درشن دیوتا
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14697
حضرت بابا تاج الدینؒ سے ہر مذہب و ملت اور ہر عقیدہ کے لوگوں نے فیض پایا۔ ان کے فیض کا دریا بنجر وخشک اور زرخیز زمین دونوں کو کسی امتیاز کے بغیر سیراب کرتا تھا۔ ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق باباؒ کی نظرِ کرم سے مستفیض ہوتاتھا۔
جناب بہادر پرشاد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک سادھو سے ملاقات کے دوران حضور مہاراج باباصاحبؒ کا ذکر آگیا تو انہوں نے ناک بھوں چڑھا کر کہا۔ ’’ہم ہندوؤں کے یوگ میں کس چیز کی کمی ہے جو تم ایک مسلمان فقیر کے والہ وشیدا ہو رہے ہو؟‘‘
میں نے ان سے کہا کہ آپ بابا صاحبؒ کی خدمت میں ایک بار حاضر ہوکر تودیکھئے۔ چنانچہ میں سادھو صاحب کو لے کر شکردرہ حاضر ہوا۔ بابا صاحبؒ محل کے اندر تشریف رکھتے تھے۔ ہم دور کھڑے ہوکر محل کی طرف ٹکٹکی باندھ کر درشن کا انتظار کرنے لگے۔ ہم نے یکایک دیکھا کہ ہم جس جگہ کھڑے ہیں وہاں نہ کوئی محل ہے نہ آشرم۔ ہم کبھی ندی کے کنارے شنکر جی کا درشن کرتے ہیں، کبھی رام چندر جی کو دیکھتے ہیں۔ اور کبھی خود کو کرشن جی کے پاس دیکھتے ہیں۔ ہم نے ایک لمحے میں سارے اوتاروں کے درشن کرلئے۔ اتنے میں لوگوں کی آوازیں گونج اٹھیں اور ہم نے دیکھا کہ ہم شکردرہ کے محل کے سامنے کھڑے ہیں اورسامنے بابا صاحبؒ کھڑے ہوئے تھے۔ ہم دونوں بے اختیار باباصاحب کے قدموں میں گر پڑے ۔ اور اس کے بعد جو کچھ گزری وہ پربھو ہی جانتے ہیں۔
اسی طرح ایک دفعہ تین سادھوؤں نے اسی قسم کے خیالات کا اظہار باباصاحبؒ سے متعلق کیا۔ میں جب ان سے ملاقات کرکے واپس گھر آیا اور رات کو سویا تو حالتِ خواب میں دیکھا کہ باباصاحبؒ میرے گھر تشریف لائے۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اوراپنی بیوی سے کہا کہ اٹھو، فوراًچائے بناؤ۔ دیکھتی نہیں ہوکہ آج بابا صاحبؒ نے ہمارے گھر تشریف لاکر ہمیں کتنی عزت بخشی ہے! میری بیوی نے چائے بناکر پیش کی۔ باباصاحبؒ نے چائے پی اور فرمایا۔’’چل رے تیرے کو تیرتھ کرالاؤں۔‘‘
باباصاحبؒ کے ساتھ میں گھر سے باہر نکلا تو انہوں نے فرمایا۔’’ان تینوں سادھوؤں کو بھی ساتھ لے لو۔‘‘
چنانچہ میں نے ان سادھوؤں کو بھی ساتھ لے لیا۔ آگے آگے باباصاحبؒ تھے، درمیان میں سادھو اورپیچھے میں۔ لمحے بھر میں ہم بنارس پہنچ گئے اور درشن کے بعد گیاجی پہنچ کر وہاں بھی درشن کئے۔ باباصاحبؒ نے فرمایا۔’’چلو جگن ناتھ جی کا بھی درشن کر لیں۔‘‘
ہم لوگ جگن ناتھ جی پہنچے اور درشن سے فارغ ہوکر بازار میں آئے۔ ایک سادھو نے مجھ سے کہا۔’’جگن ناتھ جی کی نشانی ایک لوٹا دلا دو۔‘‘
میں نے ایک دوکان پر لوٹے کی قیمت پوچھی تو دوکاندار نے تین یا چار روپئے بتائی۔ میں نے دوکان دار سے مناسب قیمت دریافت کی تو اس نے کہا یہی مناسب قیمت ہے۔ میں نے فوراً قیمت اداکی اور لوٹالے کر سادھوؤں کے حوالے کر دیا۔
شام کو جب سادھوؤں کے استھان پہنچا تو وہ لوگ وہاں موجود نہیں تھے۔ میں شکردرہ کی طرف روانہ ہوگیا تاکہ باباصاحبؒ کی زیارت کروں۔ میں وہاں محل کے صدر دروازے کے قریب ان تینوں سادھوؤں میں سے ایک کو بیٹھے دیکھا ایک طرف وہی لوٹا رکھا ہوا تھا جو میں نے جگن ناتھ جی سے خرید کر ان کو دیا تھا۔ میں یہ لوٹا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں یہی سوچ رہاتھا کہ جگن ناتھ جی کی زیارت اورلوٹا خریدنے کاواقعہ عالمِ بیداری میں ہوا یا خواب میں۔ میں نے سادھو سے پوچھا۔’’آپ یہاں کس لئے آئے ہیں اور یہ لوٹا کہاں سے لائے ہیں؟‘‘
سادھو نے مسکرا کر جواب دیا۔’’بہت جلد بھول گئے آپ، یہ وہی لوٹا تو ہے جو آپ نے جگن ناتھ جی میں دلایا تھا۔ میں بھی باباصاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تاکہ ان سے مکتی (نجات) کا مارگ حاصل کروں۔‘‘
سادھو کے منہ سے اتنا سننا تھا کہ میں بے خود ہوکر محل کے اندر داخل ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ باباصاحبؒ میری طرف تشریف لارہے ہیں۔ قریب آکر فرمایا۔’’بڑے ساہوکار کے بیٹے!ڈھائی روپئے کے لوٹے کے اتنے دام دے دیئے۔‘‘
میں بے تاب ہوکر باباصاحبؒ کے چرنوں میں گر پڑا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 86 تا 88
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔