سائنس کا عقیدہ

مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45112

رضوانہ
سوال: بقول آپ کے ٹیلی پیتھی جاننے والا اگر ہر زبان سمجھ سکتا ہے اور دوسروں کے خیالات پڑھ سکتا ہے تو ایسا ہونا کس طرح ممکن ہے کیوں کہ ہمارا عام مشاہدہ یہ ہے کہ آدمی جب کوئی بات سوچتا ہےتو اس کی سوچ کا دائرہ مادری زبان کے الفاظ میں محدود ہوتا ہے مثلاً یہ کہ ہم انگریزی مین ایک مضمون لکھنا چاہتے ہیں اور ہماری مادری زبان اردو ہے تو مضمون کا خاکہ یا مضمون کے اندر مفہوم جو ہم بیان کرنا چاہتے ہیں، وہ ہمارے دماغ میں مادری زبان میں وارد ہوتا ہے۔ اور ہم اس مادری زبان کو انگریزی الفاظ کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔
جواب: سائنس کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے کی بنیاد یا قیام لہر یا روشنی کے اوپر ہے۔ جب ہے شئے شعاعوں ہا لہروں کا مجموعہ ہے تو ہم شعاعوں ہا لہروں کو دیکھے یا سمجھے بغیر یہ کیسے جان لیتے ہیں کہ درخت ہے ، یہ پتھرہے یا یہ چیز پانی ہے۔ ہم جب کوئی پھول دیکھتے ہیں تو ہمارے دماغ پر پھول سے متعلق خوبصورتی، خوشبو، فرحت و انبساط کا تاثر قائم ہوتا ہے حالاں کہ ہم نے ابھی پھول کو نہ چھوا ہے، نہ سونگھا ہے۔ اسی طرح جب ایک ایسے آدمی کا چہرہ ہمارے سامنے آتا ہے جو طبعاً تخریب پسند ہے یا ہم سے مخاصمت رکھتا ہے تو اس آدمی کے خیالات سے ہم متاثر ہوتے ہیں اور ہماری طبیعت کے اوپر اس کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی آدمی ہم سے دلی تعلق رکھتا ہے، اُسے دیکھ کر ہماری طبیعت میں اس کے لئے محبت اور انسان شناسی کے جذبات اُبھتے ہیں حالاں کہ ان دونوں آدمیوں میں سے کسی نے بھی ہمارے ساتھ نہ کوئی بات کی ہے اور نہ ہمیں کوئی نقصان نہ نفع پہنچایا ہے۔
دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن جب پانی کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہر آدمی اُسے پانی سمجھتا ہے جس طرح ایک اُردو داں اسے پانی سمجھتا ہے۔ اسی طرح دوسری زبانیں بولنے والے جَل، آب، واٹر ماء وغیرہ کہتےہیں۔ لیکن پانی پانی ہے۔ جب کوئی اردوداں کسی انگریز کے سامنے لفظ درخت کہتا ہے تو اس کے ذہن میں درخت ہی آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انگریز اس کو (TREE) کہتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطہ پر جب ہم آگ کا تذکرہ کریں گے تو اس خطے پر بولی جانے والی مادری زبان کچھ بھی ہو لوگ اُسے آگ ہی سمجھیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ کوئی چیز اپنی ماہیت، خواص اور اپنے افعال سے پہچانی جاتی ہے، نام کچھ بھی رکھا جائے۔
ہر چیز کا قیام لہر پر ہے۔ ایسی لہر جس کو روشنی کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ٹیلی پیتھی کا اصل اصول بھی یہی ہے۔ ہم جب کسی چیز کی طرٖف متوجہ ہوتے ہیں تو ہمارے خیالات کے اندر کام کرنے والی لہریں اس چیز میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جب کسی آدمی کی طرف متوجہ ہو کر یہ بتانا چاہتے ہین کہ ہم پیاسے ہیں تو دوسرا آدمی اس بات کو سمجھ جاتا ہے حالاں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں پانی پلاؤ۔
درخت بھی گفتگو کرتے ہیں۔
خیالات کو سمجھنے اور خیالات میں معانی پہنانے کے لئے الفاظ کا سہارا لینا ضروری نہیں ہے۔ درختوں، چوپایوں ، پرندوں ، درندوں و حشرات الارض کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ یہ سب باتیں کرتے ہیں اور سب اپنے خیالات کو آپس میں ردو بدل کرتے ہیں۔ لیکن الفاظ کا سہارا نہیں لیتے۔ موجودہ زمانے نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب یہ بات پوری طرح ثابت ہو چکی ہے کہ درخت بھی آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ درخت موسیقی سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اچھے لوگوں کے سائے سے درخت خوش ہوتے ہین۔ اور ایسے لوگوں کی قربت سے جن کے دماغ پیچیدہ اور تخریب پسند ہیں، درخت ناخوش ہوتے ہیں۔ یہ بات میں اپنے مشاہدے کی بنا پر لکھ رہا ہوں۔ میں نے ایسے گھر دیکھے ہیں کہ اُس گھر کے باسی ذہنی طور پر نہایت پس ماندہ اور متعفن خیالات کے حامل تھے۔ اس گھر کے درختوں کے پتوں میں اور درختوں کی شاخوں میں ان کا عکس نظر آتا تھا۔ ان درختوں کو دیکھ کر طبیعت میں تکدر پیدا ہوتا تھا۔ مطلب یہ کہ زبان دراصل خیالات ہیں اور خیالات ہی اپنے معنی اور مفہوم کا ساتھ نوعِ انسانی اور دوسری تمام نوعوں میں ردوبدل ہوتے رہتے ہیں۔ الفاظ کا سہارا دراصل کمزوری کی علامت ہے۔ اس لئے کہ شعور الفاظ کا سہارا لئے بغیر کسی چیز کو سمجھ نہیں پاتا۔ جب کوئی بندہ ٹیلی پیتھی کے اصول و ضوابط کے تحت خیالات کی منتقلی کے علم سے وقوف حاصل کر لیتا ہے تو اس کے لئے دونوں باتیں برابر ہو جاتی ہیں چاہے کوئی خیال الفاظ کا سہارا لے کر منتقل کیا جائے یا کسی خیال کو لہروں کے ذریعے منتقل کر دیا جائے۔ ہر آدمی کے اندر ایسا کمپیوٹر نصب ہے جو خیالات کو معنی اور مفہوم پہنا کر الگ الگ کر دیتا ہے اور آدمی اس مفہوم سے باخبر ہو کر اس کو قبول کرتا ہے یا رد کر دیتا ہے۔

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 119 تا 122

ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :

0.1 - اِنتساب 1 - پیشِ لفظ، ٹیلی پیتھی سیکھئے 2 - ٹَیلی پَیتھی کیا ہے؟ 3 - نظر کا قانون 4 - ٹائم اسپیس 5 - کہکشانی نظام 5.1 - حضرت سلیمانؑ کا دربار 5.2 - خیال کی قوت 6 - خیالات کے تبادلہ کا قانون 6.1 - ارتکازِ توجہ 7 - ٹیلی پیتھی کا پہلا سبق 8 - مٹھاس اور نمک 8.1 - آئینہ بینی 10 - ٹیلی پیتھی اور سانس کی مشقیں 11 - ٹیلی پیتھی کا دوسرا سبق 12 - فکرِ سلیم 13 - قبر میں پیر 13.1 - ایک انسان ہزار جسم 13.2 - شیر کی عقیدت 14 - لہروں میں ردوبدل کا قانون 15 - کیفیات و واردت سبق 2 16 - علم کی درجہ بندی 16.1 - شاہد اور مشہود 17 - دماغی کشمکش 18 - ٹیلی پیتھی کا تیسرا سبق 19 - سائنس کا عقیدہ 20 - کیفیات و واردات سبق 3 21 - باطنی آنکھ 21 - تصور کی صحیح تعریف 22 - ٹیلی پیتھی کا چوتھا سبق 23 - 126 عناصر 24 - کیفیات و واردات سبق 4 25 - عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے 26 - قانونِ فطرت 27 - ٹیلی پیتھی کا پانچواں سبق 28 - ٹیلی پیتھی کا چھٹا سبق 29 - قیدو بند کی حالت 30 - چھٹے سبق کے دوران مرتب ہونیوالی کیفیات 31 - ساتواں سبق 32 - ٹیلی پیتھی کے ذریعے تصرف کا طریقہ 33 - آٹھواں سبق 34 - دماغ ایک درخت 35 - رُوحانی انسان 36 - روحانیت اور استدراج
سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)