خیالات کے تبادلہ کا قانون
مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=36623
اِنسان تین دائروں کا مرکب ہے۔
پہلا دائرہ فرد کا شعور ہے۔
دوسرا دائرہ فرد کا لا شعور اور نوع انسان کا شعور ہے۔
تیسرا دائرہ نوعِ انسان کا لا شعور اور کائنات کا شعور ہے۔
ایک انسان جس کو ہم فرد کا نام دیتے ہیں وہ ا ن تین دائروں سے مرکب ہے یعنی فرد کا اپنا شعور اور لاشعور ، نوعِ انسان کا شعور، لاشعور اور کائنات کا شعور۔ تفصیل اس جمال کی یہ ہوئی کہ ایک فرد کے اندر نوعِ انسان اور کائنات میں موجود ہر مخلوق کی اطلاعات موجود ہیں۔ اور ان اطلاعات کا آپس میں تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر فرد کے ذہن میں جنات اور فرشتوں سے متعلق اطلاعات کا ردوبدل نہ ہو تو فرشتے اور جنات کا تذکرہ زیرِ بحث نہیں آئے گا۔ یہ الفاظ ِ دیگر کائنات اور کائنات میں موجود جتنی بھی مخلوق ہے اس مخلوق کے خیالات کہ لہریں ہمیں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ خیالات کی منتقلی ہی دراصل کسی مخلوق کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہے۔ علیٰ ہذالقیاس ہم بھوک اور پاس سے اس لئے با خبر ہیں کہ بھوک اور پیاس کہ اطلاع ہمارے ذہن پر خیال بن کر وارد ہوتی ہے۔ ہم کسی سے اس لئے متاثر ہوتے ہیں کہ اس آدمی کی شخصیت لہروں کے ذریعے ہمارے اندر کام کر کے لہروں میں جذب ہو جاتی ہے۔ جس حد تک ہم کسی خیال کو قبول یا رد کرتے ہیں اس ہی مناسبت سے ہم کسی فر د سے قریب یا دُور ہو جاتے ہیں۔ خیالات کےردوبدل کا یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو ہم ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکیں گے۔ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ ان ہی خیالات کو ہم اپنی زبان میں توہم، تخیل، تصور اور تفکر وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ دوسری مخلوق کی موجودگی کا علم دیتا ہے۔ انسان کا لا شعور کائنات کے دور دراز گوشوں سے مسلسل ایک ربط رکھتا ہے۔ کیو نکہ یہ ربط ہر وقت قائم رہتا ہے اس لئے ہم اپنے خیالات کو ایک نقطہ پر مرکوز کر کے اس ربط کے ذریعے اپنا پیغام کائنات کے دور دراز کے گوشوں تک پہنچا سکتے ہیں۔
انسان کو حیوانِ ناطق کہا جاتا ہے۔ ایسا انسان جو الفاظ کی لہروں کے ذریعے اپنے خیالات دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دوسرے حیوان جن کو حیوان ِ ناطق کہا جاتا ہے اپنے خیالات الفاظ کا سہارا لئے بغیر دوسروں تک منتقل کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ الفاظ کا سہارا لئے بغیر بھی خیالات اپنے پورے معنی اور مفہوم کے ساتھ ردوبدل ہوتے رہتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ دو بیل۔ دو بکریاں یا دو کبوتر آپس میں باتیں نہیں کرتے یا ایک دوسرے کے جذبات کا انہیں احساس نہیں ہوتا۔ جس طرح ایک انسان الفاظ کے ذریعے اپنے جذبات واحساسات کا اظہار کرتا ہے بالکل اسی طرح الفاظ کا سہارا لئے بغیر دوسرے حیوان اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ اور فریقِ ثانی ان جذبات و احساسات کو پورے معنی کے ساتھ سمجھتا ہے بلکہ قبول بھی کرتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعا لی نے چیونٹی اور حضرت سلیمانؑ کی گفتگو کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ بہت غور طلب ہے۔ چیونٹی نے حضرت سلیمانؑ سے باتیں کیں اور حضرت سلیمانؑ نے اس کی گفتگو کو سمجھا۔ ظاہر ہے چیونٹی نے الفاظ میں گفتگو نہیں کی بلکہ اس کے خیالات کی لہریں حضرت سلیمان ؑکے ذہن نے قبول کیں اور ان کو سمجھا۔ اس واقعہ میں یہ حکمت ہے کہ خیالات، احسا سات، جذبات الفاظ کے بغیر بھی سنے اور سمجھے جا سکتے ہیں۔
ٹیلی پیتھی الفاظ کے تانوں بانوں سے مبرا ہو کر خیالات منتقل کرے کا علم ہے۔ ہم اگر حضرت غوث علی شاہ صاحبؒ کی طرح کسی ایک فرد کو اپنے خیالات کا ہدف بنا لیں تو وہ ایک فرد ہمارے خیالات کی لہروں سے متاثر ہو کر وہی کچھ کرنے پر مجبور ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ اور اگر ہم کائنات کے نقطہ مشترک سے با خبری حاصل کر لیں اور اپنے خیالات اس نقطہ مشترک میں منتقل کر دیں تو کائنات ہمارا خیال قبول کرنے پر مجبور ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ” اور ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں۔”
بات صرف اتنی ہے کہ ہم اس قانون سے واقف ہو جائیں کہ کائنات کی تمام مخلوق کے افراد خیالات لہروں کے ذریعے ایک دوسرے سے مسلسل اور پیہم رابطہ رکھتے ہیں ۔ اور ہر فرد کے خیالات لہروں کر ذریعے آپس میں تبادلہ ہوتے رہتے ہیں۔ ہم کیونکہ تبادلہ خیال کے اس قانون سے واقفیت نہیں رکھتے اس لئے خیال ہماری گرفت سے باہر رہتا ہے۔ اور ہم زندگی کا زیادہ حصہ خیالات کی شکست و ریخت میں گزار دیتے ہیں۔ یہ بات عام طور سے کہی جاتی ہے کہ فلاں آدمی کی قوت ِ ارادی ( WILLPOWER) بہت زیادہ ہے۔ ایسا آدمی عام آدمیوں کی نسبت معاملاتِ زندگی زیادہ بہتر طریقے سے انجام دیتا ہے۔ قوت ارادی سے مراد یہ ہے کہ اس آدمی کے اندر خیالات کی شکست و ریخت بہت کم ہوتی ہے۔ اور ذہن ایک نقطہ پر مرکوز رہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی شخص کو زیادہ آسانی سے متاثر کر سکتا ہے۔ جن لوگوں میں قوتِ ارادی کمزور ہوتی ہے وہ اپنی زندگی کا کوئی خاص نصب العین متعین کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ قوت ِ ارادی کو بروئے کار لانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات سے وقوف حاصل کر لیں کہ ہماری پوری زندگی خیال کے گرد گھومتی ہے۔ کائنات اور ہمارے درمیان جو مخفی رشتہ ہے وہ بھی خیال کے اوپر قائم ہے۔
روحانیت میں خیال اس اطلاع کا نام ہے جو ہرآن اور ہر لمحہ ہمیں زندگی سے قریب کرتی ہے ۔ پیدائش سے بڑھاپے تک زندگی کے سارے اعمال محض اطلاع کے دوش پر رواں دواں ہیں۔ کبھی ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ ہم ایک بچہ ہیں پھر ہمیں اطلاع ملتی ہے کہ یہ دَور جوانی کا ہے اور پھر یہی اطلاع بڑھاپے کا روپ دھار لیتی ہے۔ سرد، خشک،تلخ و شیریں حالات سے گزر کر ہم موت سے قریب ہو جاتے ہیں اور ہم یہ جان لیتے ہیں کہ اب اس دنیا سے ہمارا رشتہ منقطع ہو گیا ہے۔
خیال اور زندگی
یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہماری پوری زندگی خیال کے گرد گھومتی ہے اور یہ کہ کائنات اور ہمارے درمیان جو مخفی رشتہ ہے وہ بھی خیال پر قائم ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دماغ میں خیالات کی شکست و ریخت کو کم سے کم کیا جائے اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ دماغ میں شک اور وسوسوں کو کم سے کم جگہ دی جائے۔ یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ قوتِ ارادی مین کمزوری کی سب سے بڑی وجہ دماغ میں شک کی موجودگی ہے۔ ذہن کو شک سے نجات دلانے کے لئے یہ معلوم ہونا بہت ضروری ہے کہ آخر شک ذہن ِ انسانی میں کیوں کرجنم لیتا ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ وسوسوں اور شک کی بنا وہم اور یقین پر ہے۔ اور اسی کو مذہب میں شک اور ایمان کہا گیا ہے۔ آدمی زندگی کے تمام مراحل وقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں طے کرتا ہے یعنی ایک سیکنڈ کا کوئی فریکشن ( FRICTION) خواہ اس کی زندگی ۱۰۰ برس کیوں نہ ہو لیکن وہ ان ہی لمحوں میں تقسیم ہوتی رہتی ہے۔ غورِ طلب امر یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے ذہن میں وقت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑتا ہے اور ان ہی ٹکڑوں سے کام لیتا ہے۔ہم یا تو وقت کے اس ٹکڑے سے آگے دوسرے مسلسل ٹکڑے پر آ جاتے ہیں یا وقت کے اس ٹکڑے سے پلٹتے ہیں۔ اس کو اس طرح سمجھنا چاہیئے کہ آدمی ابھی سوچتا ہے کہ میں کھانا کھاؤں گا لیکن اس کے پیٹ میں گرانی ہے۔ اس لئے وہ یہ ارادہ ترک کر دیتا ہے ۔ وہ کب تک اس پر قائم رہے گا اس کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ علیٰ ھذا لقیاس اس کی زندگی کے اجزائے ترکیبی یہی افکار ہیں جو اسے ناکام یا کامیاب بناتے ہیں۔ ابھی وہ ایک ارادہ کرتا ہے پھر اُسے ترک کر دیتا ہے۔ چاہے منٹوں میں ترک کرتا ہے ، چاہے گھنٹوں میں، چاہے مہینوں میں، چاہے سالوں میں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ ” ترک” آدمی کی زندگی کا جزوِ عظیم ہے۔
بہت سی باتیں ہیں جن کو وہ دشواری، مشکل، پریشانی، بیماری، بے زاری، بے عملی، بے چینی وغیرہ وغیرہ کہتا ہے۔ اب دوسری طرف وہ ایک چیز کا نام رکھتا ہے سکون۔یہی وہ سکون ہے جس میں وہ ہر قسم کی آسانیاں تلاش کرتا ہے ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سب حقیقی ہیں بلکہ ان میں زیادہ تر مفروضات ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو انسان کو آسان معلوم ہوتی ہیں۔ اور یہی رجحان ہے جو آسانیوں کی طرف دوڑتا ہے اور ہر مشکل سے بھاگتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دو سمتیں ہیں اور اس سمتوں میں آدمی افکار کے ذریعے سفر کرتا ہے۔ اس کی ہر حرکت کامنبع ان دو سمتوں میں سے ایک سمت ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ابھی ہم نے ایک تدبیر کی۔ اس وقت جب ہم اس تدبیر کی تنظیم کر رہے تھے وہ ہر طرح مکمل تھی اور اس کی سمت بھی صحیح تھی لیکن صرف چند قدم چلنے کے بعد ہمارے ذہن میں تبدیل ہوئی۔ تبدیلی ہوتے ہی افکار کا رُخ بدل گیا۔ نتیجہ یں سمت بھی تبدیل ہو گئی۔اب ہم جس منزل کی طرف رواں دواں تھے وہ منزل غیب میںچلی گئی۔ اور ہمارے پاس کیا ر ہا؟ ٹٹولنا اور ٹٹول کر قدم ہے جو صحیح سمت میں اٹھتا ہے، اور پیچھے نہیں ہٹتا۔ واضح رہے کہ یہ تذکرہ یقین اور شک کی درمیانی راہوں کا ہے۔ اب رہی اکثریت کی بات،تو اس کے دماغ کا محور وہم اور شک پر ہے۔ یہی وہ وہم اور شک ہے جو اس کے دماغ کے خلیوں میں ہمہ وقت عمل کرتا رہتا ہے۔ جس قدر اس شک کی زیادتی ہو گی اسی قدر دماغی خلیوں ( CELLS) ٹوٹ پھوٹ واقع ہو گی۔ یہاں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ یہی وہ دماغی خلیے ہیں جب کے زیرِ اثر تمام اعصاب کام کرتے ہیں۔۔ اوراعصاب کی تحریکات ہی زندگی ہیں۔ کسی چیز پر انسان کا یقین کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ فریب کو جھٹلانا ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ انسان جو کچھ ہے خود کو اس کے خلاف پیش کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی کمزوریوں کو چھپاتا ہے اور ان کی جگہ مفروضہ خوبیاں بیان کرتا ہے جو اس کے اندر موجود نہیں ہیں۔
آدمی جس معاشرے میں تربیت پاکر جوان ہوتا ہے وہ معاشرہ اس کا عقیدہ بن جاتا ہے۔ اس کا ذہن اس قابل نہیں رہتا کہ اس عقیدے کا تجزیہ کر سکے۔ چنانچہ وہ عقیدہ یقین کامقام حاصل کر لیتا ہے حالانکہ وہ محض فریب ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہم بتا چکے ہیں کہ آدمی جو کچھ خود ظاہر کرتا ہے حقیقتاً وہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
اس قسم کی زندگی گزارنے میں اُسے بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں، ایسی مشکلات جن کا حل اس کے پاس نہیں ہے۔ اب قدم قدم پر اُسے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا عمل تلف ہو جائے گا۔ اور بے نتیجہ ثابت ہو گا۔ بعض اوقات یہ شک یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی زندگی تلف ہو رہی ہے۔ اور اگر تلف نہیں ہو رہی ہے تو سخت خطرے میں ہے۔ اور یہ سب کچھ ان دماغی خلیوں کی وجہ سے ہے جن میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ واقع ہو رہی ہے۔
جب آدمی کی زندگی وہ نہیں ہے جو وہ گزار رہا ہے، جسے وہ پیش کر رہا ہے، جس پر اس کا عمل ہے اور وہ اس عمل سے وہ نتائج بر آمد کرنا چاہتا ہے جو اس کے حسب خواہ ہوں لیکن دماغی خلیوں کی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ اور ردو بدل قدم قدم پر اس کے عملی راستوں کو بدلتی رہتی ہے۔ اور وہ یا تو بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں یا ان سے نقصان پہنچتا ہے۔ یا ایسا شک پیدا ہوتا ہے جو قدم اُٹھانے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ آدمی کے دماغ کی ساخت دراصل اس اختیار میں ہے۔ ساخت سے مراد دماغی خلیوں میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ ، اعتدال میں ٹوٹ پھوٹ یا کم ٹوٹ پھوٹ ہونا ہے۔ یہ محض اتفاقیہ امر ہے کہ دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو۔ جس کی وجہ سے وہ شک سے محفوظ رہتا ہے۔ لیکن جس قدر شک اور بے یقینی دماغ میں کم ہوں گی اسی مناسبت سے آدمی کی زندگی کامیاب گزرے گی۔ اور جس مناسبت سے بے یقینی اور شک زیادہ ہو گا ، زندگی نا کامیوں میں بسر ہو گی۔
آدمی کی یہ بد قسمتی یہ ہے کہ اس نے اللہ تعالی کے عطا کئے ہوئے علوم کو خود ساختہ اور غلط بنیادوں پر پرکھا اور ان سے انکاری ہو گیا۔ اللہ تعالی نے ہر علم کی بنیاد روشنی کو قرار دیا ہے۔ یہ بات قرآان پاک کی آیتوں میں تفکر کرنے سے سمجھ میں آتی ہے ( ہم پچھلے صفحات میں یہ بتا چکے ہیں کہ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔) آدمی کو چاہیے یہ تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ روشنیوں کی قسمیں اور روشنیوں کا طرز عمل معلوم کرتا لیکن اس نے کبھی اس طرف توجہ نہیں کی اور یہ چیز ہمیشہ پردے میں رہی۔ آدمی نے اس پردے میں جھانکنے کی کوشش اس لئے نہیں کی کہ یا تو اس کے سامنے روشنیوں کا کوئی پردہ موجود ہی نہیں تھا یا اس نے روشنیوں کے پردے کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں کی ۔ وہ یہ قاعدے معلوم کرنے کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوا جو روشنیوں کے خلط ملط سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر آدمی یہ طرزِ عمل اختیار کرتا تو اس کے دماغی کلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو سکتی تھی۔ اس حالت مین وہ زیادہ سے زیادہ یقین کی طرف قدم اٹھاتا اور شکوک اسے اتنا زیادہ پریشان نہ کرتے جتنا کہ اب اسے پریشان کئے ہوئے ہیں ۔ اس کی تحریکات میں جو عملی رکاوٹیں واقع ہوتی ہیں وہ کم سے کم ہوتیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس نے روشنیوں کی قسمیں معلوم نہیں کیں نہ روشنیوں کی طبیعت کاحال معلوم کرنے کی کوشش کی۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ روشنیاں بھی طبیعت اور ماہیت رکھتی ہیں اور روشنیوں میں رجحانا ت بھی موجود ہیں۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ روشنیاں ہی اس کی زندگی ہیں اور اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ وہ صرف مٹی کے پتلے سے واقف ہے۔ اس پتلے سے جس کے اندر اس کی اپنی کوئی زندگی موجود نہیں ہے جس کو اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ وہ سڑی ہوئی مٹی سے بنایا گیا ہے۔ اور دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ وہ بجتی مٹی (خلا) ہے۔ اس کے اندر اپنی ذاتی کوئی حقیقت موجود نہیں ہے حقیقت تو اللہ تعالی نے پھونکی ہے۔
روشنیوں کے عمل سے نا واقفیت اللہ تعالی کے اس بیان سے منحرف کرتی ہے۔ جہاں تک انحراف واقع ہوتا ہے وہاں تک سک اور وہم بڑھتا ہے۔ ایمان اور یقین ٹوٹ جاتے ہیں۔
یاد رکھئے روحانیت اور دیگر تمام مخفی علوم میں بشمول ٹیلی پیتھی یقین کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کیونکہ ہر ارادے اور ہے عمل کے ساتھ یقین کی روشنیاں بھی کام کرتی ہیں ۔ اگر یقین کی ان روشنیوں کو الگ کر دیا جائے تو ہر عمل اور ہر حرکت لا یعنی ہو کر رہ جائے گی۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جب تک ارادے میں یقین کی روشنیاں شامل نہ ہوں اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ماہرین روحانیت یقین کی تعریف اس طرح کرتے ہیں۔
“یقین وہ عقیدہ ہے جس میں شک نہ ہو۔”
ارادہ یا یقین کی کمزوری دراصل شک کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ جب تک خیالات میں تذ بذب رہے گا یقین میں کبھی بھی پختگی نہیں آئے گی۔ مظاہر اپنے وجود کے لئے یقین کے پابند ہیں۔ کیونکہ کوئی خیال یقین کی روشنیاں حاصل کر کے ہی مظہر بنتا ہے۔
ماہرین نفسیات نے جو مشقیں قوتِ ارادی کو تقویت پہنچانے کے لئے مرتب کی ہیں ان سب کا منشا دراصل یقین کو پختہ کرنا ہوتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 31 تا 39
ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔