تاریخ خود کو دہراتی ہے
مکمل کتاب : وقت؟
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19827
بلیک ہول پھیل رہا ہے……
برف پگھل رہی ہے……
بادل گرج رہے ہیں……
بجلی چمک رہی ہے……
آندھیاں چل رہی ہیں……
موسلا دھار بارش برس رہی ہے……
سمندر خوفناک طوفان بن گئے ہیں……
دنیا کے اس کونے سے اس کونے تک ہر آدمی پریشان اور لرزہ ہے……
ماحولیات کے ماہرین نے قطبین سے برف کے چند نمونے لے کر اس کا تجزیہ کیا ہے…… انہوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن اور آکسیجن کے مرکبات اور سلفر و آکسیجن سے بننے والی گیسوں کے تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار نمونے جمع کیے ہیں…… تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ ہر دس ہزار سال کے بعد ہوا میں ان گیسوں کی مقدار اپنی انتہا کو پہنچ کر اچانک نیچے گر جاتی ہے…… اور یہ Cycleہر دس ہزار سال بعد دہرایا جاتا ہے……
ہر دس ہزار سال کے بعد ایک بلیک ہول زمین کے اس قدر نزدیک سے گزرتا ہے کہ وہ نظام شمسی میں موجود سیاروں کو اپنی طرف کھینچتا تو نہیں ہے…… لیکن سیاروں کے موسموں کے تغیر میں زبردست تبدیلی آ جاتی ہے……
بارشوں کی کثرت…… ہواؤں کا زور…… سمندروں کے طوفان…… پہلے بھی آ چکے ہیں…… تاریخ میں لکھا ہے کہ زمین سے اس قدر پانی ابلا تھا اور آسمان سے اتنا زیادہ پانی برسا تھا کہ خشک زمین سمندروں میں تبدیل ہو گئی تھی…… اس وقت کی آبادی جتنی بھی ہو لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کی اس تباہی و بربادی میں حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ایک جماعت بچی تھی……
چالیس دن تک پانی برستا رہا…… زمین سے اپنی ابلتا رہا…… پانی بڑھتا چلا گیا اور ہر شئے پانی میں ڈوب گئی…… آخری الہامی کتاب قرآن مجید میں مذکور ہے……
’’اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، ان کے سوا اور کوئی ایمان نہیں لائے گا تو جو کام یہ کر رہے ہیں ان کی وجہ سے غم نہ کھاؤ اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے رُوبرو بناؤ اور جو لوگ ظالم ہیں ان کے بارے میں ہم سے کچھ نہ کہنا اور وہ ضرور غرق کر دیئے جائیں گے…… تو نوح نے کشتی بنانی شروع کر دی اور جب ان کی قوم کے سردار ان کے پاس سے گزرتے تو ان سے تمسخر کرتے۔ وہ کہتے کہ اگر تم ہم سے مذاق کرتے ہو تو جس طرح تم ہم سے تمسخر کرتے ہو اسی طرح ہم بھی تم سے تمسخر کریں گے…… اور تم کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے گا اور کس پر ہمیشہ کا عذاب نازل ہو گا…… یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور جوش مارنے لگا اور ہم نے حکم دیا کہ ہر قسم میں سے جوڑا جوڑا (یعنی دو جانور۔ ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ) لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہو چکا ہے اس کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو اور جو ایمان لایا ہو اس کو کشتی میں سوار کر لو۔ ان کے ساتھ ایمان بہت ہی کم لوگ لائے تھے۔ نوح نے کہا کہ خدا کا نام لے کر اس میں سوار ہو جاؤبے شک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے…… اور وہ ان کو لے کر (طوفان کی) لہروں میں چلنے لگی۔ (لہریں کیا تھیں)گویا پہاڑ(تھے)۔ اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو جو الگ تھا پکارا کہ بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہو جا، اور کافروں میں شامل نہ ہو…… اس نے کہا کہ میں (ابھی) پہاڑ سے جا لگوں گا اور وہ مجھے پانی سے بچا لے گا…… انہوں نے کہا کہ آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر خدا رحم کرے۔ اتنے میں دونوں کے درمیان لہر حائل ہوئی اور وہ ڈوب گیا اور حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان تھم جا۔ تو پانی خشک ہو گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی کوہِ جودی پر جا ٹھہری اور کہہ دیا گیا کہ بے انصاف لوگوں پر لعنت ہے۔ ‘‘
(سورہ ہود۔ آیت 36-44)
*****
اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب طرح کے لوگ موجود ہیں…… سیدھے سادے معصوم لوگ…… پیار و محبت کرنے والے لوگ…… قوم کی فلاح و بہبود چاہنے والے لوگ…… نظام کائنات پر غور و فکر کرنے والے لوگ اور اللہ تعالیٰ سے دوستی کرنے والے لوگ……
اس کے برعکس دوسرے گروہ میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد ذاتی منفعت، خود غرضی، لوٹ مار، دوسروں کو اپنا غلام بنانا، معاشرے میں ایسی قدریں نافذ کر دینا جن سے ہر آدمی کا سکون غارت ہو جائے اور صنعت و تجارت کے نام پر ایسا جال پھینک دینا جس میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق روتی اور کراہتی رہے……
معاشرے میں جب ایسی منفی قدریں زیادہ ہو جاتی ہیں تو قدرت کا اپنا ایک فیصلہ ہے…… ایک جاری و نافذ قانون ہے…… کہ وہ معاشرے کی ان برائیوں کو دھونے کیلئے خود غرضی ختم کرنے کیلئے اور زمین پر فساد پھیلانے والوں کی گوشمالی کیلئے تبدیلی لاتی ہے……
جہاں زمین ہے وہاں پانی آ جاتا ہے……
جہاں پانی ہے وہاں خشک زمین ظاہر ہو جاتی ہے……
آج کے دور میں جو کچھ ہو رہا ہے…… یہی حالات و واقعات حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں بڑی شد و مد سے کارفرما تھے……
حضرت نوح علیہ السلام جب قوم کو بداخلاقی سے روکتے تھے اور انسانی اخلاقیات کی تلقین کرتے تھے تو لوگ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر پوری قوت سے چلاتے تھے…… وہ کہتے تھے کہ تم ہمیں عذاب سے ڈراتے ہو جبکہ ہمارے حالات تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے ہر لحاظ سے بہتر ہیں۔
آج انسان خود اپنا اور اپنی نوع کا دشمن بن گیا ہے…… اتنے بم، راکٹ لانچرز، میزائل اور ایٹمی ہتھیار زمین پر جمع ہو گئے ہیں کہ زمین پر اتنے شہر آباد نہیں…… قانون یہ ہے کہ جب کوئی چیز وجود میں آ جاتی ہے تو کبھی نہ کبھی اس کا استعمال ضرور ہوتا ہے……
ہر انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ جب یہ بم تباہی پھیلائیں گے تو کیا زمین جل کر خاکستر نہ ہو جائیگی؟
امن کے نام پر جو آگ کے الاؤ اور چھپی ہوئی آگ کی بھٹیاں بنائی جا رہی ہیں…… کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان خود کو ختم کر دینا چاہتا ہے؟……
دانشوروں اور رحم دل انسانوں کو چاہئے کہ باہمِ شیر و شکر ہو کر رہیں…… جس طرح ایک شہر میں بہت سارے محلے ہیں…… بہت سارے گھر ہیں…… اور ایک گھر کے افراد خوش باش زندگی گزارتے ہیں، اسی طرح زمین پر آباد سارے ممالک اپنی سرحدوں میں ملکی ترقی کیلئے کوشاں رہیں اور اس کی حفاظت کریں۔
زرپرستی! شرک کی ایسی آگ ہے جس سے ہر کوئی جل کر راکھ ہو جاتا ہے…… اللہ تعالیٰ ستارالعیوب اور غفار الذنوب ہیں…… گناہ معاف کر دیتے ہیں مگر دولت پرستی ناقابل معافی جرم ہے…… اس لئے کہ دولت پرستی شرک ہے……
عظیم روحانی انسان قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا کہ……
’’نوع انسانی دین اور اخلاقی قدروں سے اتنی دور ہو گئی ہے کہ اس کے شعور پر حیوانیت کا غلبہ نظر آنے لگا ہے۔ ‘‘
یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات انسان کیلئے بنائی ہے…… جب انسانی قدریں پائمال ہو جاتی ہیں تو انسان اپنے شرف سے محروم ہو جاتا ہے…… اور اس کے اوپر طرح طرح کی بیماریاں…… طرح طرح کی مصیبتیں اور پریشانیاں نازل ہوتی رہتی ہیں……
مستقبل کا خوف، ایک دوسرے پر عدم اعتماد، شکوک و شبہات، وسوسے اور بے یقینی یہ سب بھی ہمارے تعاقب میں ہیں……
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا……
کم و بیش دس ہزار سال بعد زمین تہہِ آب آ جاتی ہے……
ایسے شواہد سامنے آتے رہیں گے کہ جن سے طوفان آنے کی تصدیق ہو جائے گی……
زمین پر وقفے وقفے سے جب مختلف مقامات پر سیلاب آئیں گے تو زمین پر موجود بڑے بڑے پہاڑ پانی میں ڈوب جائیں گے……
ہر طرف پانی ہی پانی ہو گا……
آبادیوں کو سمندر نگل لے گا……
طوفانِ نوح کے وقت آدم زاد نے خالق کائنات سے بغاوت کر دی تھی…… دولت پرستی عام ہو گئی تھی…… یقین ہزاروں پردوں میں چھپ گیا تھا…… لوگوں نے قدرت کے رازوں میں دخل دینا شروع کر دیا تھا…… بے چین و بیقرار انسان سے چین روٹھ گیا تھا…… خود غرضی عام ہو گئی تھی…… اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا تھا…… اخلاص کا یہ مطلب لیا جاتا تھا کہ دوسرا آدمی ہمارے کام آئے، ہم کسی کے کام آئیں یا نہ آئیں……
لوگوں کو زرخرید غلام بنانا عام روش تھی…… زمین کے اوپر امن کے نام پر فساد پھیل گیا تھا…… بیماریاں عام ہو گئی تھیں…… ہر شخص اپنی بات منوانے پر بضد تھا……
طوفانِ نوح سے پہلے جو حالات تھے، آج کے دور میں شباب پر ہیں…… آج پھر زمین کراہ رہی ہے…… وہ اب فساد، بغض، لالچ، خود غرضی، قتل و غارت گری اور دولت پرستی کے عذاب کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے…… زمین خود کو سڑے ہوئے اجسام سے پاک کرنا چاہتی ہے……
تاریخ خود کو دہراتی ہے…… اب دنیا پھر طوفانوں کی زد میں ہے……
اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان خود غرضی کے خول سے باہر نکل آئے…… دوسرے آدمیوں کو اپنی طرح کا آدمی سمجھے…… حرص و ہوس اور لالچ سے خود کو آزاد کرے…… توبہ و استغفار کر کے اللہ تعالیٰ سے دوستی کی جائے…… ایثار و خلوص کی قدریں بحال ہو جائیں…… اللہ تعالیٰ کو ہی رازق سمجھا جائے…… عریانی، فحاشی، جسم فروشی اور طاقتوروں کی جانب سے کمزور اور مجبور انسانوں کے ساتھ توہین آمیز رویے سے اجتناب کیا جائے……
پیغمرابہ طرز فکر کو اپنا کر توحید و رسالت کے روشن و منور راستے پر قدم بہ قدم آگے بڑھا جائے……
*****
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں ہر طرح کے لوگ حاضر ہوا کرتے تھے…… نیک و بد، پارسا و گنہگار…… حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہر ایک کے ساتھ محبت کا سلوک کرتے…… انہیں اچھی بات کی نصیحت کرتے…… انہیں اپنے ساتھ کھانا کھلاتے تھے…… مذہبی پیشواؤں نے اعتراض کیا کہ یہ تو گنہگاروں کو بھی اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے ہیں……
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان سے سوال کیا……
تم میں کون ایسا ہے…… کہ جس کے پاس سو بھیڑیں ہوں اور جب ان میں سے ایک بھیڑ کھو جائے تو ننانوے بھیڑوں کی فکر چھوڑ کر گمشدہ بھیڑ کو ڈھونڈتا نہ رہے؟…… اس وقت تک جب وہ مل نہ جائے اور جب وہ گمشدہ بھیڑ مل جائے تو وہ خوشی کے مارے اسے اپنے کندھوں پر نہ اٹھا لے…… پھر گھر پہنچ کر اپنے دوستوں، عزیزوں سے یہ نہ کہے کہ میرے ساتھ خوشی مناؤ کہ میری کھوئی ہوئی بھیڑ مل گئی ہے!……
میں تم سے کہتا ہوں کہ ننانوے لوگوں کی نسبت جو توبہ نہیں کرتے ایک توبہ کرنے والے گنہگار بندے کیلئے آسمان پر زیادہ خوشی منائی جاتی ہے یا پھر تم مجھے بتاؤ کہ کونسی ایسی عورت ہے جس کے پاس اگر دس درہم ہوں اور ان میں سے ایک کھو جائے تو وہ گھر میں چراغ جلا کر جھاڑو نہ دے…… اور جب تک وہ گمشدہ درہم اسے مل نہ جائے وہ اسے ڈھونڈتی نہ رہے…… پھر جب اسے درہم مل جاتا ہے تو وہ اپنی پڑوسنوں سے یہ کہتی نہ پھرے کہ میرے ساتھ خوشی مناؤ کہ میرا گمشدہ درہم مجھے واپس مل گیا ہے……
اسی طرح میں تم سے کہتا ہوں کہ …… ایک توبہ کرنے والے گنہگار کی توبہ سے خدا آسمان پر فرشتوں کے سامنے خوشی کا اظہار کرتا ہے……
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 235 تا 240
وقت؟ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔