رحمت و شفقت
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14634
اگر بابا تاج الدینؒ کی مصروفیات کو چند الفاظ میں سمیٹا جائے تو یہ کہا جائےگا کہ آپ کا ہر لمحہ مخلوقِ خدا کے لئے وقف تھا۔ آپ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں آرام کر پاتے تھے۔ باقی وقت لوگوں کی غرض سنتے یہاں تک کہ کھانے پینے کے اوقات بھی نظرانداز ہوجاتے۔ رات دن حاجت مند اور پریشان حال آتے رہتے۔ بابا صاحب اپنے مخصوص اندازمیں انہیں تسلی دیتے اور مشکل کے حل کی طرف اشارہ فرماتے۔ بابا صاحب کی ہستی لوگوں کے لئے لطف ومحبت اور کرم نوازی کا ایسا ذریعہ تھی جس کے آگے انہیں ہر تکلیف اور صعوبت ہیچ محسوس ہوتی تھی۔ باباصاحب ڈھارس بندھاتے تو انہیں ایسا اطمینان مل جاتاجو کسی مادّی ذریعہ سے ملنا ممکن نہیں۔ دل کے بوجھ یوں دور ہوجاتے جیسے کسی انجانے ہاتھ نے غم کے پہاڑ سینے پرسے ہٹا دیئے ہوں۔
آخری زمانے میں جب باباصاحب کی صحت گرگئی تھی اور کمزوری کی وجہ سے بیٹھنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت بھی لوگوں کے معاملات سننے اور جواب دینے میں دلچسپی لیتے رہے۔ حالتِ جلال ہو یا جمال کبھی کسی کو باباصاحب کی ذات سے تکلیف نہیں پہنچی۔ بارہا دیکھا گیا کہ لوگ رنجیدہ آئے اورخوش و خرم واپس گئے۔ باباصاحب بعض اوقات ہجوم میں گھر جاتے تو بلند آواز سے فرماتے ’’تم سب جاؤ۔ تمہارے کام ہوگئے۔‘‘لوگ مطمئن واپس جاتے اور االلہ تعالیٰ ان کے کام بنا دیتا۔
بابا صاحب کے پاس زمانے کے ستائے ہوئے بھی آتے، حالات کے مارے بھی آپ کے در کا رخ کرتے، خطا کار بھی احساسِ گناہ لے کر حاضرہوتے، ایسے لوگ بھی درِ تاج اولیاء میں آتے جوامارت کے باوجود پریشان حال ہوتے اور ایسے بھی فریادکناں ہوتے جن پر غربت ایک بوجھ بن گئی ہوتی۔ باباصاحب بلا امتیاز امیروغریب، خطاکاروپاک باز، سب کی غرض وفریاد سنتے۔ ایک بار ایک طوائف باباصاحب کی خدمت میں حاضرہوئی اورگاکر کہا
اچھے رہیں نزدیک برے جائیں کدھر کو
اے رحمتِ خدا!تجھے ایسا نہ چاہئے
یہ سن کر بابا صاحبؒ نے اس سے کہا
چھے اُدھر کو جائیں، آئیں برے اِدھرکو
اے رحمتِ خدا! تجھے ایسا ہی چاہئے
ایک لڑکا پیدائشی معذور تھا۔ نہ بول سکتا تھا اور نہ ہاتھ پیر ہلاسکتا تھا۔ والدین نے حتی المقدور علاج کرایا لیکن فائدہ نہ ہوا۔ وہ لڑکے کوشکردرہ چھوڑ کرچلے گئے۔ کچھ دیر بعد بابا صاحب اندر سے باہر تشریف لائے اورمعذور لڑکے کے پاس پہنچ کر کھانا طلب کیا۔ لوگوں نے فوراً کھانا پیش کیا۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے اسے آدھے گھنٹے تک لقمہ لقمہ کرکے کھانا کھلایا، اپنے ہاتھوں سے پانی پلایا اورایک آدمی اس کی خدمت کے لئے مقرر کردیا۔ بابا صاحب کے طرزِ عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ دربار میں حاضر ہونے والے لوگ اس لڑکے کی خدمت اپنے لئے عزت کا باعث سمجھنے لگے اور وہ لڑکا جب تک زندہ رہا کبھی کسی تکلیف میں مبتلا نہ ہوا۔
ایک دفعہ بابا تاج الدینؒ قصبہ پاٹن ساؤنگی کی گلیوں سے گزر رہے تھے اورجلوس کے ساتھ سینکڑوں لوگ موجودتھے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک ٹوٹے ہوئے مکان میں ایک بوڑھا اور بوڑھیا جوار پیس رہے ہیں۔ مگر ضعف و ناتوانی کی بنا پر چکی چلانے میں دقّت ہورہی ہے۔ باباصاحب تانگے سے اتر کر مکان میں گئے اور خود آٹا پیسنے لگے۔ تھوڑی دیر میں تمام جوار پیس کر آٹا ان کے حوالے کیا اوروہاں سے روانہ ہو گئے۔
ایک رات باباصاحب کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔ توانہوں نے فرمایا:’’پہلے ہمارے مہمان کو کھلاؤ جو درخت کے نیچے ٹھہراہوا ہے۔ تب میں کھاؤں گا۔‘‘ لوگوں نے کئی جگہ دیکھا مگر کسی ایسے شخص کو پانے میں ناکام رہے جس پر باباصاحب کے الفاظ صادق آتے ہوں۔ باباصاحب سے دوبارہ کھانے کی درخواست کی گئی تو وہی جواب ملا کہ پہلے ہمارے مہمان کو کھلاکر آؤ۔ لوگ ایک دفعہ پھر تلاش میں نکلے۔ ایک درخت کے نیچے کوئی صاحب بیٹھے نظر آئے۔ لوگوں نے ان کاحال پوچھا تو پتہ چلا کہ کسی دوردراز جگہ سے مفلسی کے عالم میں آئے ہیں اورباباصاحب سے ملاقات کا اشتیاق رکھتے ہیں۔ یہ سن کر لوگوں نے کہا کہ باباصاحب نے آپ کے لئے کھانا بھیجا ہے۔
ایک بار باباصاحب گھومتے ہوئے ڈگوری کی طرف گئے۔ عبدااللہ دکھنی نامی شخص کا یہ ذمہ تھا کہ جب باباصاحب ڈگوری کی طرف جاتے وہ ساتھ جانے والے لوگوں کو پانی پلاتے۔ چنانچہ اس دن بھی پانی کا گھڑا ساتھ لئے ہوئے ڈگوری پہنچے۔ وہاں پہنچ کر باباصاحب کو پانی پیش کیا تو انہوں نے پانی پینے سے انکار کردیا۔ کہا ’’گھوڑے کو پلاکر آ، تب پیوں گا۔‘‘ قریب ایک فرلانگ دور گھوڑا کھڑا تھا۔ عبداللہ دکھنی پانی لے کر گھوڑے کے پاس پہنچے۔ گھوڑا اتنا پیاسا تھا کہ پانچ برتن پانی پی گیا۔
مندرجہ بالا واقعات کے علاوہ سینکڑوں واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ باباصاحبؒ کی ذات مخلوقِ خدا کے لئے مجسم شفقت اور محبت تھی اور آپ نے خود کو خدمتِ خلق کے لئے وقف کر رکھا تھا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 41 تا 44
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔