ارتکازِ توجہ
مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=36706
شک اور یقین کا درمیانی فاصلہ ۱۰۰ سو سال پر مشتمل ہے اور ہر فاصلہ زیادہ سے زیادہ ایک ثانیہ کے برابر ہے۔ اللہ تعالی اس معمہ کو خود حل کر دیتا ہے ” لا ریب ہے یہ کتاب اور اس کو ہدایت دیتی ہے جس کا یقین غیب پر ہے۔” یہاں اللہ تعالی نے دو باتیں کہی ہیں ” لا ریب” کہہ کر ریب یعنی شک کی نفی کر دی ، اب صرف غیب باقی رہ گیا جس کو یقین کا درجہ حاصل ہے۔اس کو معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالی دماغ میں شک کو جگہ دینے کی اجازت نہیں دیتے۔ صرف یقین کو اس بات کی اجازت ہے کہ آدمی کے ذہن میں داخل ہو جائے۔ اسی کا نام ایمان بالغیب ہے جو ہدایت دیتا ہے۔ ہدایت کا منشا بہت اہم ہے۔ وہ یہ کہ کوئی چیز کسی آدمی نے خواہ نہ دیکھی ہو، نہ سمجھی ہو، نہ جانی ہو، نہ پہچانی ہو مگر اس پر یقین حاصل ہو۔ یہاں ہدایت کی ایک کائنات بن جاتی ہے۔ اور یہ سلسلہ آنکھوں کے سامنے سے آدمی کے چاروں طرف سے اُسے محیط کر لیتا ہے۔
مسلسل ارتکاز ِ توجہ اور مشق سے کسی ایک نقطہ پر خیالات کی روشنیاں اس حد تک مرکوز رہیں کہ شک اور بے یقینی کی روشنیوں کا درجہ حاصل کر لیں تو خیال اور ارادہ کے تحت اس کا مظہر بننا ضروری ہو جاتا ہے۔ حضرت علی شاہ کے واقعہ میں ارتکاز توجہ سے یقین کا عملی مظاہرہ آپ پڑھ چکے ہیں۔ اسی قسم کا ایک اور واقعہ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے۔
ایک نامی گرامی تاجر کی بیٹی جب پندرہ سولہ کے سن کو پہنچی تو اس کے ساتھ جمعرات کی رات کو عجیب واقعہ ہوا۔ وہ سو کر اٹھی تو اس کے ہاتھ مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔ جیسے ہی سورج نصف النہار کو پہنچا اس پر اچانک بے ہوشی کا دورہ پڑااور اس کے بعد سے ہر جمعرات کو وہ وقتِ مقرر پر بے ہوش ہونے لگی۔ ڈاکٹروں نے ہسٹریا کا علاج کیا لیکن جب کوئی فائدہ نہیں ہوا تو عامل حضرات کے پاس لے جایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ لڑکی کے اوپر جن یا آسیب کا اثر ہے۔ تعویز گنڈوں ، جھاڑو ، پھونک اور فلیتے جلانے سے بھی مقصد حاصل نہیں ہوا تو حاذق حکیموں سے رجوع کیا گیااور مسلسل چار سال تک علاج ہوتا رہا۔ پھر یہ ہونے لگا کہ جس روز لڑکی پر بےہوشیکا دورہ پڑتا اس روز وہ بہت خوش اور آسودہ نظر آتی۔ نیند سے بیدار ہو کر غسل کرتی، ریشمی جوڑا زیب تن کرتی، خوب بناؤ سنگھار کرتی، آنکھوں میں کاجل لگاتی اور چہرے پر غازہ ملتی۔ اس کے لباس سے بھینی بھینی خوشبو پھوٹتی رہتی اور حُسن ایسا نکھار آتا جو کسی نئی نویلی دلہن کے چہرے پر حیا اور آسودگی کی نشان دہی کرتاہے۔ جب کوئی اس اہتمام کا سبب پوچھتا تو حیا کی ایک سُرخی اس کے چہرے پر بکھر جاتی اور وہ زیرِ لب صرف اتنا بتاتی ” وہ آرہے ہیں ۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔سنگھار کے بعد وہ اپنے کمرے میں جاتی اور کمرے میں ہر چیز قرینے سے سجا کر بستر پر بیٹھ جاتی جیسے کسی کے انتظار میں ہو۔ ٹھیک سورج کے زوال کے وقت اس پر بے خودی کا دورہ پڑتا جو رات گئے تک جاری رہتا۔
ڈاکٹروں اور حکیموں کا ایک بورڈ بیٹھا اور سب نے متفقہ فیصلہ کر دیا کہ لڑکی کی شادی کر دی جائےتو ہسٹریا کے دورے ختم ہو جائیں گے۔ لڑکی کو جب معلوم ہوا تو اس نے شدید مخالفت کی۔ لیکن ماں نے اس کی مخالفت کی پرواہ نہیں کی اور خاندان کے ایک صحت مند نوجوان سے شادی کر دی گئی۔شادی کے دوسرے روز ہی لڑکی نے اپنے شوہر کو سخت و سُست کہہ کر اپنے کمرے سے باہر نکال دیا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر آئندہ اس کے پاس آنے کی جرات کی تو وہ اس کا راز فاش کر دے گی اور وہ خاندان میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ بڑے بڑے بوڑھوں نے صلح صفائی کی کوشش کی اور جب مسلے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا تو عزت بچانے کی خاطر عدالت سے رجوع رنا چاہا لیکن لڑکے نے ایسا کرنے سے روک دیا۔ اور بیوی کو طلاق دے دی۔ دونوں خاندانوں میں لڑائی جھگڑے کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔جب خاندان کے بوڑھے اکٹھے ہوئے اور لڑکے کو بلایا گیا تو اس نے کہا۔ ” سچ بات یہ ہے کہ اس کے سامنے جاتے ہی میری ساری طاقت سلب ہو جاتی ہے۔” لڑکے کے بیان کو سب نے غلط جانا اور اس پر لعن طعن کرنے لگے۔ بالآخر اس نے خود کشی کر لی۔
تاجر نے بہت کوشش کی کہ بیٹی کی دوسری شادی ہو جائے مگر جب کسی طرح بھی کامیابی نہیں ہوئی تو دوبارہ علاج کی طرف متوجہ ہوا۔ کسی دوست نے ایک حکیم صاحب کا تذکرہ کیا جو کئی سو میل کے فاصلے پر کسی گاؤں میں مطب کرتے تھے۔ خدا نے ان کے ہاتھ میں اتنی شفا رکھی تھی کہ دور دراز سے لوگ آتے تھے اور شفا یاب ہو کر جاتے تھے۔ وہ کسی سے کوئی معاوضہ بھی نہیں لیتے تھے۔
پروگرام یہ بنا کہ جمعہ کے دن مریضہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوں اور چار روز کے اندر مذکورہ گاؤں پہنچ جائیں گے تا کہ جمعرات کو بے ہوشی کا دورہ حکیم صاحب خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔
گاؤں پہنچے تو حکیم صاحب کے مطب کے سامنے مریضوں کا ہجوم تھا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا آج اور کل حکیم صاحب کمرے میں بند ہو کر عبادت کرتے ہیں اور وہ پرسوں جمعہ کے روز ملاقات کریں گے۔ دوسرے دن لڑکی کے اوپر معمول کے مطابق دَورہ پڑا اور رات گئے حالت سنبھلی۔
تاجر کو لوگوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حکیم صاحب نے ادھیڑ عمر ہونے کے باوجود شادی نہیں کی ہے۔ جب کوئی ان سے شادی کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہ ٹال جاتے ہیں۔ جب زیادہ اصرار ہوتا ہے تو کہتے ہیں میری شادی ہو چکی ہے۔ اور کمرہ میں لٹکے ہوئے ایک فوٹو کی جانب اشارہ کر کے کہتے ہیں یہ تصویر جو آپ دیکھ رہے ہیں میری بیوی کی تصویر ہے ۔ لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ بدھ اور جمعرات کو حکیم صاحب اپنے دوسرے کمرے میں اندر سے دروازہ بند کر کے عبادت کرتے ہیں۔ اور ان دو دنوں میں وہ کسی سے ملاقات نہیں کرتے۔ یہ بات اب ان کا معمول ہے۔
قصہ کوتاہ۔ تیسرے دن جمعہ کو تاجر صبح سویرے ہی قطار میں جا بیٹھا تا کہ جلدی سے جلدی باری آجائے۔ گھڑی نے آٹھ بجائے، پھر نو جبے لیکن دروازہ نہ کھلا۔ اب لوگوں نے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔لیکن کمرے کے اندر سے کوئی آواز سنائی نہیں دی۔اس طرح انتظار کرتے کرتے شام ہو گئی۔ لیکن دروازہ نہکھلنا تھا، نہ کھلا۔ یہ دیکھ کر حکیم صاحب کے گاؤں کے معزز لوگ جمع ہو گئے۔ہر شخص پریشان تھا کیوں کہ آٹھ سال میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ حکیم صاحب جمعہ کے دن بھی کمرہ بند کر کے عبادت کریں۔ جمعہ کے روز تو وہ نمازِ جمعہ با جماعت ادا کرنے کا خاص اہتمام کرتے تھے۔جب شام تک دروازہ نہ کھلا تو گاؤں والوں کو یقین ہو گیا کہ حکیم صاحب کمرے میں کسی حادثے کا شکار ہو گئے ہیں۔ آخر دروازہ توڑنے کا فیصلہ کیاگیا۔ پھر یہ خیال کر کے کہ شاید عبادت میں مصروف ہوں گے ایک دن مزید انتظار کیا گیا۔لوگ ہفتہ کے دن تالا توڑ کر اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ کمرہ خالی ہے۔ اور کمرے کا عقبی دروازہ کھلا ہوا ہے۔ کمرے کا سامان جوں کا توں موجود تھا۔ البتہ ان کی بیگم کی تصویر نیچے چاندنی کے فرش پر پڑی تھی۔ جب اسے اٹایا گیا تو نیچے سے لفافہ نکلا جس پر تحیر تھا کہ اس لفافہ کو ان صاحب کے سپرد کر دیا جائے جو صوبہ بہار سے اپنی لڑکی کو ساتھ لائے ہیں۔ تافر نے جب یہ لفافہ چاک کیا تو اندر سے ایک خط برآمد ہوا جس پر لکھا تھا۔” میں نے آپ کی لڑکی کو جمعہ کے دن طلاق دے دی ہے۔اب وہ کبھی بے ہوش نہیں ہو گی۔بہتر ہے آپ آج ہی پٹنہ لوٹ جائیں۔ یہاں کے قیام میں آپ کو پریشانی ہو گی۔ جاتے وقت اپنی صاحب زادی کی تصویر بھی لیتے جائیں۔” تصویر دیکھی تو ینہیں سخت حیرت ہوئی۔ یہ ان کی لڑکی کی تصویر تھی۔ گاؤں والے بھی حیران تھے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ ہر شخح ایک دوسرے سے سوال کرتا مگر جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ تاجر اپنی بیٹی کی تصویر اور بیٹی کو لے کےگھر لوٹ گئے۔ اس کے بعد ان کی بیٹی پر کبھی بے ہوشی کا دَورہ نہیں پڑا۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 40 تا 44
ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔