حضرت سلیمانؑ کا دربار
مکمل کتاب : ٹَیلی پَیتھی سیکھئے
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=36559
حضرت سلیمان علیہ السلام کے عظیم الشان اور بے مثال دربار میں انسانوں کے علاوہ جن اور حیوانات بھی درباری خدمات کے لئے حاضر رہتے تھے اور اپنے مراتب اور سپرد کردہ خدمات پر بے چون و چرا عمل کرتے تھے۔
دربار ِسلیمان پورے جاوہ حشم کے ساتھ منعقد تھا ۔ حضرت سلیمانؑ نے جائزہ لیا تو ہُد ہُد کوغیر حاضر پایا۔ ارشاد فرمایا۔
” میں ہُد ہُد کو موجود نہیں پاتا۔ کیا وہ واقعی غیر حاضر ہے؟ اگر اس کی غیر حاضری بے وجہ ہے تو میں اس کو سخت سزا دوں گا۔ یا اس کو ذبح کر ڈالوں گا۔ یا پھر وہ اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بتائے۔ ” ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ ہُد ہُد حاضر ہو گیا۔ اور حضرت سلیمانؑ کی باز پرس پر اس نے کہا۔
” میں ایک ایسی یقینی خبر لایا ہوں جس کی اطلاع آپ کو نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ یمن کے علاقے میں سبا کی ملکہ رہتی ہے اور خدا نے اسے سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کا تخت ِ سلطنت اپنی خوبیوں کے اعتبار سے عظیم الشان ہے۔ ملکہ اور اس کی قوم آفتاب پرست ہے۔ شیطان نے گمراہ کر دیا ہے اور وہ خدائے لا شریک کی پر ستش نہیں کرتے۔”
حضرت سلیمان ؑنے کہا۔
” تیرے سچ اور جھوٹ کا امتحان ابھی ہو جائے گا۔ تو اگر سچا ہے تو میرا یہ خط لے جا اور اس کو ان تک پہنچا دے اور انتظار کر کہ وہ اس کے متعلق کیا گفتگو کرتے ہیں ۔”
ہُد ہُد جب یہ خط لے کر پہنچا تو ملکہ سبا سُورج دیوتا کی پرستش کے لئے جا رہی تھی۔ ہُد ہُد نے راستہ ہی میں یہ خط ملکہ کے سامنے ڈال دیا۔جب یہ خط گرا تو ملکہ نے اُٹھا کر پڑھا اور پھر اپنے درباریوں سے کہا۔
“ابھی میرے پاس ایک مکتوب آیا ہے جس میں یہ درج ہے۔ یہ خط سلیمانؑ کی جانب سے اور اللہ کے نام سے شروع ہے جو بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔ تم کو ہم سے سر کشی اور سر بلندی کا اظہار نہیں کرنا چاہئیے اور تم میرے پاس خدا کے فرماں بردار بن کر آؤ۔”
ملکہ سبا نے خط کی عبارت پڑھ کر کہا۔ ” اے میرے ارکان ِ حکومت ! تم جانتے ہو کہ میں اہم معاملات میں تمہارے مشورے کے بغیر کبھی کوئی اقدام نہیں کرتی۔ اس لئے اب تم مشورہ دو کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔”
ارکانِ حکومت نے عرض کیا۔ ” جہاں تک مرعوب ہو نے کا تعلق ہے اس کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم زبردست طاقت اور جنگی قوت کے مالک ہیں۔ رہا مشورے کا معاملہ تو آپ جو چاہیں فیصلہ کریں، ہم آپ کے فرماں بردار ہیں۔”
ملکہ نے کہا۔” جس عجیب طریقے سے سلیمان کا پیغام ہم تک پہنچا ہے وہ ہمیں اس بات کا سبق دیتا ہے کہ سلیمان کے معاملہ میں سوچ سمجھ کے کوئی قدم اٹھایا جائے۔ میرا ارادہ یہ ہے کہ چند قاصد روانہ نہ کروں اور وہ سلیمان ؑکے لئے عمدہ اور بیش قیمت تحائف لے جائیں۔”
جب ملکہ سبا کے قاصد تحائف لے کر حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا۔ ” تم اپنے ہدایا واپس لے جاؤ اور اپنی ملکہ سے کہو اگر اس نے میرے پیغام کی تعمیل نہیں کی تو میں ایسے عظیم الشان لشکر کے ساتھ سبا والوں تک پہنچوں گا کہ تم اس کی مدافعت اور مقابلہ سے عاجز رہو گے۔ اور پھر میں تم کو ذلیل اور رسوا کر کے شہر ِ بد کر دوں گا۔”
قاصد نے واپس آکر ملکہ سبا کے سامنے تمام صورت ِ حال بیان کی اور حضرت سلیمانؑ کی عظمت و شوکت کا جو حال دیکھا تھا حرف بہ حرف کہہ سنایا اور بتایا کہ ان کی حکومت صرف انسانوں پر نہیں بلکہ جن اور حیوانات بھی ان کے تابعِ فرمان اور مسخر ہیں۔
ملکہ نے جب یہ سنا تو طے کر لیا کہ بہتر یہی ہے کہ ان کی آواز پر لبیک کہا جائے لہذا اس نے سفر شروع کر دیا اور حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں روانہ ہو گئی۔
حضرت سلیمانؑ کو معلوم ہو گیا کہ ملکہ سبا حاضرِ خدمت ہو رہی ہے۔ آپ نے اپنے درباریوں کو مخاطب کر کے کہا” میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا کے یہاں پہنچنے سے پہلے اس کا تخت ِ شاہی اس دربار میں موجود ہو۔”
ایک دیو ہیکل جن نے کہا ۔” آپ کا دربار برخاست کرنے سے پہلے ہی میں تخت لا سکتا ہوں۔”
جن کا یہ دعوی سُن کر ایک انسان نے جس کے پاس کتاب کاعلم تھا، یہ کہا، ” اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکنے میں یہ تخت آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں۔”
حضرت سلیمانؑ نے رُخ پھیر کر دیکھا تو دربار میں ملکہ سبا کا تخت موجود تھا۔
ٹائم اسپیس کی حد بندیوں میں جکڑے ہوئے شعور کے لئے یہ امر قابلِ غور ہے کہ سینکڑوں میل کی مسافت طے کر کے ملکہ سبا کا تخت شاہی خیال کی رفتار سے، پلک جھپکتے حضرت سلیمانؑ کے دربار میں پہنچ گیا۔ یعنی بندہ کے خیال کی لہریں تخت کے اندر کام کرنے والی لہروں میں جذب ہو کر تخت کو منتقل کرنے کا ذریعہ بن گئیں۔
انسانوں کے درمیان ابتدائے آفرنیش سے بات کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ آواز کی لہریں جن کے معنی معین کر لئے جاتے ہیں سننے والوں کو مطلع کرتی ہیں۔ یہ طریقہ اس یہ تبادلہ خیال کی نقل ہے جو اَنَا کی لہروں کے درمیان ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی اپنے ہونٹوں کی خفیف سی جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی پہلے طریقے کا عکس ہے۔ جانور آواز کے بغیرایک دوسرے کو اپنے حال سے مطلع کر دیتے ہیں۔ یہاں بھی اَ نَا کہ لہریں خیالات کی منتقلی کا کام کرتی ہیں۔ درخت آپس میں گفتگو کرتے ہیں ۔ یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درختوں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ دُور دَراز ایسے درختوں میں بھی ہوتی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں ۔ یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے۔ کنکروں، پتھروں، مٹی کے ذروں میں من و عن اسی طرح تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
روحانی طاقت رکھنے والے انسانوں کے کتنے ہی واقعات اس کے مشاہد ہیں۔ ساری کائنات میں ایک ہی شعور کا ر فرما ہے۔ اس کے ذریعے غیب و شہود کی ہر لہر دوسری کے معنی سمجھتی ہے، چاہے یہ دونوں لہریں کائنات کے دو کناروںپر واقع ہوں ۔ غیب و شہود کی فراست و معنویت کائنات کی رگِ جاں خود ہماری اپنی رگِ جاں بھی ہے۔ تفکر اور توجہ کر کے ہم اپنے سیارے اور دوسرے سیاروں کے آثار و احوال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اور انسانوں، حٰیوانوں، جنات اور فرشتوں کی حرکات و سکنات، نباتات اور جمادات کی اندرونی تحریکات بھی معلوم کر سکتے ہیں۔ مسلسل مشق اور ارتکاز توجہ سے ذہن کائناتی لا شعور میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ اور ہمارے سراپا کا معین پرت اَنَا کی گرفت سے آزاد ہو کر ضرورت کے مطابق ہر چیز دیکھتا ، سمجھتا اور شعور میں محفوظ کر دیتا ہے۔
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 24 تا 27
ٹَیلی پَیتھی سیکھئے کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔