دماغ ایک درخت
مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45148
سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ ماورائی علوم سیکھنے والے افراد میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جن کی عمر کم ہے یا وہ نوجوان عورتیں ہیں جن کا شعور ابھی بچپن کے دَور سے باہر نہیں آیا۔ اس کے بر عکس عمر رسیدہ لوگ اور وہ حضرات جو دانشور کہلاتے ہیں یا فلسفہ اور منطق کے جنگل میں سرگرداں رہتے ہیں اور وہ حضرات جن کی طبیعت میں خشکی، یبوست اور انتہا پسندی ہے ماورائی علوم حاصل نہیں کر سکتے؟
جواب: اللہ تعالیٰ کی صناعی میں دماغ ایک ایسی زرخیز زمین ہے جس میں مقسم قسم کے درخت اُگے ہیں۔ درخت چھوٹا ہو یا بڑا بہر حال درخت ہے۔ دماغ کی سر زمین پر جو درخت اُگتے ہیں انہیں مختلف علوم کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ علوم اتنے ہیں کہ کسی طرح ان کا شمار ممکن نہیں۔ ان علوم میں ماورائی علوم کی اپنی الگ ایک حیثیت ہے۔ ماورائی علوم روحانیت کے نام سے موسوم کئے جاتے ہیں۔
کسی درخت کی ہری بھری شاخ کو مفید مطلب اغراض و مقاصد میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس سوکھی شاخ سے (سوکھی شاخ سے مراد گھن کھائی ہوئی لکڑی ہے) ہم کوئی چیز نہیں بنا سکتے، انتہا یہ کہ وہ جلانے کے کام بھی نہیں آتی۔ کم عُمر بچے اور نوجوان عورتیں ہری بھری شاخ کی مانند ہیں جب کہ عمر رسیدہلوگ خشک لکڑی کی طرح ہیں۔ ماہرین نفسیات اور ماورائی علوم سکھانے والے اساتذہ اپنے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں اس کی بنیادی وجہ یہ قرار دیتے ہین کہ روحانیت سیکھنے کے لئے نرم طبیعت، گداز دل اور آزاد ذہن ہونا ضروری ہے۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے آدمی اپنے مخصوص نظریات کے خول میں بند ہو کر تنگ نظر اور تنگ دل ہوتا چلا جاتا ہے اور اپنے ان نظریات کو زندگی قرار دے دیتا ہے جب کہ روحانیت اس بات سے واقف ہی نہیں ہے۔ اور یہ بات ہمارے سامنے کی ہے کہ کوئی شاگرد استاد سے اس وقت تک اکتسابِ فیض نہیں کر سکتا جب جب تک استاد کا کہنا اس کے لئے حرفِ آخر نہ ہو۔ اس کی مثال ہم پچھلے صفحات میں دے چکے ہیں۔ ہم نے عرض یہ کیا ہے کہ ایک بچہ اگر الف کو حرف ِ آخر سمجھ کر الف نہ کہے تو وہ علم سے محروم رہ جائے گا۔
نوجوان طلبہ اور معصوم اور پاکیزہ فطرت خواتین اس لئے جلد کامیاب ہو جاتی ہیں کہ ان کے ذہن میں چون و چرا نہیں ہوتی۔ اس کر بر عکس عمر رسیدہ اور پختہ کار لوگ کسی روحانی استاد کی شاگردی اختیار کرنے کے باوجود اپنی پختہ طرزِ فکر اور مخصوص نظریات کی روشنی میں استاد کی دی یوئی ہدایات کا تجزیہ کرتے ہیں اور ان علوم کو جن کو سیکھنے کے لئے ان کی حثیثت بالکل ایسے بچے کیسی ہے جو الف، ب، ت نہیں جانتے استاد کی ہدایات کو منطق اور فلسفہ کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہی وہ نا قص طرزِ عمل ہے جس کی وجہ راستہ کھوٹا ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ اس حقیقت سے نا آشنا ہوتے ہیں؛۔
-
” جہاں علمِ فلسفہ کی حدودختم ہوتی ہیں، اس سے آگے روحانیت اور ماورائی علوم کی حدیں شروع ہوتی ہیں۔”
ماورائی علوم سیکھنے والے ہر طالب علم کو یہ بات پوری طرح ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ مخصوص نظریات کی حد بندیاں کٹ حجتی، انتہا پسندی اور خود کو کسی ایک دو یا زیادہ علوم میں یکتا سمجھنا نا قص طرزِ فکر ہے اور نا قص طرزِ فکرانسان کو یک سوئی اور آزاد ذہن ہونے سے محروم کر دیتی ہے۔ اور جب کوئی بندہ اس نعمت سے محروم ہو جاتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر شک اور وسوسے آکاش بیل بن کر پھیل جاتے ہیں اور ان کے اندر فطری صلاحیتوں کے بہتے ہوئے دریا کو چوس کر خشک کر دیتے ہیں۔ یہی وہ المناک صورت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
ختم اللہ علی قلوبہم و علی سمعہم و علی ابصارھم غشاوۃ و لھم عذاب عظیم ؑ ( سورۃ بقرہ آیت ۷)
مہر کی اللہ نے ان کے دلوں کے اوپر اور ان کے کانوں کے اوپر اور ان کی آنکھوں کے اوپر پردہ ہے اور اُن کے واسطے بڑا عذاب ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 175 تا 177
ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔