بابا قادر اولیاء
مکمل کتاب : سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ
مصنف : سہیل احمد عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=14719
باباقادر کا تعلق ترچناپلی کے نواب خاندان سے تھا جس سے بعض درویش بھی گزرے ہیں۔ نواب محمدعلی آپ کے والدتھے۔ ۱۳۲۰ھ میں ترچناپلی کے مقام پر بابا قادر کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کے لئے اسکول میں داخل کئے گئے لیکن تعلیم میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ البتہ اولیاء اللہ اور پیغمبروں کے قصّے بہت غور سے سنتے تھے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کی تنہائی پسندی اورمحویت میں اضافہ ہوتا گیا۔ نوجوانی میں جان حسین کمپنی میں ملازم ہوگئے۔ ان ہی دنوں بابا قادر کے والد کاآخری وقت آپہنچا۔ والد نے بابا قادر کو پاس بٹھاکر کہا۔’’بیٹے! تمہارے خاندان میں فقیرانہ رنگ بھی پایا جاتاہے۔ میرے نصیب میں تو نہیں تھا لیکن تم بابا تاج الدین اولیاءؒ کے حضور ناگپور ضرور حاضر ہونا۔‘‘
والد کی وصیت کے مطابق شکردرہ باباتاج الدینؒ کے پاس پہنچے۔ باباصاحب نے دیکھتے ہی کہا۔’’ شیر کا بچہ شیرہے۔‘‘
یہ کہہ کر پاس رکھے ہوئے چند کیلوں میں سے ایک کیلا اٹھا کر باباوقار کے ہاتھ میں تھمادیا۔ کیلا ذرا گلا ہوا تھا۔ نفاست پسند ہونے کی وجہ سے باباقادر کی طبیعت نے گوارا نہ کیا کہ کیلاکھائیں۔ انہوں نے آہستہ سے ہاتھ پشت کی طرف کرلیا۔
باباتاج الدینؒ نے فرمایا۔’’ کھاؤ یانہ کھاؤ۔ تمہیں جو کچھ پہنچنا تھا، پہنچ گیا۔‘‘
بابا تاج الدینؒ کے لئے کھانا اور چائے محمد غوث بابا کی جھونپڑی سے جاتا تھا۔ لنگر خانے کے مہتمم حیات خاں تھے جو باباصاحب کو کھانا اورچائے پہنچاتے تھے۔ ان کو اپنی اس خدمت گزاری پر بڑا ناز تھا۔ انہوں نے ایک دن بابا قادر کو کلہاڑی دیتے ہوئے کہا۔’’ صاحب زادے! یہاں مفت کا کھانا نہیں ملتا۔ کچھ نہ کچھ کرنا پڑتاہے۔ تم لنگر خانے کیلئے لکڑیاں پھاڑا کرو۔‘‘
باباقادرکلہاڑی لے کر لکڑیاں پھاڑنے لگے۔ بڑے نازونعم میں پلے تھے اور کبھی ایسا سخت کام نہیں کیاتھا۔ بمشکل آدھ گھنٹہ کام کیا ہوگا کہ ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے۔ چنانچہ کلہاڑی رکھ کر لیٹ گئے۔
ادھر حیات خاں کھانا لے کر باباتاج الدین ؒ کے پاس پہنچے تو باباصاحبؒ نے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاکر دکھاتے ہوئے کہا۔’’دیکھو جی! یہ حیات خاں ہم سے لکڑیاں پھڑواتا ہے۔ یہ دیکھو، ہمارے ہاتھ کے چھالے۔‘‘
لوگوں نے دیکھا کہ باباتاج الدینؒ کے ہاتھوں پر چھالے پڑے ہوئے تھے۔ باباتاج الدین اولیاءؒ اشاروں میں گفتگو فرماتے تھے۔ عالمِ جذب وکیف میں بولتے تو اہلِ نظر ہی ان اشاروں کنایوں کو سمجھتے جو گفتگو میں پوشیدہ ہوتے تھے۔ باباقادر کو دربارِ تاج الاولیاء میں رہتے ہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے لیکن اس عرصے میں آپ باباصاحب کے مزاج اورافتادِ طبع کو سمجھنے لگے تھے۔
ایک مارواڑی سیٹھ اور اس کی بیوی اپنے اکلوتے بچے کو لے کر باباتاج الدینؒ کے پاس آئے۔ بچہ دن رات روتا رہتا تھا۔ اورہر طرح کا علاج بے سود ثابت ہوا تھا۔ باباصاحبؒ کے سامنے بچہ پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا۔’’چولھے میں ڈال دے۔‘‘
میاں بیوی اس عجیب وغریب جملے سے مایوس اورمغموم واپس ہوئے ۔ راستے میں باباقادر ملے۔ انہیں جب بتایا گیا تو ہنس کر کہا۔’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ کو نظر لگ گئی ہے۔ کچھ مرچیں وارکو چولھے میں ڈال دو۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور بچے کو آرام آگیا۔
بابا تاج الدینؒ کی خدمت میں چند سال رہنے کے بعد باباقادر وجے نگرم لوٹ آئے لیکن اب ان کی حالت بدل چکی تھی۔ اب آپ ایک جھونپڑی ڈال کر رہنے لگے۔ بہت کم بولتے تھے۔ زیادہ وقت اکڑوں بیٹھ کر سرگھٹنوں میں دبائے رکھتے تھے۔ یہی اندازِ نشست باباتاج الدینؒ کا تھا۔ غذا بھی بہت کم ہوگئی تھی۔ پھر بابا قادر نے وجیا نگرم کے باہر جنگل میں ڈیرا ڈال لیا۔ یہ ایک ویران جگہ تھی جہاں لوگ دن کو بھی جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب آپ پر فقیری کا رنگ تیزی سے چڑھنا شروع ہوا۔ جو کہہ دیتے پورا ہوجاتا۔
پہلے پہل تو باباقادر جنگل میں کھلی چٹان پر بیٹھا کرتے تھے لیکن بعد میں دوستوں نے پتھر میں سوراخ کر کے تاڑپان کی ایک چھتری نصب کر دی۔ ۱۹۲۵ء میں چٹان پر چار کھمبوں کے اوپر گنبد نما چھت ڈال کر پتھروں کی دیواریں کھڑی کر دی گئیں۔ ۱۹۳۱ء سے بابا صاحب نے اس حجرے میں مستقل رہنا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ حجرے کے آس پاس دوسری تعمیرات نمودار ہونے لگیں۔ حجرے کے ساتھ ایک محفلِ خانہ تعمیر کرد یا گیا۔ لوگوں نے چاہا کہ محفل خانے کو پکّا تعمیر کر دیا جائے لیکن باباقادر نے اجازت نہ دی۔ محفل خانے کا فرش بھی ریت کا تھا۔
باباقادر کی شخصیت نے اس ویران جگہ کو جہاں لوگ دن کے وقت جاتے ہوئے ڈرتے تھے، ایک بارونق جگہ میں بدل دیا۔ ایک چھوٹی سی بستی وہاں وجود میں آگئی۔ جس کا نام قادر نگر رکھا گیا۔
مشکلات اور پریشانیوں میں گرفتار لوگ قادر نگر پہنچ کر درختوں کے نیچے انتظار کرتے کہ باباقادر آئیں اور ان کی بپتا سنیں۔ باباقادر محفل خانے کے چبوترے کے کنارے ایک ستون سے ٹیک لگاکر بیٹھ جاتے۔ بائیں طرف بنے ہوئے کٹہرے میں لوگ ایک ایک کرکے آتے۔ باباقادر ہر ایک کے مسئلے کو نہایت توجہ، محبت اور شفقت کے ساتھ سنتے، ڈھارس بندھاتے، اطمینان دلاتے اور جس طرح مناسب سمجھتے مدد فرماتے۔ روزانہ یہی معمول رہتا۔ اور جب تک ایک ایک شخص کی بات نہ سن لیتے اپنی جگہ سے نہ ہلتے۔ دیکھنے والامصروفیت دیکھ کر تھک جاتا لیکن باباقادر کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔
باباقادر کا پسندیدہ ترین عمل غریبوں اور بھوکوں کو کھانا کھلانا تھا۔ آپ کھانا کھلاکر بےحد خوش ہوتے تھے اور آپ کے چہرے پر اطمینان دوڑ جاتاتھا۔ عقیدتمند اورمتمول حضرات کسی مستقل ذریعے سے پیسہ دینا چاہتے تو باباقادر کہتے۔’’جو آج کا اللہ ہے وہی کل کا بھی اللہ ہے۔ اگر تم خرچ کرنا چاہتے ہوتوغریبوں کو کھانا کھلاؤ اور ان کی امداد کرو۔‘‘ جو لوگ آپ سے تعلق رکھتے تھے ان سے فرماتے۔’’رزقِ حلال کیلئے سعی اورکوشش کرو لیکن توکل کوہاتھ سے نہ چھوڑواور امید وبیم سے ماورا ہوجاؤ۔‘‘
۱۹۵۹ء میں باباقادر ناگپور گئے اورباباتاج الدینؒ کے مزار پر حاضری دی۔ مزار پر یہ شعر پڑھا
جنت کا در کھلا ہے ترے در کے سامنے
بے شک خداکا گھر ہے ترے گھر کے سامنے
آپ نے اس جگہ کی بھی زیارت کی جہاں باباتاج الدینؒ بیٹھا کرتے تھے۔ اس جگہ کو بھی دیکھا جہاں بابا تاج الدینؒ رہتے تھے اور باباتاج الدینؒ کے پلنگ اور چبوترے کو بوسہ دیا۔ ناگپور سے واپسی پرآپ نے اس بات کی طرف کئی اشارے کئے کہ ان کا وقتِ رخصت قریب ہے۔ دن بدن آپ کی طبیعت میں اضمحلال پیداہوتاگیا اور بالآخر ۲۷؍جنوری ۱۹۶۱ء کو آپ نے اس دنیا سے پردہ فرمالیا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 160 تا 164
سوانح حیات بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔