حضرت قادر محی الدین
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14722
آپ کی عرفیت بمبئی والے بابا تھی اور باباتاج الدینؒ آپ کومستان بابا کہتے تھے۔ بمبئی والے بابا شکردرہ باباتاج الدینؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ خواجہ علی امیرالدین کے ہم صفت تھے اور توتلی زبان میں بات کرتے تھے۔ عالمِ جذب میں اپنے کپڑے پھاڑکر پھینک دیتے تھے۔ باباتاج الدینؒ نے کئی بار اپنا کرتا اتارکر عطا کیا۔ آپ اس کو پہن لیتے لیکن یکایک جوش میں آکر پھاڑدیتے۔ مستان بابا، باباصاحبؒ سے دوردور رہتے تھے۔ لیکن ان کی مجذوبانہ حالت دیکھ کر باباتاج الدینؒ کے حضور ان کو لے جایا گیا۔ باباصاحبؒ آرام فرمارہے تھے۔ اٹھ بیٹھے اور کہا۔
’’حضرت دھوپ میں نہیں رہتے، ہم بھی چھاؤں میں رہتے ہیں، تم بھی چھاؤں میں رہاکرو۔‘‘یہ کہہ کر باباصاحب نے اپنا جبہ ان کو عطاکرتے ہوئے کہا۔’’جبہ پہناکرو۔‘‘اس دن سے آپ نے جبہ پھاڑا نہیں۔
ایک دفعہ حضرت قادر محی الدین باباصاحبؒ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ باباصاحبؒ نے انہیں آتے دیکھا تو حاضرین سے مخاطب ہوئے۔
’’دیکھو حضرت! یہ مست آرہے ہیں۔ تم لوگوں نے سر مست کانام سنا ہے نا۔ ان کا نام قادرمحی الدین ہے۔ یہ مست ہیں۔ ان سے ڈرا کرو کہ ہم ڈرتے ہیں۔ یہ کالے ناگ ہیں۔ دیکھو ان کے سرکو۔‘‘
لوگوں نے دیکھا کہ جب ان کے سر کے بال صاف کئے جاتے تو ایک سانپ جیسا نشان نظر آتاجس میں سانپ کا پھن پیشانی کی طرف ہوتا۔ آپ کی پیشانی پر چاند کا نشان تھا جس میں سانپ کا پھن رکھا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ آپ اس قدر پرکشش اور وجیہ تھے کہ لوگ آپ کو دیکھنے کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔
آخری زمانے میں مستان باباصاحب پر ہمہ وقت استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ جب کبھی ہوش میں آتے تو اشاروں سے اس بات کوظاہر کرتے کہ ان کا آخری وقت قریب ہے۔ وصال سے چھ ماہ پہلے سے جو قوال آپ کے پاس آتا، آپ اس سے کہتے،’’گاؤ، سیاں گیوبڑی لمبی سفر۔‘‘ کبھی خوش ہوکر آپ بھی گانے لگتے۔ وصال سے چند دن پہلے جسم پرکپکپاہٹ سی طاری ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر معائنہ کرتا لیکن کوئی مرض سمجھ میں نہیں آتاتھا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد آنکھیں کھول کر کہتے۔’’لاؤ میری دوا۔‘‘ وصال سے ایک روز پہلے کہا۔’’ہم کو نہلاؤ، دھلاؤ،اور دولہا بناؤ۔‘‘چنانچہ آپ کو غسل دے کر نئے کپڑے پہنادیئے گئے۔ پھر آپ نے رسی طلب کی اور ایک سرا حضرت فریدالدین کو دیتے ہوئے کہا۔’’دور جا۔‘‘ جہاں تک رسی جاسکتی تھی لے جائی گئی۔ مستان بابا نے کہا۔’’ڈیٹھ(دیکھ)! یہ میری درگاہ ہے۔‘‘وصال کے دن باربار کہتے۔’’چار بج گیا، ہماری دوا لاؤ۔‘‘
آپ کی یہ حالت دیکھ کر لوگ ملاقات اور سلا م کے لئے حاضر ہونے لگے۔ آپ ہرایک کودعا دیتے اور کہتے۔’’چاربجے آؤ۔‘‘ جمعے کا دن تھا ۔ جیسے جیسے چار بجے کا وقت قریب آرہاتھا۔ آپ کی بے قراری بڑھتی جا رہی تھی۔ بار بار کہتے ’’ہماری دوا لاؤ، ہماری دوا لاؤ۔‘‘ بے تابی دیکھ کر شربت بناکر پیش کیا گیا۔ آپ اللہ اکبر کہہ کر اٹھ بیٹھے اور کپڑے بدل کر صرف ایک کمبل آدھے جسم پر لپیٹ لیا۔ شربت کا گلاس لے کر اللہ اکبر کہااور پی لیا۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر لیٹ گئے اور اللہ اکبر کے ساتھ ہی روح نے جسم کو چھوڑ دیا۔ تاریخِ وصال ۴؍صفر المظفر۱۳۰۰ھ تھی۔
جس دن مستان باباصاحب اس دنیا سے رخصت ہونے والے تھے، صبح حضرت خواجہ علی امیرالدین مزاج پرسی کے لئے تشریف لائے۔ آدھ گھنٹے تک دونوں میں رازونیاز کی باتیں ہوتی رہیں۔ اٹھتے وقت خواجہ صاحب نے بآوازِ بلند مستان باباسے کہا کہ آج آپ تشریف لے جارہے ہیں اور میں آپ کے ایک دن بعد آجاؤں گا۔ ایک سال بعد ۲۶؍ربیع الثانی کی صبح سے خواجہ صاحب نے بار بار یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم باباصاحبؒ (باباتاج الدین)کی چھبیسویں کی فاتحہ میں جا رہے ہیں۔ اب واپس نہ آئیں گے۔ جو بھی آپ سے ملنے آتا، آپ یہی کہتے۔ شام کو جب آپ کو تاج آباد لے جانے کی تیاری ہورہی تھی کہ یکایک پورے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔ لوگ دوڑ کر کمرے میں پہنچے تو دیکھا کہ پلنگ پر سجدہ کی حالت میں پڑے ہیں اور روح پرواز کرچکی ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 167 تا 169
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔