شاعری
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14714
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ایسے لوگ جن کی قوتِ فکر ومشاہدہ تیز ہوتی ہے اور جو حساس طبیعت رکھتے ہیں، اکثر شاعرانہ صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ شاعری ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعے طویل، مشکل اورگہرے مضامین کو مختصر طورپر اورآسانی سے دوسرے تک پہنچایا جاسکتاہے۔ جس بات کے لئے نثری صورت میں کئی صفحات درکار ہوتے ہیں۔ شعری لباس میں اسے چند مصرعوں میں مقید کیا جاسکتاہے۔
اولیائے کرام اورصوفیائے عظام کے حالات پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں اکثر حضرات شاعرانہ اندازِبیان پرقدرت رکھتے تھے۔ تاریخ تصوّف ایسے کتنے ہی عظیم المرتبت لوگوں کی امین ہے جو عرفان وآگہی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجہ کے شاعر بھی تھے۔
حضرت بابا تاج الدین اولیاءؒ نہ صرف شاعرانہ ذوق کے حامل تھے بلکہ شعرگوئی کی صلاحیت بدرجۂ کمال ان کے اندر موجود تھی لیکن بے نیازی اورمزاج میں استغراق کی وجہ سے آپ مروجہ طرزوں میں شاعر ی کی طرف رجوع نہیں ہوئے۔ جو کچھ باباصاحب نے کہا اس کو نہ خود ضبطِ تحریر میں لائے اور نہ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ کوئی اور سن کر لکھ لیتا۔ صرف چند اشعار ریکارڈ میں آسکے۔ باقی کلام لاعلمی اورعدم دستیابی کے اندھیروں میں گم ہوکر رہ گیا۔ باباتاج الدینؒ داس ملوؔ کاتخلص کرتے تھے جس کے معنی خداکابندہ ہے۔ ذیل میں ہم باباتاج الدینؒ کے اشعار اور ان کے معانی اورمختصر تشریح پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین کو اشعار کی معنویت سمجھنے میں مدد ملے۔
(۱) اجگر کریں نہ چاکری پنچھی کریں نہ کام
داس ملوؔ کا کہہ گئے، سب کے داتا رام
ترجمہ: چوپائے ملازمت نہیں کرتے اور پرندے کاروبار نہیں کرتے پھربھی رزق ان کو ملتا رہتا ہے۔ داس ملو کا(باباتاج الدین) کا کہنا ہے کہ دوستو! سب کی پرورش کرنے والا اللہ ہے۔
(۲) مانُس ہے سب آتما، مانُس ہے سب راکھ
بِندی کی گنتی نہیں، بِندی میں سولاکھ
ترجمہ: آدمی سب کا سب روشنی (آتما) ہے اور سب کا سب مٹی (راکھ) بھی ہے۔ صفر اگر چہ شمار نہیں کیا جاتا لیکن صفرہی سے گنتی کی قیمت لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔
تشریح: باباصاحب آدمی کو مخص مٹی(گوشت پوست)سے مرکب تسلیم نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی بظاہرمٹّی معلوم ہوتاہے لیکن مٹی کے ساتھ ساتھ وہ روشنیوں کا مجموعہ بھی ہے۔ ایسا مجموعہ جو کائنات کی ترجمانی کرتاہے۔ مایوس کن بات یہ ہے کہ انسان نے خود کو مظاہر (مٹی) کا پابند بنا رکھا ہے۔ اگر انسان اپنی ذات (روشنی ) سے واقف ہو جائے تومظاہر (اسپیس) کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ اپنی مرضی اور اختیار سے مظاہر میں تبدیلی کر سکتاہے۔ یہی عرفانِ نفس ہے۔
(۳) دام و دُر کی رِیس میں رام کرت گن گائے
پربھوکی سوگند ہے دُشٹ اسے مل جائے
ترجمہ: ظاہر پرست خدا کی تسبیح اورعبادت کا دکھاوا کرتاہے۔ اللہ کی قسم! اس کو اللہ تو نہیں مل سکتا، البتہ شیطان اسے مل جاتاہے۔
)۴) تن پاپی، من کاہرہ ، اُجیارے سب کیس
مندر کا دیپک نہیں، رشیوں کا سابھیس
ترجمہ: جسم گناہوں سے آلودہ ہے، دل سیاہ ہوچکاہے مگر ان چیزوں کو سفید بالوں نے چھپا رکھا ہے۔ محض اللہ والوں کا حلیہ بنا لینے سے یا ان کے جیسا لباس پہن لینے سے دل اندر روشنی نہیں ہوسکتی۔
(۵) سائے بن کی رات میں بن باسی بن جائیں
داس ملوؔ کا ساتھ میں جاگیں اورلہرائیں
ترجمہ: جنگل کی رات میں سائے آدمی بن جاتے ہیں۔ داس ملوکا (تاج الدین) ان کے ساتھ جاگتے رہتے ہیں اورخوش گپیاں کرتے رہتے ہیں۔
تشریح: یہ دوہا اس زمانے سے تعلق رکھتا ہے جب بابا صاحب رات کو ریاضت ومراقبہ کی غرض سے بابا داؤد مکیؒ کے مزار پر جایا کرتے تھے۔ باباصاحب کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مظاہر بےحس وحرکت ہیں اور ان میں زندگی نہیں ہے لیکن درحقیقت ان میں زندگی کے تمام آثار موجود ہیں۔ شب بیداری کی وجہ سے موجودات کا باطنی رخ سامنے آجاتا ہے اورتاج الدین رات بھر غیبی مشاہدات میں مستغرق رہتے ہیں۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 137 تا 140
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔