فقیر کی بات
مکمل کتاب : وقت؟
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19817
ہر انسان یہ بات جانتا ہے کہ آدم زاد نشیب و فراز میں زندگی گزارتا ہے۔ نشیب و فراز سے مراد…… پُرمسرت زندگی اور رنج و الم کی کیفیات ہیں۔ جس طرح ایک آدمی شاداں و فرحاں اور پریشان کُن جذبات و احساسات کا مرکب ہے اسی طرح چیونٹی کے اندر بھی تلاش اور اضطراب موجود ہے۔ معاش کے حصول کے لئے جس طرح آدم جدوجہد کرتا ہے اسی طرح مکھی بھی جدوجہد کرتی ہے۔
’’اگر کچھ چھین لے ان سے مکھی، چھڑا نہ سکیں وہ اس سے۔ ‘‘
(سورۃ الحج۔ آیت 73)
آدم کی طرح…… پرندے، چرندے، درندے اور اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوق بھی اپنی اولاد کی تربیت میں سرگرداں رہتی ہے۔ شیر اپنے بچے کو معاش حاصل کرنے کے لئے وہ تمام گُر بتا دیتا ہے جو اس کی زندگی کے لئے ضروری ہیں۔
ہر نوع اپنی ضروریات اور تقاضوں سے آگاہ ہے۔
کیا کبھی آپ نے دیکھا ہے……
بھینس نے بچھڑے کو جنم دیا ہو۔
کسی کبوتر نے اپنے بچے کے علاوہ چونگا چوزے کے منہ میں ڈالا ہو۔
اونٹ، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں شامل ہو گیا ہو۔
مور کے پر کوؤں پر نمودار ہو گئے ہوں۔
آدمی پیدا ہوتا ہے…… روزی کماتا ہے۔ گھر بناتا ہے…… شادی کرتا ہے۔ بچوں کی پرورش کرتا ہے…… یہ سب کام دوسری مخلوق بھی کرتی ہے۔ دو مرغ آپس میں لڑتے ہیں۔ ہر ایک اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے خونم خون ہو جاتا ہے۔ بلی کو سردی لگتی ہے تو آدمی بھی سردی سے کپکپاتا ہے۔
کائنات میں موجود ہر شئے متحرک ہے اور حرکت شعور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کو سونپنا چاہا تو آسمانوں۔ زمین اور پہاڑوں نے معذرت پیش کر دی…… کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آسمان، زمین اور پہاڑ انکار یا اقرار کا شعور رکھتے ہیں اور جب شعور رکھتے ہیں تو مسلسل حرکت میں ہیں۔ نشوونما کے دور سے گزر رہے ہیں۔ جوانی اور بڑھاپے میں داخل ہو رہے ہیں۔
’’تم دیکھتے ہو…… پہاڑ جمے ہوئے ہیں حالانکہ بادلوں کی طرح اُڑ رہے ہیں۔ ‘‘
(سورۃ النمل۔ آیت 88)
انکار یا اقرار میں یہ راز مخفی ہے کہ یہ دونوں باتیں شعور میں اس وقت آتی ہیں جب آواز سُنی جائے…… سوچ کر فیصلہ کیا جائے۔ کسی چیز کو رد کیا جائے یا قبول کیا جائے۔ یعنی جس طرح آدمی سنتا ہے پتھر بھی سنتا ہے۔ جس طرح آدمی سوچتا ہے درخت بھی سوچتا ہے۔ جس طرح آدمی بولتا ہے زمین کے ذرات بھی بولتے ہیں۔
ذرا غور تو کیجئے!
جب پتھر بول سکتا ہے…… سن سکتا ہے…… اپنی ہستی کے بارے میں اسے علم ہے کہ میرے اندر کتنی سکت اور صلاحیت ہے…… وہ اپنے بارے میں صحیح اندازے بھی رکھتا ہے…… تو پھر انسان پتھر سے کس طرح اشرف ہوا؟
’’ہماری امانت کو انسان نے قبول کر لیا، بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے۔ ‘‘
(سورۃ الاحزاب۔ آیت 72)
اس کا مفہوم یہ ہوا کہ سماوات، ارض اور جبال ظالم اور جاہل نہیں ہیں۔ انسان ظالم اور جاہل ہے۔ اس لئے ظالم اور جاہل ہے کہ اس نے سوچے سمجھے بغیر کہ میں اس امانت کی ذمہ داری پوری کر سکتا ہوں یا نہیں…… امانت ارضی و سماوی کو قبول کر لیا۔
اشرف المخلوقات کے دائرے میں کوئی انسان اس وقت داخل ہوتا ہے، جب امانت اور اس کی حکمت سے باخبر ہو۔ اگر امانت سے بے خبر ہے تو اس کی حیثیت دوسری مخلوق سے برتر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی نیابت اور خلافت کا تذکرہ امانت کے نام سے کیا ہے یعنی خلافت اور نیابت سے متعلق ایسے علوم جن میں کائنات کو تسخیر کرنے کے فارمولے ہیں۔
امانت کی صحیح تعریف یہ ہے کہ آدمی ذہنی اعتبار سے یہ تسلیم کر لے کہ امانت میری ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ امانت میں اجازت سے تصرف تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بات ذہن میں رہتی ہے کہ فلاں چیز کس کی دی ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی امانت قبول کر کے اس کی حفاظت نہ کرنا اور اس سے فائدہ نہ اٹھانا کفرانِ نعمت ہے…… کفران نعمت ناشکری ہے…… جو بندہ شکرگزار نہیں ہوتا سکون اس سے روٹھ جاتا ہے۔ مصائب و آلام اس کا گھیراؤ کر لیتے ہیں۔ آدمی قید و بند کی زندگی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتا ہے…… فیضانِ قدرت سے محروم رہتا ہے۔
ایک گھر ہے…… اس میں ایک کمرہ ہے…… کمرے میں بڑی الماری ہے۔ الماری میں زر و جواہر بھرے ہوئے ہیں…… گھر کا مکین نہ تو کمرے میں جاتا ہے اور نہ ہی الماری کھول کر زر و جواہر سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ نامرادی، افلاس اور بدحالی ایسے فرد کا مقدر بن جاتی ہے۔
آج کے دور میں نوع انسانی کا ہر فرد…… نامراد ہے۔ بدحالی بے سکونی اور Tentionمیں مبتلا اس لئے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے خزانوں سے بے بہرہ ہے۔ گھر میں موجود خزانوں کو ہاتھ نہیں لگاتا لیکن کشکول گدائی لے کر گلی گلی بھیک مانگتا پھرتا ہے…… جبکہ وسائل انسان کیلئے تخلیق کئے گئے ہیں۔
اے دوستوں!
غور کرو…… کچھ عقل سے کام لو!
اس وقت دنیا کی انسانی آبادی چھ ارب ہے۔ چھ ارب انسان صبح ناشتہ کرتے ہیں۔ دوپہر لنچ کھاتے ہیں، رات کو ڈنر کرتے ہیں…… اورجو جی چاہتا ہے کھاتے پیتے ہیں۔
اے انسانی برادری!
صرف دنیا کے حساب کتاب میں ہر وقت مصروف رہنے والی دنیا کے باسیو!
فقیر کی بات سنو! اس پر دھیان دو!
’’ہر روز اللہ تعالیٰ کے دسترخوان پر…… اپنی پسند سے اٹھارہ ارب آدمی کھانا کھاتے ہیں…… اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری و ساری ہے اور قیامت تک یونہی جاری رہے گا…… ‘‘
اللہ تعالیٰ وہ ہے جو بے حساب رزق دیتا ہے……
اِن اللّٰہ یرزق من یشآءُ بغیرِ حسابo
’’بے شک اللہ تعالیٰ جسے چاہے بے شمار روزی دے۔ ‘‘
(سورۃ آل عمران۔ آیت 37)
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 225 تا 227
وقت؟ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔