بھوت بنگلہ
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14712
ماہ نامہ اردو ڈائجسٹ میں باباتاج الدینؒ سے متعلق واقعات ’’تاج الدین باباؒ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے تھے۔ ان واقعات کے راوی خان رشید صاحب ہیں ۔ ماہ نامہ اردو ڈائجسٹ کے شکریے کے ساتھ ان واقعات کی تلخیص پیش کی جارہی ہے۔
پراسرار قہقہہ: نوجوان عثمان اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کی حیثیت سے ناگپور تعینات کیا گیا۔ اس نے جس بنگلے میں قیام کیا وہ آسیب زدہ مشہور تھا۔ لوگوں نے اسے پہلے پیش آنے والے واقعات سناکر بنگلے میں قیام کے ارادے سے بازرکھنا چاہا۔ انگریز اسٹیشن ماسٹر، نورس نے بھی منع کیا۔ لیکن اس نے ان باتوں پر توجہ نہ دی۔
رات کو بارہ بجے جب عثمان بستر پر لیٹا ہوا تھا، باہر کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ پھرکسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ اور چیخیں بلند ہوئیں۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ بنگلے کے احاطے میں ایک زور دار قہقہہ گونجا۔ اور کسی کے دوڑے کی آواز آئی۔ صبح عثمان کمرے سے باہر نکلا تو یہ دیکھ حیران رہ گیا کہ برآمدے میں ہلدی میں پکے ہوئے چاول اور مٹی کی ایک ہنڈیا ٹوٹی پڑی تھی۔ اگلی رات بھی اس سے ملتاجلتا شور سنائی دیا اور صبح برآمدے میں ایک انسانی ہاتھ پڑا ہواملا۔
ان حالات کے باعث عثمان کے اعصاب جواب دے گئے اور اگلی رات اس نے ایک ہوٹل میں گزاری۔ حسبِ عادت صبح عثمان جب چہل قدمی کے لئے نکلا تو ایک جگہ لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گیا۔ ہجوم ایک سبز پوش بوڑھے کے پیچھے لگا ہوا تھا جو منہ ہی منہ میں کچھ بول رہا تھا۔ اس دوران بوڑھا تانگے میں سوار ہوکر ایک طرف روانہ ہوگیا۔ پوچھنے پرپتہ چلا کہ یہ بزرگ تاج الدین باباؒ ہیں۔ عثمان پہلے تاج الدین باباکا تذکرہ ایک ولی اللہ کی حیثیت سے سن چکا تھا۔
مٹی کی تصویر: سیرکے دوران عثمان کالج کے قریب سے گزررہا تھا کہ ایک ہم وطن عبدالغفار نے آوازدی۔ وہ ان دنوں قانون کا طالبِ علم تھا۔ اس کے جیل پور کے دو اورساتھی فضل الکریم اورعباسی بھی اس کے ساتھ تھے۔ انہیں عثمان کی آمد کا علم ہوا تو خوشی میں چائے پرمدعو کرلیا۔
مقررہ وقت پر وہ ہاسٹل پہنچ گیا۔’’چلو چائے شہرمیں پئیں گے۔‘‘عباسی نے کہا’’موقع ملا تو تاج الدین باباؒ سے بھی مل لیں گے۔‘‘
سارے راستے اسی نوع کی گفتگو ہوتی رہی۔ اسی میں معراج کا مسئلہ چل نکلا فضل الکریم روحانی اورعبدالغفار جسمانی معراج کے قائل تھے۔ ایک اچھے سے ہوٹل میں چائے پی کر وہ لوگ شکردرہ پہنچے تو وہاں عجیب منظر دیکھا۔ ایک فوٹو گرافر بڑا سا کیمرہ تپائی پر جمائے باباؒ کی تصویر لینا چاہتا تھا۔ اور وہ اس پر رضامند نہ تھے۔ تاہم اس کے اصرار پر کسی پر بیٹھ گئے مگر وقت پر ہل جاتے تھے۔ فوٹوگرافر افسردگی سے بولا ۔’’بابا !میں توآپ کی تصویر فروخت کرکے بال بچوں کا پیٹ پالنے کی فکر میں تھا مگر آپ کو ذرا خیال نہیں۔‘‘
’’کیا بولا رے، کیا بولا!‘‘ بابا تڑپ گئے۔‘‘ ’’لے ،اچھا اتار لے مٹی کی تصویر۔‘‘
تصویر کھینچ لی گئی، فوٹو گرافر خوش ہوگیا۔ معاً بابا کی نگاہ ان چاروں پر پڑی تو تیوری پر بل پڑگئے اور بولے۔’’انگریزی پڑھ کے آئے ہیں اورکہتے ہیں کہ حضورؐ کو معراج روحانی ہوئی تھی۔‘‘
چاروں چونک پڑے اورباباؒ اپنے حجرے کی طرف چل دیئے۔ اب انہیں باباؒ کے سامنے جانے کی ہمت نہ تھی۔ واپسی کا ارادہ کیا مگر عثمان اورعبدالغفار آگے پڑھے ایک خدمت گار باباؒ کے پاؤں دابنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بابا نے اسے منع کر دیا اور عبدالغفار کی جانب دیکھ کر بولے۔’’لے رے لڑکے، تو پیر دبا۔‘‘
عثمان نے بھی شامل ہونا چاہا لیکن باباؒ نے اسے منع کر دیا۔ عبدالغفار نے پنڈلی کو ہاتھ لگایا تو وہ بے حد سخت تھی۔ بابا نے پٹھے اکڑا لئے تھے۔ دومنٹ بعد اس نے ہاتھ روکتے ہوئے کہا۔’’بابا! آپ تو پنڈلی اکڑائے بیٹھے ہیں۔ میں پاؤں کیسے دباؤں؟‘‘
’’توڈھیل کرلے نا، لگا سائنس کا زور۔‘‘
’’ اس میں سائنس کام نہیں آتی۔ آپ خود پاؤں ڈھیلا چھوڑ دیجئے۔‘‘
وہ پہلے ہنسے اورکچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے۔’’تو اچھا لڑکا ہے، بتا کیا چاہتا ہے۔‘‘
’’بابا!پڑھ لکھ کے نوکری تو مل جائے گی مگر خدا کیسے ملے؟‘‘
وہ قدرے چونک کر کہنے لگے۔’’محنت کرتے، بچے پالتے، خدا مل جاتاجی۔‘‘ فضل الکریم اورعباسی داخل ہوئے تو وہ ادھر متوجہ ہوگئے۔ کیوں رے! اب بتا حضور صلی االلہ علیہ وسلم کو معراج روحانی ہوئی کہ جسمانی؟‘‘
دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ عبدالغفار فوراً بولا۔’’باباغلطی ہوئی۔ معاف کردو۔‘‘
وہ خوش خوش نظر آئے، پھر یوں گویا ہوئے۔’’کرسی پر بیٹھو گے، فوٹواترواؤ گے، پھر سمجھ میں آجائے گا۔ اچھا اب تم جاؤ۔‘‘
پر اسرار گارڈ: عثمان عرضِ مدعا نہ کرسکا اور اٹھ کر چلنے ہی والا تھا کہ باباؒ کی آواز آئی۔ ’’اونالائق! توکائے کو ڈرتاہے؟ ڈنڈا رکھ کے سونا۔ وہ آئیں گے، مار دینا۔‘‘ عثمان ان کی طرف متوجہ ہوا تو ہنس کے بولے۔’’تیری سمجھ میں بھی آجائے گا، معراج جسمانی ہوئی کہ روحانی۔‘‘
پھر دوسرے لوگوں کی جانب متوجہ ہوگئے اور مخصوص انداز میں بولنے لگے۔ اسی لمحے عثمان کو بنکٹ راؤ گارڈ کونے میں بیٹھا نظر آیا۔ وہ ٹکٹکی باندھے بابا کو دیکھے جا رہا تھا۔ اس وقت چھ بجے تھے اور بنکٹ راؤ کو سواچھ بجے والی گاڑی لے کر بمبئی جانا تھا۔ لیکن ابھی تک اس نے وردی بھی نہیں پہنی تھی۔ اور اتنے کم وقت میں وہ اسٹیشن مشکل ہی سے پہنچ سکتاتھا۔ بابا نے بنکٹ راؤ کو ’’سلیمان‘‘ کہہ کر مخاطب کیا اور آہستہ سے کچھ کہا۔ اس پروہ مسکرا دیا لیکن اسی جگہ بیٹھا رہا۔
یہ چاروں باباتاج الدین ؒ کی روشن ضمیری سے بے حد متاثر ہوکر اٹھے۔ عثمان کو تو جیسے چپ ہی لگ گئی تھی۔ ڈنڈا رکھ کے سونا، وہ آئیں گے، ماردینا۔‘‘ بابا کے الفاظ اس کے ذہن میں گونج رہے تھے اور وہ ان کے مفہوم سے بے خبر تھا۔ پھر سوچنے لگا، ڈنڈے سے کیا بنے گا۔
راستے میں عثمان نے تفصیل سے آسیبی بنگلے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے دوستوں کو بابا صاحبؒ کی ہدایت بتائی کہ ڈنڈا رکھ کر سونا۔ وہ سب حیران رہ گئے اور معمہ حل نہ کر سکے۔ پروگرام بنا کہ پہلے اسٹیشن پر چائے پی جائے اورپھر بھوت بنگلہ کی سیر کی جائے۔
عثمان نے کہا۔’’میں بنکٹ راؤ کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ اسے سوا چھ بجے پسنجر لے کر اٹاری جاتاہے لیکن وہ تو باباکے پاس بیٹھا ہے اور واپس آتا نظر بھی نہیں آیا۔ سواچھ بجنے میں ایک منٹ باقی ہے۔‘‘
فضل الکریم نے بے ساختہ پوچھا۔’’ یہ وہی گارڈ تو نہیں جو دوہری شخصیت کی وجہ سے مشہور ہے۔ بیک وقت بابا کے پاس رہتاہے اورڈیوٹی پر بھی۔ سنا ہے بابا صاحب کا خاص معتقد اورفنافی الشیخ ہے۔‘‘
وہ سیدھے اسٹیشن پہنچے اورپلیٹ فارم پر قدم رکھا ہی تھا کہ اٹاری پسنجر سیٹی دے کر روانہ ہوئی۔ گارڈ کا ڈبہ سامنے سے گزرا اوروہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بنکٹ راؤ وردی میں ملبوس سبز جھنڈی ہلارہا ہے۔ پھر اس نے انہیں سر کی جنبش سے سلام کیا۔ اوردور تک مسکراتا رہا۔ بنکٹ راؤ کا اتنے کم وقت میں اسٹیشن پہنچ جانا ان کے لئے معمہ بن گیا۔ پھر ایک ساتھی نے تجویز پیش کی۔ ہمیں باباجی کے پاس جاکر تمام واقعے کی تحقیق کرنی چاہئے۔ وہ لوگ دوبارہ شکردرہ پہنچے۔ فضل الکریم اورعباسی سڑک ہی پر رک گئے کہ باباجی کے سامنے جاتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ عبدالغفار اورعثمان نے ہمت کی حجرے میں میلاد شریف کا غلغلہ بلند تھا۔ انہوں نے جھانک کر دیکھا۔ سلام پڑھا جا رہا تھا۔ باباجی حالتِ وجد میں جھوم رہے تھے۔ اوربنکٹ راؤ ان کے قریب مؤدب کھڑاتھا۔ باباجی کی آنکھیں بند تھیں اور ان سے اشک رواں تھے۔
معراج : ’’ارے نوج! درود پڑھو۔ بڑے سرکار کی سواری آرہی ہے۔‘‘درود کا غلغلہ بلند ہوا اور ایک لطیف سی خوشبو پھیل گئی۔ سلام پڑھا جا چکا تھا۔ بابا جی فرش پر بیٹھ گئے اور ذرا فاصلے پر بنکٹ راؤبھی۔ وہ دونوں حجرے کے دروازے کی اوٹ میں کھڑے تھے۔ اس حیرت انگیز مشاہدے کے بعد الٹے پاؤں احاطے کی پھاٹک کی جانب لپکے جہاں تانگے پر ان کے ساتھی منتظر تھے۔ پھر ایک عجیب منظر دیکھ کر ٹھٹک گئے۔ عباسی اور فضل الکریم تھر تھرکانپ رہے تھے۔ باباجی خود ان کے سامنے موجود تھے اوران پر جلال کی کیفیت طاری تھی۔ انہوں نے پلٹ کر حجرے کی طرف دیکھا تو ان کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آیا۔ بابا حجرے میں تھے۔ شاید یہ کوئی دوسرے بزرگ ہوں۔ اسی لمحے باباجی کی جانی پہچانی آواز نے ان کا شبہ دور کردیا۔ مگر وہ کب اور کیسے وہاں پہنچے۔ جب کہ راستہ صرف وہی تھا۔ وہ حیرت کی تہوں میں اترتے جا رہے تھے۔
’’انگریزی پڑھنے والو! بتاؤ، حضورؐ کو روحانی معراج ہوئی تھی؟‘‘بابا تاج الدینؒ بابا کی آواز میں غصّہ غالب تھا۔’’اب لڑاؤ اپنی سائنس!‘‘
’’معاف کر دیجئے بابا جی! غلطی ہوئی۔‘‘عبدالغفار نے عاجزی سے کہا۔
وہ فوراً ادھر متوجہ ہوئے۔ ان کی تیوری پر بل تھے اور چہرے پرملال اورناگواری کاعکس ۔’’نامعقول، تو پھر آگیا! جا تیرا عہدہ گھٹا دیا۔‘‘
ان کے بپھرے تیوردیکھ عثمان عبدالغفار کی اوٹ میں دبک گیا۔ اس کی سراسیمگی دیکھ کر بابا کو ہنسی آگئی۔ ‘‘ توکائے کو ڈرتا ہے عثمان! ڈنڈا رکھ کے سوجا۔۔۔ سلیمان کی ٹوہ نہ کرنا ، اپنی ٹوہ لگانا۔ پھرسمجھ میں آجائے گا معراج کس کو بولتے ہیں۔‘‘
اس رات بھوت بنگلے کا پروگرام کر کے وہ تینوں کالج ہوسٹل چلے گئے۔ اورعثمان بنگلے واپس آگیا۔ اس رات کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔
بھیانک رات: اگلی صبح اسٹیشن کی طرف روانہ ہوا۔ چوتھے بنگلے کے ڈاکٹر چودھری کی تختی اس نے پہلے بھی دیکھی تھی جس پر خاصے موٹے حروف میں اس کی ڈگریاں کندہ تھیں۔ مگر اس وقت وہ ساری ڈگریاں ایک خوبصورت چہرے کی اوٹ میں چھپ گئیں۔
’’ٹامی، ٹامی!‘‘ایک باریک نسوانی آواز بلند ہوئی۔ اس نے ایک چھوٹے سے کتے کو دم ہلاتے دیکھا۔ پھروہ خوبصورت چہرہ اندر چلا گیا۔ اس خاتون کا ذکر اس سے کسی دوست نے کیا تھا۔ اس کا نام للیتادیوی تھا۔ وہ ڈاکٹر چودھری کی بیوی تھی اور ڈاکٹر چودھری ریلوے میں اچھے مشاہرے پر ملازم تھے۔
اس رات دو بجے کے قریب اچانک عثمان کی آنکھ کھلی ۔ باہر احاطے میں قدرے منحنی آواز میں وحشت خیز قہقہہ بلند ہوا۔ کسی کے بھاگنے کی آہٹ سنائی دی۔ پھر بجلی کی طرح اسے بابا کے الفاظ یاد آئے۔ عثمان نے ڈنڈا سنبھالا۔ ٹارچ اٹھائی اور جی کڑا کرکے دروازے کا پٹ کھول دیا۔ برآمدہ بالکل سنسان تھا۔ ٹارچ کا رخ بڑے لان کی طرف مڑا تو سوکھے گملوں کی اوٹ میں دو سرخ سرخ انگارے چمکے اورغائب ہوگئے۔ اسے آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اوردہشت سے جھرجھری آگئی۔ وہ اندر آیا اور دوبارہ بستر پر دراز ہوگیا۔ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ کمرے کے اندر ہیبت ناک چیخ بلند ہوئی اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ ڈنڈا مضبوطی سے تھام لیا۔ پھر دس منٹ بعد چھت کی پراسرار آوازیں اچانک مدھم ہوگئیں۔ عثمان کی نظر روشندان کی ڈوری پر چلی گئی۔ وہ ہل رہی تھی۔ بالائی سرے پر کوئی چیز رسی سے لپٹی نظر آئی۔ دھندلا اورپراسرار ہیولیٰ رسی پر سرکتا ہوا نیچے کی طرف آیا۔ اس کے تعاقب میں ویسا ہی ایک اورسایہ دکھائی دیا۔ وہ رسی کے سہارے فرش پر اترے اورسرکتے ہوئے چارپائی کی جانب بڑھے۔ عثمان نے تاک کر دونوں کے سرکچل دیے۔ اوراسی لمحے بابا کے الفاظ اسکے کانوں میں گونجے لگے۔ ’’کیا اوربھی آئیں گے؟‘‘ وہ سوچنے لگا۔
سانپوں کے مرجانے کے بعد صبح تک کوئی پراسرار آواز نہ آئی۔ چڑیاں چہچہانے لگیں۔ عثمان اٹھا۔ لباس تبدیل کیا۔ اورمردہ سانپ وہیں چھوڑکر باہر نکل آیا۔ چند چڑیاں برآمدے میں بکھرے ہوئے زرد چاول چگ رہی تھیں۔ احاطے میں آیا تو رات کے پر اسرار قہقہے اس کے ذہن میں اجاگر ہوگئے۔ گملوں کی اوٹ میں جدھر دوانگارے سے چمکے تھے ، ادھر نگاہ دوڑائی تو اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ خشک اورویران لان میں خون کے تازہ دھبے دکھائی دیے۔ اس کے قدم رک گئے۔ دوسری جانب سے لمبا چکر کاٹ کر گیٹ کی جانب بڑھا ہی تھا کہ وہاں ایک تانگہ آکر رکا۔ آنے والے عبدالغفار اورفضل الکریم تھے۔
عثمان نے ان کو سارے واقعات سنائے اور جائے وقوع دکھائی۔ فضل الکریم نے بنگلے کا بغور جائزہ لیا ۔ اور سب کو اپنے پیچھے آنے کااشارہ کیا۔ وہ قریباً ایک فرلانگ کے فاصلے پر واقع بھنگیوں کی بستی میں پہنچا۔ وہاں پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بھگوت نامی بھنگی کا کتا غائب ہے۔ فضل الکریم نے بستی کے مکینوں کو بتایا کہ کتے کو کسی نے ماردیا ہے۔ یہ سن کر لوگوں نے کہا کہ اس کتے کی شرارتوں سے تنگ آکر اسے بستی سے باہر نکال دیاگیا تھا۔ اوراس نے ایک مرگھٹ میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ اس کی عادت تھی کہ رات گئے مرگھٹ سے لوگوں کے گھروں میں آکر چیزیں چرالے جاتا تھا۔ وہ ہنڈیا لے کر بھاگ جاتا اور ہنڈیا کو زور زمین پر مارکر توڑ دیتا اورکھانا کھالیتاتھا۔ اس انکشاف سے سب کو پتہ چلا کہ بھوت بنگلے میں پائی جانے والی ہنڈیا اورچاول بھگوت کے کتے کی کارستانی تھی۔ فضل الکریم سب کے ساتھ دوبارہ بنگلے آیا۔ اوروہاں خون کے دھبوں کے قریب پائے جانے والے نشانات کو دیکھ کر بتایا کہ ان ہی نشانات کی وجہ سے اس کا ذہن بھوت بنگلے کے واقعات کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوا ہے۔ فضل الکریم نے انکشاف کیا کہ وہ نشانات لکڑ بگے کے پیروں کے ہیں جو کتے کا گوشت شوق سے کھاتا ہے۔ اورپھر ایسی آواز نکالتا ہے جیسے قہقہہ بلند ہوتاہے۔ ہوا یہ کہ پہلی دو راتیں کتے اور لکڑ بگے میں کشمکش ہوتی رہی اورپھر کتا قابو میں آگیا۔ انسانی ہاتھ بھی کتا ہی مرگھٹ سے اٹھا لایا تھا۔
فضل الکریم باتیں کرتے کرتے یکایک سنجیدہ ہوگیا۔ اورغور سے بنگلے کا چھپر دیکھنے لگا۔ ساتھیوں کو وہیں چھوڑکر عمارت کے گرد ایک چکر لگایا۔ اورواپس آکر پراسرار انداز میں گویا ہوا۔ جلدی سے ایک سیڑھی اوردوتین جھاڑو کا بندوبست کر ڈالو۔‘‘
سیڑھی ڈاکٹر چودھری کے بنگلے سے مل گئی۔ فضل الکریم نے چھت گیری ادھیڑ کر علیٰحدہ کر دی۔ گرد کی موٹی تہ غبار کی شکل میں کمرے میں پھیل گئی۔ چھتر اور چھت گیری کے درمیانی خلا کی صفائی مدت سے نہ ہوئی تھی۔ مختلف پرندوں نے گھونسلے تیار رکھے تھے اور چھپکلیاں بڑی تعداد میں رینگ رہی تھیں۔ فضل الکریم نے سارے آشیانے اجاڑدیے۔
دو روز گزر گئے اورکوئی نیا واقعہ پیش نہیں آیا۔ رفتہ رفتہ وحشت کا احساس زائل ہوتا رہا۔ پھرعثمان کا اعتماد مکمل طورپر بحال ہوگیا۔ تاہم اس کے ذہن میں ایک نامعلوم سی خلش موجود تھی۔
بڑادیو: ایک شام وہ کالج ہاسٹل سے لوٹ رہا تھا کہ باباجی تانگے میں آتے دکھائی دیے۔ وہ گھبرا کر ایک درخت کی اوٹ میں چھپ گیا۔ تانگہ قریب آکر رک گیا۔ باباجی نیچے اترے اور اسی طرف چل دیے جہاں عثمان درخت کی اوٹ میں چھپا ہواتھا۔ عثمان تھرتھر کانپنے لگا۔ باباجی کو ہنسی آگئی۔’’او عثمان!اب کائے کو چھپتا رے، سانپاں تھے مرگئے۔ اب کائے کوڈرتا، نکو ڈرتے رے ، تاج الدین سے نکوڈرتے۔ اللہ سے ڈرتے ۔‘‘
عثمان نے ادب سے سلام کیا۔ باباجی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ ہی تانگے میں بٹھا لیا اور شکردرہ کی طرف چل دیے۔
آبادی سے گزرے تو معتقدین کے ایک ہجوم نے تانگہ گھیر لیا۔ مجبوراً باباجی نیچے اترآئے۔ حاجت مندوں کو دعائیں دیتے، جھڑکتے، حالتِ جذب میں مسکراتے، خفا ہوتے اور عثمان کا ہاتھ پکڑتے آگے بڑھتے رہے۔ شکردرہ تک سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔
معتقدین کے جلو میں بابا اورعثمان راجہ رگھو جی کے محل میں داخل ہوئے اور اس چھوٹے سے مندرکا رخ کیا جہاں تین دن پہلے سالانہ میلا لگا تھا۔ چہل پہل ابھی باقی تھی باباجی کو دیکھ کر دو تین پنڈت ہاتھ جوڑے باہر نکل آئے۔ باباجی نے نرم لہجے میں کہا۔’’تمہارا بڑا دیو بڑا میلاکچیلا اور گندا لگتاجی۔ میں اسے نہلا دوں؟‘‘
نہیں بابا! آپ دیاکریں۔ ہم آپ ہی اشنان کرادیں گے۔‘‘ انہوں نے گھبرا کر جواب دیا۔
’’بابا کونہلانے دیتے رے! تم پنڈتاں رگھوجی کی اور اپنی لٹیا ڈبو کر دم لوگے۔ تاج الدین کی بات مان لیتے رے!‘‘
’’نہیں بابا! ‘‘ انہوں نے یک زبان ہوکر کہا۔ بابا ہنس کر آگے بڑھ گئے اور پھر آہستہ سے بڑبڑائے۔’’عثمان!تو ان کے مہادیو کو ضرور نہلانا رے۔‘‘
عثمان نے کوئی جواب نہ دیا۔ اورپنڈتوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ عثمان کو بعد میں معلوم ہوا کہ بابا پہلے بھی ایک بار اسی طرح مندرمیں آئے تھے اور انکی بات پر ہندو بگڑ گئے تھے لیکن کسی کو الجھنے کی ہمت نہ ہوئی تھی۔
اسی احاطے میں راجہ رگھوجی نے لوہے کے کٹہرے میں شیرپال رکھا تھا۔ بابا کی نگاہ اس پر گئی تو بولے ’’ارے، اسے کیوں بند کر رکھا ہے؟ بے چارہ پریشان ہورہا ہے نا۔ کنبے سے بچھڑ گیا۔ کتا بن گیا، ٹامی ٹامی!‘‘
عثمان چونک پڑا۔ ڈرکے مارے اس کا سانس پھولنے لگا اور جسم پر رعشہ طاری ہوگیا۔ بابا نے بڑھ کر پنجرے کا پھاٹک کھول دیا۔ شیر باہر نکل آیا۔ لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ صرف بابا کا خادم پہلوان، بنکٹ راؤ اورعثمان رہ گئے۔ باباؒ نے کہا۔ ’’بڑا اچھا کتاہے۔‘‘پھر عثمان سے مخاطب ہوئے۔’’پنجرے میں پھنستا تو شیر کتا بن جاتا نا۔ تو بھی ٹامی بنے گا عثمان اور بڑے دیو کو نہلائے گا؟‘‘
اس براہِ راست خطاب سے عثمان کے اوسان خطا ہوگئے۔ اس نے کچھ کہنا چاہا مگر گھگی بندھ گئی۔ اس کی نظریں شیر پر جمی ہوئی تھیں مگر بنکٹ راؤ ہر بات سے بے نیاز صرف بابا جی کو دیکھ رہا تھا۔ بابا جی شیر کا چمکارتے ہوئے اپنے حجرے تک لے گئے۔
کسی نے راجہ رگھوجی کو خبر کر دی ۔ وہ رائفل سنبھالے دوڑا آیا۔ اوریہ دیکھ کرششدہ رہ گیا کہ شیر بابا جی کے قدموں میں بیٹھاہے۔
’’اونالائق! اب کائے کو آیا۔ کتے کو پنجرے میں ڈالتے تو بھوکا نکو رکھتے۔ تیرے کو بھی پنجرے میں بند کر دوں؟‘‘
’’نہیں باباجی!‘‘ اس نے گھبرا کر جواب دیا۔’’آپ اسے کٹہرے میں بندکر دیجئے۔ لوگ ڈر رہے ہیں۔‘‘
’’ یہ آپی بند ہوجائے گا۔ کل سے بھوکا ہے۔ تو اس کے کھانے کا بندوبست کر۔‘‘
’’ میں ابھی بندوبست کرتاہوں باباجی مگر………‘‘
’’مگر وگر کچھ نہیں۔ ‘‘بابا بگڑ بیٹھے اور پھر شیر سے مخاطب ہوئے۔’’جا رے جا، تیرا راتب مل جائے گا۔ اپنے پنجرے میں انتظار کر۔‘‘
شیر نے حکم کی فوراً تعمیل کی رگھوجی کو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ شیر واقعی جوبیس گھنٹے سے بھوکا تھا۔ گوشت کا انتظام جس آدمی کے سپرد تھا وہ بغیر بتائے چھٹی کر گیا تھا۔
عثمان چپکے سے واپس آگیا اور بابا کے پاس دوبارہ نہ جانے کا مصمم ارادہ کرلیا۔
زہریلی چھپکلی:
ایک دن عثمان کالج ہوسٹل پہنچا۔ وہاں اسے معلوم ہوا کہ کچھ ہی دیر پہلے تاج الدین باباؒ ادھر سے گزرے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ڈھاک کے پتے کا دونا تھا۔ سیدھے ہندوؤں کے میس میں آئے اور رسوئی میں گھس گئے۔ ہندوؤں کے لئے یہ بات ناقابلِ برداشت تھی۔ چند متعصب طلبہ بہت طیش میں آئے مگر بابا کا احترام ان کے ارادوں میں حائل ہوگیا۔ بابا نے کڑھی نما سالن کا پتیلا کھولا۔ پھر فوراً پلٹے اور چیختے چلاتے ڈائننگ ہال کی طرف لپکے۔ ایک چٹا دھاری برہمن کے ہاتھ سے نوالہ چھین لیااور کڑھی کا پیالہ اٹھاکر فرش پر انڈیل دیا۔ ’’یہ نکو کھاتے رے، نکو کھاتے۔‘‘ وہ زور زور سے کہتے رہے، ’’سب پھینک دو!‘‘
یہ پہلی تھالی تھی جو ہال میں کھانے کے لئے لائی گئی تھی۔ لڑکے بابا کی حرکتوں پرخفا اورحیران تھے لیکن وہ برہمن لڑکا اچھل پڑا جس کے قریب پیالہ انڈیلا گیا تھا۔ سالن میں زہریلی مردہ چھپکلی پڑی تھی۔
باباوہاں سے سیدھے اس کمرے میں چلے گئے جہاں عبدالغفار اورفضل الکریم بیٹھے تھے۔ ہاسٹل میں مسلمانوں کے لئے کھانے کا بندوبست نہ تھا۔ وہ اپنے ایک اور ساتھی کا انتظار کر رہے تھے کہ کھانا باہر جاکر کھائیں۔ بابا کو دیکھ کر ششدررہ گئے۔ وہ یہاں پہلے کبھی نہیں آئے تھے۔ انہوں نے ادب کے ساتھ سلام کیا۔ بابا نے سلام کا جواب دیتے ہوئے دونا ان کی طرف بڑھا دیا۔ اس میں چھ گلاب جامن تھے۔ ان میں سے دوگلاب جامن فضل الکریم اورعباسی کو دیے ہی تھے کہ دس بارہ ہندولڑکوں کا جٹھتا دوڑتا ہوا آیا۔ برہمن لڑکا سب سے آگے تھا۔ وہ ہاتھ جوڑ کر باباؒ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ عین اسی لمحے باباؒ نے دوگلاب جامن عبدالغفار کردیتے ہوئے کہا۔’’چھپکلی نکو کھاتے رے۔ گلاب جامناں کھاتے، اپنا رتبہ گھٹاتے جی۔‘‘پھر وہ فضل الکریم سے کہنے لگے۔ ’’عیباں نہیں ڈھونڈھتے جی، عیباں چھپاتے، بُروں کو اچھا بناتے، ان کے ساتھ برے نکو بنتے۔‘‘
ان کی بے ربط باتوں کا مفہوم کوئی اور نہ سمجھ سکا۔ باباجیؒ پھرچوبے کی جانب متوجہ ہوئے۔ ’’مسلمان کا چھوا نکو کھاتے۔ گلاب جامناں نکو کھاتے۔ چھپکلیاں کھاتے،کیوں رے نالائق؟‘‘
’’نہیں بابا۔‘‘ چوبے کی زبان سے نکلا اور اس کا رنگ زرد پڑگیا۔ ’’نہیں بابا، چوبے آپ کا چھوا تو شوق سے کھائے گا۔‘‘یہ کہتے ہوئے عبدالغفار نے ایک گلاب جامن چوبے کو پیش کیا۔ وہ آداب بجا لایا اور منہ میں رکھ لیا۔ باباؒ نے مسکراتے ہوئے عبدالغفار کی طرف دیکھا مگر کچھ بولے نہیں۔
دوسرے ہندو لڑکوں نے بھی باباؒ کو گھیر لیا اور خوشامد کرنے لگے کہ ہمارے پاس ہونے کی دعا کریں۔
’’جاؤرے جاؤ نالائقو! سب پاس ہوگئے۔‘‘ انہوں نے فقط اتنا ہی کہا اور تانگے پرسوار ہوکر چلے گئے۔
عثمان نے یہ تفصیل سن کر اندازہ لگایا کہ باباؒ بہت اچھے موڈ میں ہیں۔ ان سے ملنا چاہئے۔ صرف فضل الکریم نے ساتھ دیا۔ وہ ان سے ملنے چلے۔
ولی بنادو: اسی اثنا میں بابا تانگے پرسوار آتے نظر آئے۔ عثمان کے قدم رک گئے۔ بابا جیؒ نے اسے اپنے ساتھ لیا۔ اور سیدھے شکردرہ روانہ ہوگئے۔
محل کے احاطے میں پہنچ کرعثمان کا ہاتھ پکڑے وہ پھر مندر کی طرف گئے۔ وہاں سناٹا تھا۔ باباجیؒ کی آواز ابھری۔ ’’بڑا دیو گنداہے رے۔ مکھیاں بھنکتیں، اس کو نہلائے گا، ہے نا!‘‘
’’نہیں بابا!‘‘عثمان کی زبان سے یوں ہی نکل گیا۔ باباؒ نے اسے بہت غور سے دیکھا۔
’’کائے کو ڈرتا رے۔ چل میرے ساتھ ۔ ٹوٹے دھاگے بھی جڑ جاتے ۔‘‘
مندرکے قریب پہنچے ہی تھے کہ کٹہرے کی اوٹ سے رگھو جی اور شہر کا کوتوال جبّارخاں نمودار ہوئے۔ بابا جیؒ کودیکھتے ہی رگھو جی ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا۔ مندر کے دوتین پجاری بھی نکل آئے اور ہاتھ جوڑ کر بابا کو روکنے لگے۔ باباؒ ہنس دیے اور جبارخاں سے مخاطب ہوئے۔’’ارے بڑے کتے تو کائے کو آیا رے، شیر بنے گا، پنجرے میں بند ہوگا، کیا کھائے گا رے؟‘‘
’’باباولی بنادو!‘‘کوتوال کی زبان سے بے اختیار نکلا۔
وہ چونک کر بولے۔’’بہت بھوکا ہے رے مگر ولی تو یہ پتھر ہے۔‘‘ انہوں نے ایک پتھر کی طرف اشارہ کیا۔ پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گردن کو ہلکی سی جنبش دی۔ جبارخاں تڑپ کر زمین پر گر پڑا۔ زبان سے اللہ ہوکے نعرے بلند ہونے لگے۔ اور مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگا۔ باباؒ سکتے کے سے عالم میں اسے دیکھ رہے تھے۔ دس منٹ اسی عالم میں گزرگئے تو رگھوجی راؤ گھبرا اٹھا۔ باباؒ نے سرکو دو بارہ جنبش دی۔ کوتوال ہوش میں آگیا ۔ لیکن آنکھیں اب بھی انگارے کی طرح سرخ تھیں اور قدم لڑکھڑارہے تھے۔
’’اب اس کا پیٹ بھرا۔ کئی دن کا بھوکا تھا جی۔ بہت بھوکا ہے۔‘‘ پھر وہ حجرے کی طرف چل دیے۔ راجہ نے رکتے رکتے کہا۔’’ کوتوال صاحب کے ساتھ چیف کمشنر سربنجمن رابرٹس آئے ہیں۔ میرے محل میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اجازت ہوتو بلالاؤں۔‘‘
’’بلا لے رے،بلا لے بندر کو۔ بےچارہ پریشان ہے۔ تاج الدین کسی کو نکو روکتاجی۔‘‘
عثمان بنکٹ راؤ کے قریب بیٹھا تھا۔ پہلوان بابا کی مٹھیاں بھر رہا تھا۔ راجہ کے ہمراہ بنجمن ننگے پاؤں حجرے میں داخل ہوا۔ باباجی نے بڑے اطمینان سے کہا۔ ’’ارے بندر، تو کائے کو اتنا خرچہ کیا؟ بچی کو ناحق تکلیف دیا۔ بیٹا کو مٹی سونگھا دیتے رے، اچھے ہوجاتے ۔‘‘
کوئی نہ سمجھ سکا کہ باباکیا کہہ رہے ہیں ۔ عثمان کی نگاہ دروازے کی جانب اٹھی۔ جوتوں کے قریب کوتوال بیٹھا نظرآیا۔ اس پر ابھی تک لرزہ طاری تھا۔ اورآنکھوں سے اشک رواں تھے۔ وہیں رانی، سربنجمن کی میم اورجواں سال بھتیجی کھڑی تھیں۔ بابا نے ان کو دیکھا توفوراً اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ خواتین کا بڑا احترام کرتے تھے۔ رانی کو بیٹی بنا رکھا تھا اور اسے بہت عزیز رکھتے تھے۔
’’آجاؤ رے اندر آجاؤ۔ باہر کائے کو کھڑے ہو!‘‘ وہ ان سے مخاطب ہوئے۔ رانی نے ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا۔ ان دونوں نے بھی اس کی تقلید کی۔ پھر رانی لڑکی کا ہاتھ پکڑے آگے بڑھی۔ لڑکی کے سر پرپٹی بندھی تھی۔
’’بابا! اس کے سر میں درد رہتاہے۔ لندن میں کسی علاج سے فائدہ نہ ہوا۔ سربنجمن نے اسے آپ سے دم کرانے کے لئے وہاں سے بلوایا ہے۔‘‘ وہ ایک ہی سانس میں پورے بات کہہ گئی۔
’’یہ بندر تو پگلا ہے جی۔ بچی کو تکلیف دیا۔ تاج الدین کو بولنا تھا۔ ‘‘پھر بڑے پیارے سے اسے اپنے قریب بٹھایا۔ ’’پریشان نکو ہوتے بیٹی، مٹی سونگھ لیتے، اچھے ہوجاتے، پٹی کھول دیتے۔‘‘شفقت اورمٹھاس ان کے لہجے سے پھوٹی پڑتی تھی۔
لڑکی نے کچھ بھی نہ سمجھا۔ وہ اردو سے ناآشنا تھی۔ حیرت بھری نگاہوں سے بابا کو دیکھ رہی تھی۔
’’کون سی مٹی؟‘‘رگھو جی نے پوچھا۔
’’ یہ بندر لائے گا جی۔ سڑک کی مٹی لائے گا۔ بچی کو سونگھا دیتے جی۔ اچھے ہوجاتے ۔ ‘‘
سربنجمن رابرٹس باباکی خدمت میں پہلے بھی حاضری دے چکے تھے۔ بات سمجھ گئے۔ فوراً سڑک سے تھوڑی سی مٹی لے آئے اوربچی کو اسے سونگھ لینے کی ہدایت کی۔
مٹی سونگھتے ہی لڑکی کوتین چار چھینکیں آئیں اور ہر چھینک کے ساتھ اس کی ناک سے ایک کیڑا گرا۔
’’بس بیٹی بس۔ اب اچھے ہوگئے۔‘‘بابا نے پورے اعتماد سے کہا۔
رانی نے اس کے سر کی پٹی کھول دی۔ سر کا درد بالکل غائب ہوگیا۔ فرطِ مسرت سے لڑکی کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ وہ سب کے سب سراپا شکر وسپاس بنے ہوئے تھے۔ لڑکی کے اشارے پر سربنجمن نے احساسِ تشکر کے ساتھ بابا جی کی خدمت میں کثیر رقم پیش کی۔ تو ان کی پیشانی پر بل پڑگئے۔ مگر ان کے الفاظ میں بڑی نرمی تھی۔ ’’تو میری بیٹی ہے۔ بیٹی باپ کو نذرانہ نہیں دیتی۔ باپ بیٹی کو دیتا ہے۔‘‘ یہ کہا اورگاؤ تکئے کے نیچے ہاتھ ڈالا۔ چند سکّے لڑکی کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ ا س نے خوشی خوشی تحفہ قبول کر لیا اور پھر وہ شاداں وفرحاں رخصت ہوگئے۔
ادھر کوتوال جبارخاں کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب آگیا۔ وہ ساری رات االلہ االلہ کی ضرب لگاتا رہا۔ دوسرے دن گھر کا سارا سامان لٹادیا اور درویشی اختیار کرلی۔ سربنجمن نے کچھ عرصے اسے تحفظ دیا مگر پھر کوشش کرکے وقت سے پہلے ہی پنشن دلوادی۔
احسان: لوگ نہیں جانتے کہ سی پی کے مسلمانوں کی زیادہ ترفلاح وبہبود وحضرت تاج الدین باباؒ کی رہینِ منت ہے اور پورے صوبے پر ان کا زبردست احسان ہے۔ سر بنجمن کی یہی ملاقات مسلمانوں کے حق میں رحمت ثابت ہوئی۔ انہوں نے بڑی تعداد میں اسکول اور مدرسے قائم کرکے تاج الدینؒ بابا کا فیضان عام کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی درسگاہوں کے لئے زمینیں فراہم کیں، عمارتوں کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ اور تعلیم یافتہ مسلمان جوانوں کے لئے روز گار فراہم کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جبل پور کے مسلمانوں کا اسکول آج بھی رابرٹسن انجمنِ اسلامیہ ہائی اسکول کے نام سے موجود ہے۔انہوں نے وہاں ہزاروں مخالفتوں کے باوجود رابرٹسن کالج بھی قائم کیا۔ ناگپور کا انجمنِ اسلامیہ ہائی اسکول بھی سربنجمن اورتاج الدین باباؒ کی اسی ملاقات کی یادگار ہے۔
کالج ہاسٹل میں چھپکلی والے واقعے کے چند روز بعد امتحان کا نتیجہ نکلا تو وہ سارے ہندو اور تینوں مسلمان طلبہ کامیاب قرار دیے گئے۔ جن کی اس روز باباجی سے ملاقات ہوئی تھی۔ فضل الکریم، عباسی، عبدالغفار اورچوبے جنہوں نے باباجی کے دیے ہوئے گلاب جامن کھائے تھے، درجہ ٔاول میں کامیاب ہوئے۔
نتیجے کے دوسرے ہی دن سربنجمن نے انہیں طلب کر لیا۔ صرف فضل الکریم اور عباسی پہنچ سکے۔ عبدالغفار اورچوبے اپنے گھر جاچکے تھے۔ سربنجمن نے ان دونوں کوتحصیل دار مقرر کردیا اور دوسال بھی نہ گزرے تھے کہ وہ اسسٹنٹ کمشنر ہوگئے۔
چندروز بعد عبدالغفار اورچوبے بھی پہنچ گئے۔ نائب تحصیل دار مقرر کئے گئے۔ مگر خالی جگہیں نہ ہونے کے باعث سالہاسال کی ملازمت کے باوجود تحصیلداری سے آگے نہ بڑھ سکے۔ سربنجمن کا تھوڑے ہی عرصے بعد تبادلہ ہوگیا تھا۔ پھر بھی وہ اپنے جانشیں کمشنر صاحب سے یہ کہتے گئے کہ وہ مسلمانوں کی تعلیم اورترقی میں دلچسپی لیتے رہیں گے۔
دعا اور ترقی: ایک شام چائے پر عبدالغفار، چوبے اورنورس بھی موجود تھے۔ چوبے ناگپور میں تعینات تھا اور عبدالغفار کو ساگر کی طرف کوچ کرنا تھا۔ للیتا نے عثمان سے کہا کہ وہ بابا صاحب سے دعا کرائے کہ ڈاکٹر چودھری کی پریکٹیس چل نکلے۔ چائے کے بعد عبدالغفار کے علاوہ سارے مرد باباجی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
باباحجرے میں تھے اور ان پر استغراق کی کیفیت طاری تھی۔ کچھ دیر بعد وہ عالمِ حواس میں آگئے۔ عثمان پر نگاہ پڑتے ہی ان کا چہرہ شاداب ہوگیا۔’’ارے عثمان!تو اتنے دن سے کیوں نہ آیا؟ دیوتا میلا ہورہا نا۔ اس کو نہلاتا کائے نا۔‘‘
وہ اٹھنے لگے اور اس روز عثمان کو رگھوجی کی جگہ لینا پڑی۔’’ نہیں بابا۔ آپ بیٹھے رہیں۔ ادھر نہ جائیں۔ رگھوجی خود نہلادیں گے۔‘‘
’’رگھو جی نکو نہلا سکتا رے۔ نکو نہلا سکتا۔ توکائے کو ڈرتا۔ پھر کائے کو آیارے، کائے کو آیا۔ جا اپنا راستہ لے۔‘‘
عثمان نے پہلی بار بابا کے سامنے زبان کھولی تھی۔ وہ ان کی خفگی پر گھبرا کے چپ ہوگیا۔
فضل الکریم نے بات کا رخ بدل دیا۔ ’’بابا جی! یہ ڈاکٹر چودھری اورنورس آپ سے ملنے آئے ہیں۔ اور یہ چوبے سلام کے لئے حاضر ہوا ہے۔‘‘
’’سلام کرنے نکو آیا رے۔ بولتا گلاب جامن سے پیٹ نکو بھرا۔ پیٹ میں درد ہوجائے گا رے۔ چھپکلی نکو کھاتے رے۔ تو کھائے گاعثمان ؟‘‘
عثمان جھینپ گیا۔
’’ڈاکٹر پیٹ کے درد کا علاج کرتانا۔ زیادہ کھانے سے درد ہو جاتا۔ بندر اچھارے۔ جھنڈی دکھاتا۔‘‘
ان پر پھر جذب کا غلبہ طاری ہوگیا۔ وہ سب بت بنے بیٹھے رہے۔ پھر فضل الکریم کے اشارے پر اٹھ کر باہر آگئے۔ اس نے سمجھایا کہ اس کی بات کا جواب مل چکاہے۔ مگر چوبے کا اصرار تھا، نہیں ایک بار پھر بابا کے پاس جانا چاہئے۔ نورس نے کوئی رائے نہ دی اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔اور جسم پر لرزہ طاری تھا۔ ابھی وہ کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ بابا خود حجرے سے برآمد ہوئے۔ وہ لوگ سہم گئے۔
’’تو ابھی تک نہیں گیارے عثمان ، باباکی بات نہیں مانا نا۔‘‘اس بار ان کا لہجہ نرم تھا۔’’ اور بندر تو سلام کرنے آیا تھا۔ تاج الدین کی دعا لیتاجا۔ نالائق!‘‘
عثمان اورنورس کو وہ اپنے حجرے میں لے آئے۔ ’’اچھا بندر ہے جی، اچھا ہے۔ ایمانداری سے کام کرتا۔عثمان! اس کو جامن کھلانا رے اور کیا مانگتارے بندر؟‘‘
’’کچھ نہیں بابا۔ ‘‘نورس نے خوف سے کانپتے ہوئے کہا۔’’بابا نے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ اور پھر انہیں رخصت کردیا۔‘‘
نورس اورعثمان گھر پہنچے۔ کھانے کی میز پر دوعدد گلاب جامن دیکھ کر حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ ملازم نے بتایا کہ بنکٹ راؤ کا لڑکا دے گیا ہے۔ ان کے گھر نیاز دلائی گئی تھی۔ یہ اس کا تبرک ہے۔
’’نیاز کیسی! وہ توہندو ہے۔‘‘
’’ہندو ہونے کے باوجود ہر جمعرات کو حضور صلی االلہ علیہ وسلم کی نیاز دلواتا ہے۔‘‘
بابا جی کی ہدایت کے مطابق عثمان نے گلاب جامن نورس کو اصرار کے ساتھ کھلا دیے کھانے کے بعد وہ رخصت ہوگیا۔ ایک ہفتہ بھی نہ گزراتھا کہ اس کی ترقی کے احکام آگئے۔ اور وہ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ہوکر بمبئی چلا گیا۔
فضل الکریم ایم۔ اے ۔ سی کے عہدے پرفائز ہوکر بلاسپور کی طرف کوچ کرگیا۔ بمبئی سے عثمان کی ترقی کا آرڈر آیا تو وہ پس وپیش میں پڑگیا۔ لوگوں کا خیال تھا اسے بابا سے دوری گوارا نہ ہوگی۔ اوروہ ناگپور نہ چھوڑے گا۔ مگر اس کے لئے اس تاثر کے خلاف عمل کرنا بہت دشوار ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر چودھری ہنوز ترقی کی راہ تک رہا تھا۔ پھر اچانک راجہ بلاسپور کے یہاں سے اس کے لئے بلاوا آگیا۔
گاڑی پرسوار ہوتے وقت چودھری کی نگاہ بنکٹ راؤ پر جا پڑی ۔ وہی اس گاڑی کا گارڈ تھا۔ اگلے اسٹیشن پر وہ اس کے پاس آیا اور باباجی کا پیغام آیا۔ ’’مریض کو کھریا کھلانا۔‘‘
ڈاکٹر چودھری کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئی۔ تاہم وہ منزلِ مقصود تک پہنچ گیا۔ اورمریض کو اپنے ساتھ واپس لے آیا۔ وہ راجہ صاحب کا بھتیجا اورہونے والا داماد تھا۔ اس کے پیٹ میں اس قدر شدید درد ہوتا کہ وہ تڑپ تڑپ جاتا تھا۔ بڑے بڑے ڈاکٹر اس کے علاج سے مایوس ہوچکے تھے۔
چودھری نے دو تین روز علاج کیا مگر مرض کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اسی دوران بنکٹ راؤ نے ایک بار پھر بابا کا پیغام یاد دلایا۔ تب اس نے کھریے کا سفوف کھلا نا شروع کیا اور آٹھ دس روز میں مریض مکمل صحت یاب ہوگیا۔
اس کارنامے سے چودھری کی شہرت کو چار چاند لگ گئے اور وہ بڑے معقول مشاہرے پر راجہ صاحب کا ذاتی معالج مقرر ہوگیا۔ تین مہینے کے اندر اندر اس کی پریکٹس اس قدر بڑھ گئی کہ سراٹھانے کی مہلت نہ رہی۔
عثمان اس ماحول میں اجنبی نظر آتا تھا۔ اس کا دل اچاٹ ہوگیا۔ اور اس نے وہاں سے اپنا تبادلہ کرا لیا۔ وقت دبے پاؤں گزرتا رہا۔ ایک روز وہ فضل الکریم کے پاس بلاسپور پہنچا۔ وہ بڑے تپاک سے ملا اور زبردستی اپنے یہاں ٹھہرا لیا۔
دیوکا راز: دونوں رات بھر باتیں کرتے رہے۔ فضل الکریم نے حیرت انگیز انکشافات کئے۔ باتوں ہی باتوں میں بھوت بنگلے کا ذکر چھڑگیا۔ فضل الکریم نے کہا۔’’ میں نے اس بنگلے میں وقوع پذیر ہونے والے سارے واقعات کا کھوج لگالیا ہے۔ تاہم ایک دو کڑیاں باقی ہیں۔ تمہیں اپنے خاندان کے بارے میں کچھ بتانا ہوگا۔ باباجی کی بات سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ بھونسلہ خاندان سے تمہارا کوئی تعلق ہے۔‘‘
عثمان نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا۔’’ہمارے پردادا نے اسلام قبول کیا تھا۔ان کا تعلق چھوٹا ناگپور کے مرہٹہ خاندان سے تھا۔‘‘
فضل الکریم کی آنکھوں میں عجیب سی چمک پیدا ہوئی اور اس نے نہایت قدیم دستاویزنکالتے ہوئے کہا۔’’شاید تمہیں معلوم نہ ہوکہ راجہ رگھوجی کی جاگیر حال ہی میں کورٹ آف وارڈ سے واگزار ہوئی ہے۔ گورنمنٹ نے مجھے اس کا کسٹوڈین مقررکیا اور اس سلسلے میں گزشتہ ماہ مجھے بمبئی جانا پڑا۔ رگھوجی کا محل قرضوں کی وجہ سے بحقِ سرکار ضبط ہوچکا ہے‘‘۔ فضل الکریم نے سرد آہ بھرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔’’شاید تمہیں علم نہ ہو رگھو جی کی اس وقت کوئی اولاد نہیں ہے۔ اور اس کے خاندان کے سارے افراد انگریزوں نے پہلے ہی تہہِ تیغ کردیے ہیں۔ لیکن راج کمار روپوش ہوچکا تھا۔ اس کا سراغ نہیں مل سکا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دستاویز پر ایک جگہ انگلی رکھ دی اور عثمان سے پوچھا ۔’’تمہارے پردادا کاسابقہ نام یہ تو نہیں تھا؟‘‘
عثمان نے اپنے حافظے پر زور دیتے ہوئے کہا۔’’غالباً ہماری دادی یہی نام بتاتی تھیں۔‘‘
فضل الکریم نے تقریباً اچھل کر اپنے جذبات ظاہرکئے۔’’عثمان !تم نے بابا کی بات نظر انداز کرکے اور مندرکے بت کو غسل نہ دے کر بہت بڑی غلطی کی ہے ورنہ رگھوجی کے ساتھ تمہارے بھی دن پھر جاتے۔ اب تو سب کچھ ختم ہوچکا۔ افسوس!‘‘
’’ یہ تم کیا کہہ رہے ہو، کریم! میری سمجھ میں خاک بھی نہ آیا۔‘‘عثمان بھونچکا سا رہ گیا۔
فضل الکریم نے بتایا۔’’رگھوجی کے مال واسباب کی قرقی اورضبطی کے دوران یہ دستاویز کمشنر کے ہاتھ لگی۔ اس میں یہ بھی درج تھا کہ مندر اورمہادیو کابت کہاں ہے۔ وہ ذہین آدمی تھا۔ اس نے سراغ لگالیا۔ راجکمار بالا جی فرار سے پہلے دوروز پجاریوں کے بھیس میں محل کے احاطے والے مندر کے اندر روپوش رہا۔ اس نے پہرہ بٹھا کر مہادیو کے بت کو غسل دیا۔ سیندورکی موٹی تہہ اتروادی۔ اس سے بت کی پشت پر کھدی ہوئی وہ تحریر ابھر آئی جس میں دفینے کے مقام کی نشان دہی کی گئی تھی۔‘‘
عثمان نے دستاویز کو ایک بار پھر غور سے دیکھا اوراسے یاد آیا کہ اسی تحریر اس دستخط کے چند پرانے کاغذات اس نے پردادی کے صندوقچے میں دیکھے تھے۔ مگر چند ہی روز پہلے گھر کی صفائی کرتے وقت وہ سب کباڑیے کو بیچ دیے تھے۔
فضل الکریم نے اپنا سرپیٹ لیا۔’’ یہ تو بہت ہی برا ہوا۔ اب تم اپنا استحقاق ثابت نہیں کرسکتے۔ میری تمام کوششیں بے کار گئیں۔ میں تمہاری خاطر یہ دستاویزریکارڈ سے اڑا کر اپنی تحویل میں لے لی تھی۔ حالانکہ یہ بڑا سنگین جرم ہے۔‘‘ پھر اس نے دستاویز کو پُرزے پرزے کرتے ہوئے کہا۔’’ اب اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس مرحلے پر بنگلے کے آسیب کا راز بھی بتایا جاسکتاہے۔‘‘
اور پھر حجاب درحجاب پردے اٹھنے لگے۔
’’بھوت بنگلہ ہرگز آسیب زدہ نہ تھا۔ تم نے جو سانپ مارے تھے وہ ناگ تھے۔ دراصل رات کی تاریکی میں وہ چھت گیری اورچھپر کے درمیانی خلا میں گھس جاتے اور وہاں بسنے والے پرندوں کے انڈے بچے کھاجاتے۔ پرندے شورمچاتے اورچیخ کر اڑ جاتے۔ رات کے سناٹے میں ان پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ، گرنے کی پھٹاپھٹ اورملی جلی چیخ پکار کا شور گونجتا توماحول اور بھیانک ہوجاتا۔ بھوت پریت واہمہ پہلے ہی ذہن پر مسلط تھا۔ اس لئے چھوٹے موٹے ہنگامے کچھ اور ہی صورت اختیار کرلیتے تھے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 110 تا 133
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔