خواجہ علی امیرالدین
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14721
آپ کی ولادت ایک بنجارے گھر میں ہوئی۔ جائے پیدائش مقام ہینگنا ضلع ناگپور تھا۔ آپ پیدائشی طور پر غیر معمولی صفات کے حامل تھے۔ چھ برس کی عمر ہوگئی لیکن نہ کسی سے بات چیت کرتے اور نہ کھانے پینے کی آپ کو کوئی پرواتھی۔ والدین پریشان ہوکر آپ کو واکی شریف میں باباتاج الدینؒ کے پاس لائے۔ باباصاحبؒ نے فرمایا۔
’’ان کو مت ستایا کرو۔ یہ بڑی شان والے ہیں۔ تم نہیں جانتے کہ ان کا نام خواجہ علی امیرالدین ہے۔‘‘
اب لوگ آپ کو خواجہ علی امیر الدین کہنے لگے اور ہرشخص آپ کا احترام کرنے لگا۔ چند دنوں بعد خواجہ صاحب کے والدین تو گھر واپس چلے گئے لیکن خواجہ صاحب اور ان کے دادا باباصاحبؒ کے پاس واکی ٹھہر گئے۔ ان دنوں خواجہ صاحب کا یہ حال تھا کہ اکثر راتوں کو جنگل کی طرف نکل جاتے اور صبح واپس آتے تو ایک دوسانپ گلے میں ہار کی طرح لٹک رہے ہوتے۔ سانپ کی موجودگی سے ان کے دادا اوردوسرے لوگ ڈر جاتے ۔ یہ طرزِ عمل بہت دن جاری رہا۔ لیکن سانپ نے کسی کو نہیں کاٹا۔ خواجہ صاحب کے دادا ناراض ہوتے کہ اگرکسی کو سانپ نے کاٹ لیا تو کیا ہوگا؟ یہ سن کر خواجہ صاحب سانپوں کو گلے سے اتار کر زمین پر رکھ دیتے ۔ اور اشارے سے بھگا دیتے۔
جب بابا تاج الدینؒ ندی کی طرف یاجنگل کے اندر گھومنے جاتے تو لوگ آپ کے ساتھ ہوتے۔ خواجہ علی امیرالدین کے دادا بھی خواجہ صاحب کو کندھے پر اٹھائے ساتھ ساتھ چلا کرتے تھے۔ مشہور ہوگیاتھا کہ خواجہ صاحب جس شخص کے کندھے پر سوار ہوجاتے ہیں اس کی دلی مراد ضرور پوری ہوتی ہے۔ چنانچہ لوگ آپ کو بخوشی اپنے کندھے پر اٹھائے گھومتے جب باباتاج الدینؒ واکی سے شکردرہ گئے تو راجہ رگھوراؤ نے خواجہ صاحب کے رہنے کا بھی انتظام کردیا۔ شکردرہ میں قیام کے دوران خواجہ صاحب اکثر جلال میں رہتے تھے۔ اور کبھی کبھی توتلی زبان میں کچھ کہہ بھی دیتے۔
ایک دن خواجہ علی امیرالدین حالتِ جذب وجلال میں حضرت بابا تاج الدینؒ کی خدمت میں آئے اور توتلی زبان میں کہا۔
’’محل تو الت دوں؟‘‘(محل کو الٹ دوں)
خواجہ صاحب نے دوبار یہ جملہ ادا کیا۔ باباتاج الدینؒ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے پاس گئے اور انگشتِ شہادت سے تین بار ان کے منہ کو مارتے ہوئے کہا۔
’’حضرت! یہ دعا کا دربار ہے۔‘‘
یہ سن کر خواجہ صاحب سناٹے میں آگئے اور گھبراکر اپنی قیام گاہ کی طرف بھاگے۔ اس دن کے بعد آپ کا جلال جما ل میں بدل گیا۔ لیکن اس کے بعد بھی خواجہ صاحب پر بابا صاحبؒ کا اس قدر رعب اور خوف طاری رہا کہ پوری زندگی باباصاحب کے قریب نہیں گئے۔ دورہی سے سلام ونیاز پیش کرتے تھے۔
خواجہ علی امیرالدین کی شخصیت باباصاحب کے فیض یافتگان میں ایک منفرد مقام کی حامل سمجھی جاتی تھی۔ آپ ایک جلیل القدر ولی اللہ تھے اور بہت سی کرامتیں آپ سے منسوب ہیں ۔ آپ کے وصال کا حال بمبئی والے بابا کے تذکرے میں آئے گا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 165 تا 167
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔