شیرو
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14652
جس زمانے میں بابا تاج الدین واکی میں تھے، شیرو نام کا ایک کتّا باباصاحبؒ کے پاس رہتاتھا۔ شیرو کا یہ کام تھا کہ جب ریل کے آنے کا وقت ہوتا خود ہی اسٹیشن پرپہنچ جاتا اور جو لوگ بابا صاحب کے پاس آتے ان کی رہنمائی کرکے اسٹیشن سے واکی میں بابا صاحب کی قیام گاہ تک لاتا۔ طریقۂ کار یہ ہوتا تھا کہ ریل آجانے کے کچھ دیر بعد شیرو واکی کی طرف چل پڑتا اورلوگ اس کے پیچھے پیچھے ہولیتے۔ لوگوں کو شیرو کے معمول کا علم تھا اور جو نئے آنے والے ہوتے انہیں بتا دیا جاتا تھا۔ اگر باباصاحبؒ اپنی قیام گاہ کے بجائے کہیں اور ہوتے تو شیرو لوگوں کو وہیں لے کر جاتاتھا۔ ایک واقفِ حال صاحب واکی آئے لیکن شیرو کو اسٹیشن پر موجود نہ پاکر وہ سوچنے لگے کہ نہ جانے آج شیرو کیوں نہیں آیا۔ غرض تمام آنے والے خود ہی واکی کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں شیروکے کام اوراس کی مستعدی کی تعریف کر تے رہے۔ جب سب لوگ باباصاحبؒ کی قیام گاہ پہنچے تو بابا صاحبؒ وہاں موجود نہ تھے۔ لوگ جنگل کی طرف روانہ ہوگئے کہ ان کو تلاش کریں۔ یہ صاحبؒ کسی دوسرے راستے سے جنگل کو چلے راستے میں دیکھا کہ شیرو مرا پڑا ہے۔ بہت افسوس ہوا۔ ابھی کچھ دور آگے گئے تھے کہ باباتاج الدینؒ اسی طرف آتے دکھائی دیئے۔ بعد قدم بوسی ان صاحب نے عرض کیا۔ ’’حضور!آپ کا شیرو جو لوگوں کو آسانی سے آپ تک لاتاتھا، مرگیا۔‘‘ یہ سن کر باباصاحبؒ نے فرمایا۔’’نہیں رے! چل دیکھیں کہاں ہے۔‘‘
وہ صاحب باباصاحب ؒ کو لیکر وہاں پہنچے جہاں شیرو پڑا تھا۔ باباصاحب نے کہا اسے ٹوکری میں ڈال کر ہمارے ساتھ لے چلو۔
جب شیرو کو ٹوکری میں ڈالا گیا تو باباصاحبؒ نے اس پر اپنا جبہ ڈال دیا۔ یہ صاحب ٹوکری لے کر کچھ ہی دور باباصاحب کے ساتھ گئے تھے کہ ٹوکری میں حرکت ہوئی اور شیرو ٹوکری سے نیچے کودا۔ کچھ عرصے بعد شیرو پھر مرگیا۔ باباصاحب نے اپنا جبہ دے کر حکم دیا کہ اسے شفا خانے کے پاس دفن کر دو۔
مردے کو زندہ کر دینا بظاہر بڑی عجیب بات دکھائی دیتی ہے لیکن یہ قانونِ الٰہی کے عین مطابق ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
’’االلہ تعالیٰ نے آدم ؑکو اپنی صفات کوجو علم (علم الاسماء) سکھایا تھا اس میں ایک اسم رحیم بھی ہے۔ رحیم کی صفت ہے تخلیق، یعنی پیداکرنا۔ چنانچہ پیدائش کی جس قدر طرزیں موجودات میں استعمال ہوئی ہیں، ان سب کا محرک اور خالق رحیم ہے۔ اگر کوئی شخص رحیم کی جزوی صفت کا فائدہ اٹھانا چاہے تو اس کو اس میں رحیم کی صفت کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ ا پنے باطن میں کرنا ہوگا۔ نیابت اورخلافتِ الٰہیہ کے تحت انسان کی روح کو اسمِ رحیم کے تصرفات کی صلاحیتیں پوری طرح حاصل ہیں اور اس کو االلہ تعالی کی طرف سے اس صفت کے استعمال کا حق بھی حاصل ہے۔ االلہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کی مثال دے کر اس صفت کی وضاحت کردی ہے۔ ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے ۔
ترجمہ: اور جو تو بناتا مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے، پھر دم مارتا اس میں تو ہو جاتاجانور میرے حکم سے اور چنگاکرتا ماں کے پیٹ کا اندھا اورکوڑھی کو میرے حکم سے اورجب نکال کھڑے کرتامُردے میرے حکم سے۔
اگر کوئی انسان اس صفت کی صلاحیت کو استعمال کرنا چاہے تو اسے مراقبہ کے ذریعہ اپنے اندر اس فکر کو مستحکم کرنا پڑے گا کہ میری ذات اسمِ رحیم کی صفات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودات کی جس قدر شکلیں اور صورتیں ہیں وہ سب اسمِ رحیم کی صفات کا نوری مجموعہ ہیں۔ یہ مجموعہ انسان کی روح کو حاصل ہے۔ جب کوئی شخص فکر کی پوری مشق حاصل کرنے کے بعد اسمِ رحیم کی صفت کو خود سے الگ شکل و صورت دینے کا ارادہ کرے گا یا کسی مردہ کو زندہ کرنا چاہے گا تو نیابتِ الٰہی کے تحت اس کا اختیار حرکت میں آئے گا۔ اور صفت کا مظہر اس ذی روح کی شکل و صورت اختیار کرے گا جس کو وجود میں لانا مقصود ہے۔ یا وہ دیکھے گا کہ اس کی روح سے اسمِ رحیم کی صفت روح بن کر اس مردے میں منتقل ہو رہی ہے جس کو وہ زندہ کرنا چاہتاہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 62 تا 64
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔