سزائے موت
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14655
عبدالحسن صاحب، فروٹ مرچنٹ بیان کرتے تھے کہ ہم لوگ نیاز کی غرض سے باباتاج الدینؒ کی خدمت میں واکی گئے۔ ابھی کھانا پکانے کا سامان ہورہاتھا کہ بادل چھا گئے۔ جلدی جلدی چاول دیگ میں ڈالے ہی تھے کہ بارش شروع ہوگئی۔ دیگوں کے نیچے کی آگ بجھ گئی اور ایندھن کی لکڑیاں بہہ گئیں۔ وہاں موجود لوگوں نے ہمارا مزاق اڑانا شروع کردیا کہ ان کی تو نیت ہی خراب تھی جب ہی لکڑی وغیرہ بہہ گئیں۔ ہم لوگ شرمندہ ہوئے اور ارادہ کیا کہ جب بارش رک جائے گی تو دوسری دیگ چڑھائیں گے۔ اتنے میں ایک قیدی جس کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں پڑی ہوئیں تھیں، دو تین کانسٹیبلوں کے ہمراہ باباصاحب کے پاس آیا۔ اس نے بابا صاحب سے عرض کیا۔’’عدالت نے مجھے پھانسی کی سزا سنا دی ہے اور میں اجازت لے کر آپ کے درشن کے لئے آیا ہوں۔ مجھے آشیرواد دیجئے کہ میری مکتی ہوجائے۔ باباصاحب نے فرمایا۔’’جارے، الٹے ہاتھ سے سلام کرکے آ، بری ہوجائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر باباصاحب نے میرے والد صاحب سے کہا ۔’’ ان کو نیاز کا کھانا کھلا۔‘‘ ہم نے اٹھ کر دیگ کھولی تو کیا دیکھتے ہیں کہ کھانا پکا پکایا تیار ہے، حالانکہ اس کے نیچے کوئی آگ نہیں تھی اور اس وقت بھی پھوار پڑ رہی تھی۔ ہم نے بشمولِ قیدی تمام حاضرین کو کھانا کھلایا۔ میرے والد نے قیدی سے پوچھا کہ تمہیں کس بات پر سزا ہوئی ہے۔ اس نے بتایا کہ میں نے اپنے ملازم کو اپنی لڑکی کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ کر چاہا کہ دونوں کو قتل کر دوں لیکن لڑکی فرار ہوگئی اور ملازم میرے ہاتھوں مارا گیا۔ اب مجھے یقین ہے کہ اپیل کروں گا تو بری جا ؤں گا کیوں کہ باباصاحب نے اپیل کرنے کا اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس نے اپیل کی اور موت کی سزا سے بری ہو گیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 71 تا 72
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔