موت کی حقیقت

مکمل کتاب : وقت؟

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19821

ایک بادشاہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ اپنے سپہ سالاروں اور غلاموں کے جلوس میں نہایت قیمتی کپڑے اور بہترین گھوڑے پر سوار ہو کر محل سے باہر نکلا تو یکایک اس کے سامنے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک بوڑھا آ گیا اور آداب بجا لایا مگر مغرور بادشاہ نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ بوڑھے نے بادشاہ کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر چلتے گھوڑے کو روک دیا اور بادشاہ سے کہا: ’’مجھے کچھ آپ سے عرض کرنا ہے۔ ‘‘
بادشاہ غرور کے ساتھ بولا: ’’بات کرنے کا یہ کونسا طریقہ ہے۔ جلوس ختم ہونے کا انتظار کر۔ ‘‘
بوڑھے نے کہا:’’مجھے جو کچھ کہنا ہے اس کے لئے میں انتظار نہیں کر سکتا ‘‘
بوڑھے کے لہجہ میں ایسا رعب تھا کہ بادشاہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے کہا: ’’بولو! کیا بولتے ہو؟‘‘
بوڑھے نے کہا:’’جو بات میں تم سے کہنا چاہتا ہوں وہ کسی اور کو معلوم نہیں ہونا چاہئے ‘‘
بادشاہ نے سرہلا کر رضامندی ظاہر کی۔ بوڑھے نے سرگوشی کے انداز میں کہا…… اے مغرور بادشاہ! میں ملک الموت ہوں ‘‘
بادشاہ کے اوپر جیسے سکتہ طاری ہو گیا اور اس نے منت سماجت شروع کر دی۔ رو کر کہا…… ’’مجھے تھوڑی دیر کی مہلت دے دو تا کہ میں بیوی بچوں کو آخری مرتبہ دیکھ لوں۔ ‘‘
بوڑھا بولا…… ’’ایک لمحہ کی مہلت نہیں دی جائے گی۔ اب تم کسی بھی طرح بیوی بچوں کو نہیں دیکھ سکو گے کیونکہ تمہاری عمر کا صرف ایک لمحہ باقی رہ گیا ہے…… ‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے بادشاہ کو ہچکی آئی اور گھوڑے پر سے زمین پر گر پڑا۔
اس کے بعد ملک الموت ایک مومن آدمی کے پاس گیا۔ جا کر مومن بندے کو سلام کیا اور کہا…… ’’مجھے آپ سے ایک راز کی بات کرنی ہے۔ ‘‘
مومن آدمی نے خوش دلی کے ساتھ کہا’’بتاؤ! میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
بوڑھے آدمی نے کہا:’’میں ملک الموت ہوں۔ آپ کے پاس سلام کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ ‘‘
مومن آدمی نے کہا…… ’’الحمداللہ! تم آ گئے۔ میں عرصہ سے تمہارا انتظار کر رہا تھا کہ تم آؤ اور میں اپنے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل کر سکوں۔ ‘‘
ملک الموت نے عرض کیا……
’’آپ مجھے بتائیں کہ میں کس طرح آپ کی روح آپ کے جسم سے الگ کر کے لے جاؤں؟‘‘
مومن بندے نے کہا:’’مجھے اتنی مہلت دو کہ میں وضو کر کے سجدے میں اللہ تعالیٰ کے حضور چلا جاؤں تم میری روح نکال لو۔ ‘‘
عزرائیل ؑ نے ایسا ہی کیا اور مومن بندے کی روح اللہ کی بارگاہ میں حاضر کر دی۔

*****

ایک آدمی زندگی بھر مال و دولت جمع کرتا رہا…… بے انتہا زر و جواہر جمع کر کے اس نے ایک عالیشان محل بنایا۔ محل کے آہنی دروازے پر دو طاقتور دربان مقرر کئے…… ایک دن دولت مند آدمی کو خیال آیا…… کہ عزیز رشتہ داروں اور دوست احباب کو اپنی شان و شوکت دکھانی چاہئے۔ اس نے سب کو پرتکلف کھانے پربلایا…… اور مجلس میں خود زربُفت کے گول تکیہ سے کمر لگا کر بیٹھ گیا۔ لوگ جمع ہو گئے۔ انواع و اقسام کے کھانے دسترخوان پر چنے ہوئے تھے۔ لذیذ اور مرغن غذائیں لوگ کھانے میں مصروف تھے کہ ایک فقیر دروازے پر آیا…… اور دستک دی۔
پتہ نہیں کس قسم کی دستک تھی کہ لگا زلزلہ آ گیا ہے…… دروازے بجنے لگے…… دیواریں ہلنے لگیں اور حاضرین کے دل دہل گئے۔ دروازے پر کھڑے طاقت ور دربانوں نے گرج دار آواز میں فقیر کو ڈانٹا اور کہا…… ’’صبر کر! ہم تجھے بھی کھانے کو دیں گے۔ ‘‘
فقیر درویش نے کہا ’’اپنے مالک سے کہو کہ مجھے اس سے ایک ضروری کام ہے…… ‘‘
بہت دیر بعد ایک دربان نے مالک کو خبر دی کہ ایک درویش آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ ‘‘
امیر کو یہ بات بہت ناپسند ہوئی…… اس نے دربان کو ڈانٹ کر کہا’’یہ کیا بدتمیزی ہے۔ جاؤ اسے کچھ دے دلا کر واپس کر دو۔ ‘‘
دربان جب واپس آیا تو درویش جلال میں آ گیا اور اس نے کہا…… ’’اپنے مالک سے کہہ دے…… میں ملک الموت ہوں۔ ‘‘
یہ سن کر ڈائننگ ہال میں موجود تمام لوگ خوفزدہ ہو گئے۔ ہاتھوں میں لرزہ آ گیا اور پیر ٹھنڈے پڑ گئے۔ امیر نے کہا’’کیا تمہارے لئے میرا کوئی بدل ہو سکتا ہے؟‘‘
درویش بولا…… ’’نہیں!‘‘
امیر نے اپنی ساری دولت، سونے کے جواہرات، نقدی چاندی کے زیورات، طلائی برتن، ہیروں جڑی انگوٹھیاں سب جمع کر دیں اور کہا یہ سب لے جاؤ……
درویش نے کہا’’یہ دولت تیری دشمن ہے۔ تیرے ساتھ نہ پہلے اس نے وفا کی ہے نہ اب کرے گی۔ ‘‘
امیر نے بڑی حسرت سے دولت کی طرف دیکھا اور کہا…… ’’اے دولت! تم نے مجھے دھوکا دیا۔ میں سمجھتا تھا کہ تو میری ساتھی ہے۔ میرے کام آئے گی…… لیکن آج یہ حقیقت کھلی کہ تو میرے لئے حسرت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میں تجھے چھوڑے جا رہا ہوں اور تیرے اوپر لعنت بھیجتا ہوں۔ ‘‘
دولت کو اللہ تعالیٰ نے زبان عطا کی اور دولت گویا ہوئی:
’’میرے اوپر کیوں لعنت بھیجتا ہے…… اپنے اوپر لعنت بھیج…… میں تو تیرے پاس اس لئے آئی تھی کہ تو میرے ذریعہ آخرت کا سامان جمع کرے…… غریبوں کو خیرات دے…… مساجد اور پل تعمیر کرے…… لیکن…… تو نے مجھے اپنے خزانے میں قید کر دیا…… مجھے جمع کرتا رہا اور اللہ تعالیٰ کیلئے ایک پیسہ خرچ نہیں کیا…… جو بھی کچھ خرچ کیا اپنے اوپر خرچ کیا…… ‘‘
ابھی دولت امیر کو لعن طعن کر ہی رہی تھی کہ امیر آدمی سر کے بل تخت سے نیچے گرا اور مر گیا۔

*****

حضرت عزرائیلؑ ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس آئے اور کئی مرتبہ ان کے مصاحب کو گھور کر دیکھا۔ حضرت عزرائیلؑ کے جانے کے بعد مصاحب نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے پوچھا’’یہ کون شخص تھا…… مجھے گھور کر کیوں دیکھ رہا تھا۔ ‘‘ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جواب دیا’’یہ شخص ملک الموت تھا۔ ‘‘ مصاحب نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے عرض کیا’’مجھے خوف آ رہا ہے کہ ملک الموت مجھے لے جائے گا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی طاقت دی ہے۔ ہوا پر آپ کی حکمرانی ہے۔ آپ ہوا کو حکم دیں کہ مجھے اڑا کر ہندوستان لے جائے تا کہ میں ملک الموت کی دسترس سے بچ سکوں ‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیا ہوا نے مصاحب کو اڑایا اور ہندوستان پہنچا دیا…… تھوڑی دیر کے بعد حضرت عزرائیلؑ پھر آ گئے اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ ’’تم اس آدمی کی طرف بار بار گھور کر کیوں دیکھ رہے تھے؟‘‘
حضرت عزرائیلؑ نے عرض کیا…… ’’مجھے حکم تھا کہ اس بندے کی روح میں ہندوستان میں قبض کروں۔ میں تردد میں تھا کہ ہندوستان تو یہاں سے بہت دور ہے۔ یہ بندہ وہاں کیسے پہنچے گا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے ہوا کو حکم دیا…… اس بندے کو ہوا ہندوستان لے گئی۔ میں اس کے تعاقب میں ہندوستان پہنچا اور وہاں میں نے اس کی روح قبض کر لی……

*****

شداد نے پہلے خدائی کا دعویٰ کیا اور پھر جنت کی تعمیر شروع کر دی…… حیرت اس بات پر ہے کہ شداد کو کبھی خیال نہیں آیا کہ اس کی پیدائش کس طرح ہوئی…… ؟ نو مہینے ماں کے پیٹ میں اس نے کون سی غذا حاصل کر کے نشوونما پائی؟ پیدائش کے بعد خون کی بدلی ہوئی صورت ماں کا دودھ پیتا رہا اور خدائی کا دعویٰ کرتے وقت اسے یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ ہر وقت اس کے پیٹ میں دوڈھائی سیر پاخانہ بھرا رہتا ہے…… پیشاب کی حاجت اسے ہوتی ہے…… پسینہ سے اس کے بدبو آتی ہے…… نہا کر بالوں کو کنگھی نہ کرے تو کوئی اس کے قریب نہیں بیٹھ سکتا۔ بہرحال اس ظالم اور جاہل اور ناشکرے انسان نے پہلے خدائی کا دعویٰ کیا…… اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے خود کو سجدہ کرایا…… اور ان لوگوں کے لئے جن سے وہ خوش تھا۔ جنت بنانا…… شروع کر دی۔
جنت بناتے وقت اسے خیال آیا…… ہو سکتا ہے کہ میں جنت دیکھ ہی نہ سکوں۔ جنت کی تعمیر پوری ہونے سے پہلے مر جاؤں تو اس نے محل سے نکل کر جنگل کی راہ لی۔ وہاں شاہی لباس اور قیمتی زیورات اتار کر معمولی کپڑے زیب تن کئے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑایا…… عاجزی اور انکساری سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کی ’’یا اللہ! میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ میری موت میرے چاہنے کے مطابق آئے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ بڑے ہیں…… اور بہت بڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’مانگ! کیا مانگتا ہے ‘‘
شداد نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا…… ’’میری موت اس طرح آئے کہ میں نہ بیٹھا ہوں، نہ کھڑا ہوں، نہ لیٹا ہوں، نہ چل رہا ہوں، نہ گھر میں ہوں، نہ باہر ہوں، نہ دروازے پر ہوں، نہ اندر ہوں، نہ خلا میں ہوں، نہ زمین پر ہوں، نہ میں سواری پر ہوں…… ‘‘
غرض یہ کہ اس نے اپنی دانست میں وہ تمام باتیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دیں جس سے اس کو یہ یقین ہو گیا کہ اب میں مر نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ باتیں قبول فرما لیں۔ شداد بڑا خوش ہوا کہ اب میں کبھی مر ہی نہیں سکتا۔ زیادہ سے زیادہ میرے بندے ہونگے…… میں ان کا خدا ہوں گا۔ جس طرح چاہوں گا لوگوں پر حکم چلاؤں گا۔ جسے چاہوں گا قتل کر دوں گا۔ جسے چاہوں گا جنت میں بھیج دوں گا……
قصہ کوتاہ…… جنت تیار ہو گئی اور جنت کے معائنہ کے لئے ایک دن مقرر ہو گیا…… دبدبے اور پوری شان و شوکت سے حشم و خدم، فوج اور درباریوں کے ساتھ جنت دیکھنے کے لئے گھوڑے پر سوار شداد صاحب خراماں خراماں محل سے باہر آئے…… جنت کے دروازے میں ابھی گھوڑے نے اگلے دو پیر رکھے ہی تھے کہ گھوڑا اڑیل ٹٹو بن گیا۔ اسے جب مارا پیٹا گیا، لگام کھینچی تو گھوڑا منہ زور ہو گیا اور دو ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا۔ جب اس بات کا خطرہ پیدا ہوا کہ شداد گر کر مر جائے گا تو رائے یہ ہوئی کہ شداد کو گھوڑے پر سے اتار لیا جائے۔ غلام آگے بڑھے اور شداد نے رکاب سے پیر نکالا اور پیر غلاموں کے ہاتھوں پر رکھا۔ ایک پیر غلاموں کے ہاتھوں پر رکھا دوسرا پیر رکاب میں تھا کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کر لی……
یہ سب کچھ ہوا تو ملک الموت کو رحم آیا…… اور ملک الموت نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا ’’یا اللہ! آپ بڑے ہیں…… کائنات سے بھی بڑے ہیں…… سب سے ہی بڑے ہیں…… اگر آپ اس کو جنت دیکھنے دیتے تو یہ حسرت میں نہ مرتا۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’تو جانتا ہے یہ کون ہے…… ؟ اور دیکھ زمین پردیکھ ‘‘
ملک الموت نے دیکھا…… کہ پانی کا ایک بڑا جہاز ہے۔ اس جہاز میں دریائی قزاق چڑھ دوڑے۔ انہوں نے وہاں لوٹ مار کی۔ اس لوٹ مار میں اور شور و غوغا میں جہاز کا توازن برقرار نہیں رہا اور مسافروں اور ڈاکوؤں سمیت جہاز پانی میں غرق ہو گیا…… جہاز میں ایک نوزائیدہ بچہ بھی تھا…… اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے کہا ’’اس بچے کو تختہ پر لٹا کر سمندر میں چھوڑ دو…… ‘‘ ملک الموت نے حکم کی تعمیل کی لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ یہ بچہ کیسے محفوظ رہے گا…… ؟
اللہ تعالیٰ نے کہا ’’یہ وہی بچہ ہے جس کے بارے میں تجھے خیال آیا تھا کہ یہ کس طرح زندہ رہے گا؟ ہم نے اس کی حفاظت کی۔ اس کی پرورش کی۔ اس کو طاقت دی اور اس نے خدائی کا دعویٰ کر کے جنت بنا لی اور دعا مانگی کہ اس کی موت نہ آئے۔ اس نے ہمارے ساتھ مکر کیا۔ ‘‘

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
ذرّات میں شاہوں کا سراپا ہے یہ
اک معرکۂ اجل کی دنیا ہے یہ
اڑتی ہے جو گرد پاؤں کی ٹھوکر سے
خاکستر اسکندر و دارا ہے یہ
*****
دس لاکھ برس جو چل چکا ہے وہ بھی
کل جس نے کہ آغاز کیا ہے وہ بھی
یہ راہِ فنا ہے سب اس میں ہیں ہمراہ
پہلے جو چلا ہے اب جو چلا ہے وہ بھی
*****
کہتا ہے کوئی غمزدگی اچھی ہے
کہتا ہے کوئی کہ بے خودی اچھی ہے
اک آن میں کر دیتی ہے کُل قصہ پاک
میں کہتا ہوں سب سے موت ہی اچھی ہے
*****

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 229 تا 234

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)