منطقی عقل اور فلسفہ
مکمل کتاب : وقت؟
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19801
اسے اتفاق سمجھئے یا اس کے پیچھے کوئی حکمت ہے اور اس حکمت کے پس پردہ کوئی نظام ہے…… ہم چار دوست ایک محلے میں پیدا ہوئے…… ہم چاروں کے گھر بھی ایک ہی گلی میں گلی کے نکڑ پر…… گلی کے وسط میں…… یا گلی کے آخر میں ہیں……
ہم چاروں دوست ایک ہی اسکول میں داخل ہوئے…… اور کیسی عجیب بات ہے کہ چاروں میں سے کبھی کوئی ایک دوست فیل نہیں ہوا…… اور اس طرح ہائی اسکول کی تعلیم پوری ہو گئی۔ ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد ہم چاروں دوستوں نے الگ الگ کالج میں داخلہ لے لیا۔ کالج کی چھٹیوں میں ہالی ڈے کا پروگرام بنا…… اور ہم کشمیر کے برف پوش پہاڑوں میں سیر کیلئے نکل گئے……
وہاں ہم نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کیا…… رات کو ٹھنڈی یخ ہواؤں میں ہیٹر لگا کر سو جاتے تھے اور صبح ناشتہ کرنے کے بعد پہاڑوں کی سیر کیلئے چلے جاتے تھے…… اور سارے دن قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے رہتے تھے۔
ایک روز چلتے چلتے اتنی دور نکل گئے کہ رات کو ہوٹل میں واپس آنا ممکن نہیں رہا…… پریشانی کے عالم میں بہت اونچے پہاڑ پر بنے ہوئے ایک مکان کے دروازے پر دستک دی…… ایک نہایت خوبصورت خاتون نے دروازہ کھولا…… ہم نے بہت ادب کے ساتھ انہیں امّاں کہہ کر سلام کیا…… امّاں نے ہمارے سروں پر دستِ شفقت رکھا…… جب ہم نے اپنی پریشانی بیان کی کہ ہم اب ہوٹل واپس نہیں جا سکتے…… تو امّاں نے ہمیں گھر میں بلا لیا…… اور ہماری بہت زیادہ خاطر مدارت کی…… ہم چاروں امّاں کے پاس بیٹھ گئے…… امّاں نے ہم سب کے بارے میں پوچھا……
تمہارا نام کیا ہے؟……
والدین کہاں رہتے ہیں؟……
بہن بھائی کتنے ہیں؟……
کیا کرتے ہیں؟……
ہر شخص نے اپنے بارے میں جو کچھ وہ بیان کر سکتا تھا، بتا دیا……
ہم میں سے ایک دوست نے کہا کہ…… میں فلسفہ پڑھتا ہوں……
بس یہاں سے ہی بات کا رخ بدل گیا…… اور بات فلسفے سے چل کر عقل پر پہنچ گئی……
ہمارے دوست نے منطق اور فلسفے کے بارے میں اتنا کچھ کہا…… ہم حیران ہو گئے…… ہمارے دوست کو اتنی زیادہ معلومات ہیں کہ مسلسل پون گھنٹے تک امّاں سے وہ گفتگو کرتا رہا……
امّاں نے دوست سے کہا…… کہ یہ جتنی باتیں تم نے کہیں ہیں بقول تمہارے ’’عقل سے کی ہیں!‘‘…… سوال یہ ہے کہ عقل کا کہیں وجود ہے؟…… اور اگر کہیں عقل ہے…… تو اس کی تعریف کیا ہے؟……
امّاں!…… بہت خوبصورت خاتون تھیں……
بڑی بڑی آنکھیں…… کھلی پیشانی…… چہرہ گلنار…… نہایت شاندار اور پروقار سراپا…… خوش مقال…… شیریں گفتار…… امّاں اٹھیں اور انہوں نے مدھم پڑنے والی آگ کو روشن کیا…… اس وقت ہم محسوس کر رہے تھے کہ ہمارے جسم میں ٹھنڈ رفتہ رفتہ سرائیت کر رہی ہے…… آگ روشن کرنے کے بعد ہم سب نے ایک ایک پیالی یخنی پی…… جس سے ہمارے خون میں گرمی آ گئی اور بہت زیادہ سردی کا احساس نارمل ہو گیا……
فلسفہ اور منطق کی مسلسل بحث نے نیند اڑا دی تھی…… اور جب یہ سنا کہ عقل کا کہیں وجود نہیں ہے…… تو ایسا لگا جیسے ہمارے دماغ سُن ہو گئے ہوں……
ہم میں سے ایک نے سوال کیا…… امّاں!…… کیا عقل نہیں ہے؟…… اور اگر عقل نہیں ہے تو یہ دنیا میں جو بڑے بڑے کام ہو رہے ہیں ان میں تعمیر بھی ہے اور تخریب بھی ہے…… یہ کیسے ہو رہے ہیں؟…… ہم چاروں دوست امّاں کی طرف متوجہ ہو کر اس طرح بیٹھ گئے جیسے ہم ان کے پوتے نواسے ہیں…… امّاں ہماری دادی نانی ہیں اور وہ ہمیں کہانی سنا رہی ہیں……
امّاں کے چہرے پر شگفتگی تو پہلے ہی تھی…… یہ سوال سن کر ان کے چہرے پر شفق کی لالی پھیل گئی اور جب انہوں نے تبسم کیا…… تو ان کے موتی جیسے دانت ہمیں اندھیرے اور روشنی میں ایسے لگے جیسے یکایک کہکشاں پھوٹ پڑی ہو…… ہم خوشی میں ان کے اور قریب آ گئے۔ انہوں نے چوکی پر رکھے ہوئے تکیہ سے پشت لگائی اور برابر رکھے ہوئے تکیے پر ہاتھ کا سہارا لیا…… اور بات شروع ہو گئی……
انہوں نے بتایا کہ انسان کی زندگی میں کوئی بھی عمل ہو…… کوئی بھی حرکت ہو…… کسی بھی تقاضے کی تکمیل ہو…… سوچ بچار ہو…… یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کو انفارمیشن ملتی ہے……
جس کو ہم عقل کہتے ہیں یہ بھی انفارمیشن کے تابع ہے…… یہ انفارمیشن کہاں سے آ رہی ہے…… اس کے بارے میں چھ ارب انسانوں میں سے کوئی ایک بھی لب کشائی نہیں کرتا……
ہر شخص کہتا ہے …… میں ہوں!…… پر وہ نہیں جانتا…… ’’میں ہوں!‘‘…… کیا شئے ہے؟……
ہر شخص اس بات کا دعویٰ کرتا ہے…… میں چلتا ہوں لیکن کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ چلنا پھرنا کیا چیز ہے؟……
بہت پڑھے لکھے لوگ بھی اس کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے امّاں ابا سے سنا کہ بچہ چلتا پھرتا ہے…… تو ہم نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ ہم چلتے پھرتے ہیں……
ماں بچوں کے پیچھے پیچھے کھانا لیے پھرتی ہے…… کبھی ڈانٹ ڈپٹ کے…… کبھی پیار سے…… کبھی بچے کی توجہ دوسری طرف مبذول کر کے…… منہ میں لقمہ ڈال دیتی ہے…… بچہ کھا لیتا ہے…… ایک لقمہ منہ میں لے کر بچہ کھیل کود میں مشغول ہو جاتا ہے…… ماں پھر بچے کے پیچھے پیچھے ہو لیتی ہے…… پیار کر کے…… خوشامد کر کے…… کسی چیز کا لالچ دے کر وہ بچے کا پیٹ بھر دیتی ہے…… بچہ اس عمل کو دیکھ کر کہتا ہے کہ میں کھانا کھاتا ہوں…… میں پانی پیتا ہوں…… میں نے دودھ پیا ہے……
میرے بچو!……
تم کیا سمجھے…… کہ اطلاع کیا ہے؟…… ابھی یہ مسئلہ باقی ہے کہ اطلاع کہاں سے آئی ہے…… لیکن بچے کے کھلانے پلانے کے عمل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انفارمیشن قبول کرنے کیلئے بھی بچے کو پریکٹس کرائی جاتی ہے۔
جب یہ پریکٹس پوری ہو جاتی ہے تو ماں کو بچے کے پیچھے پیچھے روٹی لے کر پھرنا نہیں پڑتا……
بچہ مانگ کر روٹی کھاتا ہے…… ذرا غور کرو!…… کہ دونوں عمل میں کتنا تضاد ہے…… کتنا فرق ہے…… یہ فرق اس لئے ہے کہ بچے اطلاع کو قبول کرنے اور استعمال کرنے کے عمل سے واقف ہو گئے ہیں…… لیکن ساری زندگی گزر جانے کے بعد بھی یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ خیال کہاں سے آتا ہے؟……
اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ خیالات میں لطافت ہوتی ہے اور خیالات میں کثافت بھی ہوتی ہے…… جب خیال یا اطلاع لطیف ہوتی ہے تو آدمی اس کی لطافت کو محسوس کر کے خوش ہوتا ہے اور جب خیال یا اطلاع میں کثافت ہوتی ہے تو آدمی کثافت کے اس بوجھ سے متاثر ہو کر بوجھل ہو جاتا ہے…… اور ناخوشی کا اظہار کرتا ہے……
جب کثیف خیالات کا دماغ کے اوپر ہجوم رہنے لگتا ہے تو آدمی اس ہجوم سے بچنے کیلئے طرح طرح کی تاویلیں کرتا ہے…… قیاس پر مبنی نظریات قائم کرتا ہے…… لیکن بات پھر وہیں آ کر رک جاتی ہے کہ قیاس پر مبنی نظریات بھی انفارمیشن میں معنی پہنانے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں……
میں نے پُرعزم اور پُروقار خاتون سے عرض کیا…… اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی زندگی دو دائروں میں سفر کر رہی ہے…… ایک دائرہ وہ ہے جہاں سے خیالات آ رہے ہیں اور دوسرا دائرہ وہ ہے جہاں خیالات میں معنی پہنائے جاتے ہیں……
منطقی دوست بولا…… اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خیالات کہاں سے آ رہے ہیں…… عقل ہمیں بتاتی ہے کہ ہم چل رہے ہیں…… ہم پھر رہے ہیں…… ہم کھا رہے ہیں……
تیسرا دوست جو ابھی تک خاموشی کے ساتھ گفتگو سن رہا تھا…… بولا…… یارو!…… کچھ سوچ کر بات کرو…… زندگی میں ہر شخص کے اوپر ایک وقت ایسا آتا ہے…… آنکھ، ناک، کان، زبان، ہاتھ، پیر سب موجود ہوتے ہیں…… لیکن آدمی!…… آدمی نہیں ہوتا…… اس آدمی کو سارا جہان مردہ کہتا ہے……
اگر ہم ہی چل رہے ہیں…… پھر رہے ہیں…… فلسفے اور منطق سے استدلال کر رہے ہیں تو اس حالت میں جس کو ہم مردہ ہونا کہتے ہیں…… یہ سب کیوں نہیں کرتے؟……
چوتھا دوست گویا ہوا…… اس طویل گفتگو کے نتیجے میں، میں اتنا سمجھا ہوں کہ جسمانی گوشت پوست کا بنا ہوا آدمی معمول کے علاوہ کچھ نہیں اس کے اوپر کوئی عامل غالب ہے…… جو اس کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتا ہے…… کھلاتا ہے…… پلاتا ہے اور جذبات و احساسات اس کے اندر داخل کرتا ہے اور تسکین کیلئے جذبات و احساسات کی تکمیل کرتا ہے……
ہم چاروں دوستوں کے مختلف طرز بیان سے معزز خاتون امّاں…… بہت خوش ہوئیں…… انہوں نے مامتا کی نظر سے ہم سب کو دیکھا…… اور کہا بچو!…… رات بیت گئی ہے…… سحر ہونے کو ہے…… چاندنی معدوم ہو رہی ہے…… اب تم سو جاؤ……
یہ بات سن کر ہم اس طرح چونک پڑے جیسے ہمیں کسی نے خواب غفلت سے بیدار کر دیا ہے…… ہم سب سعادت مند اولاد کی طرح نرم و گرم لحافوں میں گھس گئے اور لیٹتے ہی سو گئے……
دن میں سو کر اٹھے تو ناشتہ تیار تھا……
ناشتہ کر کے پھر مجلس جم گئی!……
ہمارے منطقی دوست نے عرض کیا…… امّاں!…… وہ کون سا عمل اور تدبیر ہے…… جس سے ہمیں معلوم ہو جائے کہ خیالات کہاں سے آتے ہیں…… اور جب خیالات کہیں سے آتے ہیں تو لامحالہ یہ بات ماننی پڑے گی کہ کہیں Source of Informationبھی ہے!……
وہ کہاں ہے؟…… کیسے پتہ چلے؟…… ہمیں کون بتائے گا؟……
منطقی دوست کی یہ خود سپردگی اور بے قراری دیکھ کر ہم سب حیران ہو گئے……
لیکن اماں کے اوپر سکون اور اطمینان کا نور پھیل گیا……
انہوں نے کہا…… بیٹا!…… دنیا میں موجود ہر آدمی جو ہمیں نظر آتا ہے وہ نہیں ہے…… ہر آدمی ایک اور انسان کے کنٹرول میں ہے…… اور یہ انسان اطلاعات کے Networkپر قائم ہے…… اور اطلاعات کا Sourceقدرت ہے……
نقلی آدمی کے اوپر اصل انسان کا کھوج لگانا اس طرح ممکن ہے کہ آدمی ظاہری زندگی میں رہتے ہوئے باطنی زندگی کا مطالعہ کرے…… باطنی زندگی کے School of Thoughtکو تصوف کہتے ہیں…… تصوف اس جذبۂ اخلاص کا نام ہے جو ضمیر سے متعلق ہے اور ضمیر نورِ باطن ہے……
ہر دور میں فلسفی موشگافیاں کرتے رہے…… لیکن کوئی حتمی نتیجہ مرتب نہیں کر سکے……
قیاسات اور مفروضہ تاویلات کو جتنی زیادہ سلجھانے کی کوشش کی گئی…… الجھاوا بڑھتا رہا……
سائنس بھی ایک فلسفہ ہے…… فلاسفہ اور سائنسدانوں کے بیان میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے…… جس طرح فلسفی کوئی بات کہتا ہے اور اس کو ثابت کرنے کیلئے ہزاروں دلیلوں کا سہارا لیتا ہے اور ہر دلیل دوسری دلیل کی محتاج ہوتی ہے…… اسی طرح سائنسدان جو کچھ کہتا ہے…… وہ نہیں جانتا…… نہیں مانتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں…… حالانکہ سائنسی تجربات جو انسانوں کی محنت اور مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہیں…… برابر اس کی رہنمائی کر رہے ہیں کہ یہ سب اطلاعات یا انفارمیشن کا مظاہرہ ہے……
اور اطلاعات کے اوپر کسی سائنٹسٹ، کسی فلسفی یا کسی انسان کی ہرگز اجارہ داری نہیں ہے……
اطلاعات کا علم جاننے کیلئے اطلاعات کا استعمال سیکھنے کیلئے انسانی معاشرے کے پاس ایک ہی یقینی ذریعہ ہے…… اور وہ ذریعہ قرآن ہے……
قرآن پاک اپنے بارے میں خود بتاتا ہے کہ میں علم کی دستاویز ہوں……
علم تین ابواب پر مشتمل ہے……
۱…… انسان کو معاشرے میں کس طرح رہنا ہے اور معاشرے کو کن خطوط پر چلانا ہے…… معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے حقوق کی کس طرح پاسداری کرنی ہے…… معاشرے میں کون سے قانون رائج کرنے ہیں جن کے نفاذ سے زمین پر سے فساد ختم ہو جائے اور امن قائم ہو جائے……
۲…… قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں ہر شخص کے سامنے ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو کسی بھی نظریئے پر قائم ہو یا قائم نہ ہو اگر اس کا تعلق انسانی برادری سے ہے…… اگر وہ انسانی برادری کے رجحانات سے متفق ہے…… اور خود کو انسانی برادری کا فرد سمجھتا ہے…… تو وہ جانتا ہے کہ جب قومیں خود غرض ہو جاتی ہیں تو قدرت انہیں مٹا دیتی ہے…… اور جب قومیں اپنے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں اور دوسرے کے حقوق میں قدغن نہیں لگاتیں…… وہ قومیں عروج یافتہ ہوتی ہیں……
۳…… ہر انسان چاہے وہ کتنا ہی کم فہم، کم دانش ہو…… اس کیلئے یہ سوالیہ نشان موجود ہے کہ پیدا ہونے سے پہلے میں کہاں تھا؟…… جس طرح پیدا ہونا ایک روشن باب ہے اسی طرح مرنا بھی ایک مستقل سلسلہ ہے…… سوال یہ ہے کہ مرنے کے بعد میں کہاں چلا جاتا ہوں؟…… جب میں مرنا نہیں چاہتا تو کیوں مر جاتا ہوں؟……
بزرگ خاتون نے ہمارے سامنے میز پر بادام، پستہ، کشمش، خوبانی ایک بلوریں پلیٹ میں رکھ کر کہا…… بچو!…… یہ کھاؤ……
تھوڑی دیر کے بعد ہم اس بے مثال خوبصورتی کا پیکر، عظمت و بزرگی کا اظہار…… امّاں سے سلام کر کے رخصت ہو گئے……
اب ہمارا سفر برف پوش پہاڑوں کی چوٹیوں…… ویلیوں…… جھرنوں…… اور دریائے نیلم سے گزر کر ہوٹل کی طرف تھا……
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 205 تا 211
وقت؟ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔