ٹیلی پیتھی کا تیسرا سبق
مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45110
یہ بات آپ جان چکے ہیں کہ ماورائی علوم سیکھنے کے لئے بطورِ خاص منتشر خیالات سے خود کو آزاد کرنا ضروری ہے۔ جب خیالات ایک نقطہ پر مرکوز ہو جاتے ہیں تو دماغ یک سو ہو جاتا ہے۔ جن حضرات نے پہلے سبق کی تکمیل نہیں کی ہے انہیں چاہئے کہ پہلے سبق کی تکمیل کے بعد دوسرا سبق شروع کریں۔ اسی طرح ججب تک دوسرے سبق کی تکمیل نہ ہو تیسرا سبق شروع نہ کیا جائے۔ ایک بات اور سمجھ لیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے پانچوں انگلیاں برابر نہیں بنائی ہیں۔ جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں اسی طرح ہر آدمی کی صلاحیت بھی الگ الگ ہے۔ کدی کے اندر صلاحیت بہت زیادہ ہے، کسی کے اندر صلاحیت زیادہ ہے اور کسی بندے کے اندر صلاحیت کم ہوتی ہے۔ کم صلاحیت لوگوں کو زیادہ با صلاحیت لوگوں کی کامیابی سے خوش ہونا چاہئیے۔
احساسِ کمتری میں مبتلا ہونا دراصل اپنی صلاحیتوں کو زنگ لگا دینے کے مترادف ہے۔ جن لوگوں کو کامیابی کم ہوئی ہے یا وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں، انہیں بددل ہونے کی بجائے اور زیادہ ذوق و شوق سے کوشش کرنی چاہئیے۔ کامیابی یقینی ہے۔
ہمتِ مرداں مددِ خدا
ذہنی یک سوئی حاصل کرنے کے لئے تیسرا سبق یہ ہے:۔
داہنے ہاتھ کے انگوٹھے سے سیدھے ہاتھ کے نتھنے کو بند کر لیں اور بائیں نتھنے سے سات۷ سیکنڈ تک سانس کھینچ کر سیدھا نتھنا چھنگلیا سے بند کر لیں اور پندرہ ۱۵ سیکنڈ کے بعد الٹے نتھنے سے سات سیکنڈ تک سانس باہر نکالیں۔ یہ ایک چکر ہو گیا یعنی سات سیکنڈ سانس لینا، پندرہ سیکنڈ سانس روکنا اور ساتھ سیکنڈ باہر نکالنا۔ اسی طرح پندرہ مرتبہ اس عمل کع دہرایا جائے۔ یہ مشق بھی خالی معدہ، صبح سورج نکلنے سے پہلے اور رات کو سونے سے پہلے خالی پیٹ کرنی چاہئیے۔ مشق کرنے ولے تموم طلبا و طالبات کو ہدایت کی جاتی ہے کہ رات کا کھانا بہت ہلکا اور سرِ شام کھائیں۔ کھانے اوے سانس کی مشق کے درمیان کم سے کم تین گھنٹے کا وقفہ ہونا ضروری ہے۔
سانس کی اس مشق کے بعد آلتی پالتی ( گوتم بُدھ کی نشست) مار کر بیٹھیں جائیں یا اس طرح بیٹھیں کہ اعصاب ڈھیلے اور پر سکون رہیں۔ اب آنکھیں بند کر لیں اور یہ تصور کریں کہ ایک حوض ہے اور اس حوض میں پارہ (MERCURY) بھرا ہوا ہے اور آپ حوض میں پارہ کے اندر ڈوبے ہوئے ہیں۔ جب اس تصور میں گہرائی واقع ہو جاتی ہے تو پہلے پارے کا احساس مرتب ہوتا ہے اور جب یہ احساس گہرا ہوتا ہے تو دماغ پر پارے کا وزن محسوس ہوتا ہے۔ دماغ میں نقرئی لہریں پھلجڑی کی طرح پھوٹتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ جب آنکھوں سے یہ تصور قائم ہو جائی تو اس مشق کو کھلی آنکھوں سے کیا جائے اور دیکھا جائے کہ آپ خود اور یہ ساری دنیا پارے کے حوضکے اندر ڈوبی ہوئی ہے جب یہ بات مشاہدے میں آ جائے تو سمجھ لیجئے کہ اس مشق کی تکمیل ہو گئی ہے۔
نوٹ: مراقبہ لیٹ کر نہ کیا جائے کیوں کہ اس طرح نیند غالب آ جاتی ہے اور وہ کیفیات جو بیداری میں سامنے آنی چاہئیں خواب میں منتقل ہو جاتی ہیں ۔ اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ دماغ بیداری کی بجائے خواب دیکھنے کا عادی ہو جاتا ہے اور خواب مین دیکھی یوئی باتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ربط قائم رکھنا مشکل امر ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 116 تا 118
ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔