہ زمانے میں ہوتا ہے ایک کی آمدنی بہت تھی اور دوسرے کی آمدنی کم!……
دونوں کی شادی ہو گئی…… اور دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اولاد سے بھی نوازا…… ایک کا مزاج خالصتاً دنیا میں تھا اور دوسرے کے مزاج میں قناعت تھی…… یہ دونوں کردار ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہے…… دونوں نے اپنے نقطۂ نظر سے دنیا کو دیکھا اور اس سے استفادہ کیا……
جس کردار کا نام اضطراب ہے…… اس نے اپنی زندگی گزارنے کیلئے اپنے ارد گرد ایک محل تیار کیا…… اس محل میں تصوراتی طور پر منقش اور مزین دیواروں سے کمرے بنائے…… ہر چیز اعلیٰ درجے کی پسند کی…… اور اپنے لئے ایک Statusکا تعین کیا…… شب و روز محنت سے اس نے یہ چیزیں حاصل کر لیں لیکن ان تمام چیزوں کے حصول کے بعد اس کے اضطراب میں اضافہ ہو گیا…… سب سے پہلے اسے یہ غم لگا کہ اگر میرے پاس دولت نہیں رہے گی تو معاشرے میں میری عزت ختم ہو جائے گی…… اور یہ خوف لاحق ہوا کہ لوگ مجھے Kidnapکر لیں گے اور تاوان کا مطالبہ کریں گے……
دنیا میں نمایاں مقام حاصل کرنے کیلئے اس نے زیادہ سے زیادہ معیار زندگی بڑھانے کو اہمیت دی…… بینکوں سے قرض لیا…… دوستوں کے ساتھ ہیر پھیر کیا…… اور کروڑوں روپے کے مایا جال میں گرفتار ہو گیا…… جب کوئی بندہ گرفتار ہو جاتا ہے تو وہ دراصل جذباتی، شعوری اور محسوساتی طور پر محدود ہو جاتا ہے…… اور یہ محدودیت اسے اپنوں سے بھی بیگانہ کر دیتی ہے۔
اضطراب بھائی کے ذہن میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈالا…… کہ بیوی میرے کروڑوں کی جائیداد پر قبضہ کر لے گی اور مجھے زہر دے کر مار دے گی……
اس وسوسے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیوی کے ہاتھ کی پکائی ہوئی ہر شئے میں اسے اپنی موت نظر آنے لگی…… موت کے خوف سے نیند اُڑ گئی، نیند کی کمی سے Stomachخراب ہو گیا…… Stomachخراب ہونے سے بلڈپریشر ہو گیا…… اور مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی……
دوسری افتاد یہ پڑی کہ بیٹے نے جب دیکھا کہ باپ ماں پر شک کرتا ہے اور ماں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے تو بیٹے کے دل میں باپ کی طرف سے نفرت پیدا ہو گئی……
بیٹا چونکہ اضطرابی ذہن کی پیداوار تھا اس لئے اس نے باپ کو ایسی حالت سے دوچار کر دیا کہ باپ کیلئے دن کا چین اور رات کا آرام مفقود ہو گیا……
اضطراب بھائی سے جب میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا…… میں بہت پریشان ہوں!…… بیٹے نے میرا ایک کروڑ روپیہ غبن کر لیا ہے۔
میں نے بہت ہی پیار سے انہیں سمجھایا کہ آپ کے بعد سب کچھ آپ کے بیٹے کا ہی تو ہے…… اگر اس نے ایک کروڑ روپیہ لے لیا ہے…… اس نے کوئی بُری بات نہیں کی!……
اضطراب بھائی تقریباً روتے اور سسکتے ہوئے بولے…… اب وہ مجھ سے میرے پورے سرمایہ کا مطالبہ کرتا ہے…… کہتا ہے…… ابا! ایک دفعہ تو چارپائی پر بیمار ہو کر لیٹ جا…… میں تجھے مولانا ایدھی کے ہاں چھوڑ آؤں گا……
یہ کہہ کر اضطراب بھائی نے میرے سامنے ہاتھ بڑھایا اور کہا…… کہ دیکھو مجھے کتنا بخار ہے!……
میں نے جب نبض پر انگلیاں رکھیں تو میرے اندازے کے مطابق ان کو ایک سو تین یا ایک سو چار بخار تھا…… انہوں نے کہا…… کہ میں ڈرائیور کے ساتھ صبح سے سڑکوں پر پھر رہا ہوں…… گھر جا کر چارپائی پر اس لئے نہیں لیٹتا کہ میرا بیٹا مجھے ضرور مولانا ایدھی کے یہاں چھوڑ آئے گا……
دوسرے کردار قناعت بھائی کا حال احوال یہ ہے کہ انہوں نے اخلاقی تقاضے پورے کر کے محنت مزدوری کی، گھر بنایا پھر شادی کی اور اولاد کے فرائض سے سبکدوش ہو گئے……
چونکہ ان کے ذہن میں دنیا ایک مسافر خانے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی، اس لئے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کر کے مقصد حیات تلاش کیا……
مقصد حیات میں اس بات کی نشاندہی ہوئی کہ سکون انسان کی زندگی کا حاصل ہے…… اور سکون حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ دنیا کو فانی سجھا جائے…… جیسا کہ دنیا کی ہر شئے فانی ہے……
قناعت بھائی کو تلاش ہوئی کہ ایسا بندہ مل جائے جو سکون سے واقف ہو…… اور خود بھی پُرسکون ہو…… اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کے لئے جدوجہد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اوپر ہدایت کے راستے کھول دیتے ہیں۔
مسلسل تلاش، جدوجہد اور کوشش سے قناعت بھائی ایک ایسا استاد تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے جو سکون کو جانتا تھا کہ فی الواقع سکون اور خوشی کیا ہے!……
سکون آشنا استاد نے پہلا درس یہ دیا کہ اپنی زندگی میں وہ لمحات تلاش کرو جن لمحات میں تم پر سکون رہ چکے ہو…… اس زمانے کا کھوج لگاؤ جس میں تمہارے اوپر کوئی خوف نہیں تھا…… اس دور کو ڈھونڈو جس دور میں تم اس بات سے واقف ہی نہیں تھے کہ غم کیا ہے!……
اور یہ دور تمہاری پیدائش کے دن سے بارہ سال کی عمر تک کا دور ہے!……
سکون آشنا استاد نے اپنے طالب علم کی دستگیری کی…… کہ جب تم پہلے دن کے بچے تھے تو تمہاری حیثیت دنیا کی پوری آبادی سے منفرد تھی…… تم واحد شخصیت تھے جسے نہ خوف تھا اور نہ غم!……
بقول ماہرین شماریات اس وقت دنیا کی آبادی چھ ارب انسانوں سے زیادہ ہے…… ان چھ ارب انسانوں میں بارہ سال کی عمر کے بچوں کے بعد تقریباً ہر انسان بے چین، مضطرب اور پریشان ہے……
اس کا مطلب یہ ہوا کہ بارہ سال کی عمر کے بعد ہر انسان اربوں انسانوں کی یلغار میں ہے…… یعنی اربوں انسانوں کی بے سکونی اور پریشانی ہر آدمی کا ورثہ بن گیا ہے…… ہر انسان شکوک و شبہات، بے یقنی کے گرداب میں ہے……
قناعت بھائی سکون آشنا استاد کے سچے پکے اسٹوڈنٹ تھے…… انہوں نے استاد کی رہنمائی میں مستقبل کے اندیشوں کو نظر انداز کر کے ماضی کے خوشنما ماحول میں سفر کرنا شروع کر دیا……
انہوں نے معاشرے کی ان تمام باتوں سے بغاوت کر دی جو انسان کے بے سکون کرتی ہیں…… جو انسان کو مہلک امراض میں مبتلا کر دیتی ہیں…… جو انسان کو اپنی ذات سے نا آشنا کر دیتی ہیں…… جو انسان کو جھوٹی انا کے خول میں بند کر دیتی ہیں……
ایک دن!…… اچھا دن تھا…… موسم خوشگوار تھا…… ہوا خنک تھی…… آسمان پر بادل تیر رہے تھے…… لگتا تھا کہ ابھی بارش برس جائے گی……
دونوں کردار جمع ہوئے…… دونوں نے اپنی روداد سنائی…… اضطراب بھائی نے مضطرب زندگی کے واقعات سنائے جس میں بے یقینی، شک، خوف اور غم کے علاوہ کچھ نہیں تھا…… قناعت بھائی نے اپنی روداد سنائی…… جس میں ایمان تھا…… ایقان تھا…… خوشی تھی…… اور فطرت سے والہانہ اتصال تھا!……
جس جگہ ان دونوں کی ملاقات ہوئی وہ ایک پر فضا جگہ تھی…… گھاس کے مخملیں قالین تھے…… خوشنما روشیں تھیں…… گلاب کے تختے تھے…… قطار در قطار پھول صف بستہ تھے…… عجیب سماں تھا…… جہاں سکون کی لہریں انسان کے اندر اتر رہی تھیں…… رنگ رنگ پھولوں پر تتلیاں اُڑ رہی تھیں…… ہوا درخت کے پتوں میں ساز بجا رہی تھی……
اضطراب نے بڑی بے چینی سے پہلو بدلا اور قناعت کے دامن میں چھپ کر سکون کا سانس لیا……
قناعت نے بتایا…… یہ میرا گھر ہے…… یہاں اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھی جاتی ہے…… اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے…… دن کو روشنی اور رات کو نور برستا ہے……
قناعت بھائی کا ان مناظر سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب ان سے پوچھا گیا…… یہاں کتنے پھول ہیں؟…… تو انہوں نے بتایا کہ تینتالیس ہزار چار سو پچاس (43,450)پھول ہیں……
گلاب کے تختے میں پانچ رنگ کے پھول ہیں…… پانچ رنگ پھول سدا بہار کے ہیں…… زہرہ کے پھول تین رنگ کے ہیں…… چائنا روز کے دو رنگ کے پھول ہیں…… بوگن بیل پانچ رنگ کے پھولوں پر مشتمل ہے…… پوٹینا فلٹر کے پھولوں کے رنگ چھ ہیں…… ڈیلیا پھول جو آپ کو سر اٹھائے اللہ کی حمد بیان کرتے نظر آتے ہیں ان کے رنگ چوبیس ہیں…… گلاب کے بعد سب سے اعلیٰ پھول گل داؤدی مانا جاتا ہے، اس جگہ گل داؤدی کے گیارہ رنگ کے پھول ہیں…… کوسموس، گیندے، جعفری گیندے کے پھولوں کے رنگ الگ الگ بہت سارے ہیں……
یہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت ہے!…… کہ پھول، لوگوں کیلئے اپنے رنگ اور خوشبو بکھیر رہے ہیں تا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت کے حسن کا نظارہ کریں…… اضطراب اور بے چینی کے جذبات کو پھولوں کی ان خوشبوؤں سے دھو ڈالیں…… اللہ وحدہٗ لاشریک ہے جس نے انسانوں کو خوش رکھنے کیلئے بے شمار چیزیں تخلیق کی ہیں…… تخلیقی عجائبات دیکھنے اور سمجھنے کیلئے ہمارے سامنے فطرت ہے…… جب کوئی انسان فطرت سے ہم آغوش ہو جاتا ہے…… تو اس کے اندر ایک تبدیلی آتی ہے…… اور وہ تبدیلی یہ ہے کہ فانی اشیاء سے اس کا ذہن ہٹ کر باقی رہنے والی ہستی کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے……
اضطراب اور قناعت دو کردار آپ نے پڑھے…… بہت کچھ آپ نے سمجھا…… بہت کچھ سوچا…… فنا اور بقا کا فلسفہ ذہن نشین ہوا…… اللہ تعالیٰ ہمیں اضطراب اور پریشانی سے محفوظ رکھے…… اور قناعت کی دولت سے ہمیں مالا مال کرے…… (آمین)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 181 تا 186
وقت؟ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔