فکرِ سلیم
مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=45092
جاوید اختر، لاہور
سوال: آپ نے خیالات کے دو رُخ متعین کئے ہیں۔ ایک اسفل ، دوسرا اعلیٰ ۔ اعلیٰ خیالات کو اپ نے فکرِ سلیم کا نام دیا ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا فکرِ سلیم ہے۔ اور اسلام میں ٹیلی پیتھی کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ ٹیلی پیتھی دراصل ان علوم میں سے ایک علم ہے جو یورپ کے سائنس دانوں نے دوسرے ماورائی علوم سے اخذ کیا ہے۔ یہ بہت زیادہ پریشان کن بات ہے کہ آپ نے اسلام میں ٹیلی پیتھی کی پیوند کاری کی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ٹیلی پیتھی ایک ایسا علم بن گیا ہے جس کی اہمیت سے کسی کو انکار کی مجال نہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ٹیلی پیتھی سیکھنے والا کوئی فرد فکرِ سلیم بھی رکھتا ہو۔ یعنی وہ مسلمان ہو۔ کیا آپ کسی ایک ایسے وقعہ کی نشان دہی کر سکتے ہیں جو ہمارے اسلاف کے ساتھ پیش آیا ہو اور وہ ٹیلی پیتھی کے علم سے مطابقت رکھتا ہو؟ آپ سے نہایت درد مندانہ درخواست ہے کہ آپ اس علم کو اس اصلی شکل و صورت اور اس کی حقیقی ہیت میں پیش کریں تا کہ اسلام اور ٹیلی پیتھی میں امتیاز پرقرار رہے۔
جواب: جہاں تک فکرِ سلیم کا تعلق ہے اس کو کسی ایک قوم یا کسی ایک گروہ کی میراث قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فکرِ سلیم دراصل انسانی اقدار کا دوسرا نام ہے۔ اگر کسی غیر مسلم میں انسانی قدریں موجود ہیں تو اس کر بہر حال انسان کہا جائے گا۔ اور اگر کسی مسلمان میں انسانی قدریں نہیں ہیں تو وہ ہرگز انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ پارہ ۶، رکوع ۱۳، سورہ المائدہ کی آیت ۶۹ میں ارشاد فرماتے ہیں؛
البتہ جو مسلمان ہیں اور جو یہود ہیں اور صائبین اور نصاریٰ جو کوئی ایمان لائے اللہ پر اور یومِ آخرت پر اور عمل کرے نیک ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غم کھاویں ( ترجمہ شاہ عبدالقادر ) ۔
آیت مقدسہ میں یہ بات پوری طرح واضح کو دی گئی ہے کہ کسی قوم یا کسی فرد کا نیک عمل ضائع نہیں کیا جاتا۔ اس نیک عمل کا اجر اللہ تعالیٰ اآسے ضرور عطا کرتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس کا عمل خالصتاً اللہ کے لئے ہو۔ ایسا عمل جو اللہ کے لئے کیا جائے فکرِ سلیم کے دائرے میں آتا ہے۔ ہم نے فکرِسلیم کو ایک ایسی طرزِ فکر بتایا ہے جو انسان کو اس کی رُوھ سے قریب کرتی ہے۔ رُوح سے قریب ہونا اور رُوح کا عرفان حاصل ہونا ہی دراصل انسانیت ہے۔ تمام آسمانی صحائف نوعِ انسانی کو اسی طرزِ فکرکی دعوت دیتے ہیں۔
اس سوال کا جواب کہ اسلام میں ٹیلی پیتھی کا وجود نہیں ہے، یہ ہے کہ ٹیلی پیتھی دراصل نام ہی ایسے علم کا ہے جس کے ذریعے ایک بندہ اللہ کی مخلوق کے دلوں میں اپنے خیالات اور طرزِ فکر منتقل کرتا ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام کا مشن یہ رہا ہے کہ وہ اپنی اس طرزَ فکر کو جو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ِ خاص ودیعت ہوئی ہے، اللہ کی مخلوق کو اس سے فیض یاب کریں۔ اور ان کو شیطنیت سے مامون اور باغبانہ طرزِ زندگی سے نجات دلائیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ترغیب کی بجائے اس علم کو ٹیلی پیتھی کہہ جائے جس طرح خدا کو انگریزی میں GOD یا ہندی میں بھگوان کہا جاتا ہے۔
آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ کسی ایک واقعہ کی نشاندہی کر دی جائے جو اسلاف کے ساتھپیش آیا ہو اور وہ ٹیلی پیتھی سے مطابقت رکھتا ہو۔
تاج دارِ عالمِ سرورِ کائنات حضور ؑ جب ایک اونٹ کے قریب سے گزرے تو اونٹ کی آنکھوں میں دیکھ کر اس کے مالک سے ارشاد فرمایا کہ یہ اونٹ تیری شکایت کر رہا ہے کہ تو اس پر بوجھ پورا لادتا ہے لیکن اس کے خورد و نوش کا نتظام پورا نہیں کرتا۔
اسی طرح تاریخ اسلام میں حضرت عمر فاروقؓ کا یہ واقعہ سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے کہ ایران کی ایک جنگ کے دوران سپہ سالار اسلام حضرت ساریہ ؓ اپنے لشکر کو لے کر دشمن کے بہت قریب پہنچ گئے اور اس کا محاصرہ کر لیا۔ اس کے بعد دشمن نے امداد حاصل کر لی اور اس کی تعداد بہت بڑھ گئی ۔ اسی دوران حضرت عمرؓ جمعہ کا خطبہ دیتے کھڑے ہوئے تو آپ نے خطبہ دیتے ہوئے اچانک فرمایا ” اے لوگو! میں نے فریقین کو دیکھا ہے۔” اس کے بعد آپ نے دونوں لشکروں کا حال بیان کیا۔ پھر پکار کر فرمایا ” یا ساریۃ، الجبل الجبل” ( اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف چلے جاؤ۔” ) تاریخ شاہد ہے کہ ساریہ ؓ میدانِ جنگ میں حضرت عمر ؓ کی آواز سن کر پہاڑ کی طرف متوجہ ہوئے اور شکست سے محفوظ و مامون رہے۔
اس ضمن میں انبیائے کرام، اولیاء اللہ اور جینیس ( GENIUS) لوگوں کے سینکڑوں واقعات ایسے ہیں جو مثال کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں ۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 82 تا 84
ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔