قدریں
مکمل کتاب : وقت؟
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=19746
سائنسی افادیت کے پیش نظر دنیا جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے۔ عالمگیر انحطاط ہمارے سامنے ہے۔ عالمگیر انحطاط سے مراد یہ ہے کہ انسانی برادری میں موجود قدروں میں انحطاط واقع ہونا…… ہزاروں سال میں انسانی معاشرے کیلئے جو بات شرف کی حیثیت رکھتی ہے اس میں تغیر ہونا…… ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ دنیا تغیرات سے خالی ہے۔ دراصل تغیرات پر ہی دنیا قائم ہے لیکن تغیرات کی اپنی متعین سمتیں ہیں۔
۱۔ اخلاقی قدریں
۲۔ معاشرتی قدریں
۳۔ آزاد اور غلام قدریں
۴۔ جنسی قدریں
تاریخ انسانی نے اس بات پر سیر حاصل بحث نہیں کی کہ انسان اس دنیا میں کیوں آیا ہے؟…… کہاں سے آیا ہے؟…… اور پابند سلاسل رہ کر مسافر کی طرح کہا ں چلا جاتا ہے؟……
اتنی بات ہم جانتے ہیں کہ آدم و حوا زمین پر اترے…… اور دونوں سے نسلی سلسلہ شروع ہو گیا……
بتایا جاتا ہے کہ آدم جب زمین پر اترے تو ان کے اندر شعوری سکت اتنی تھی کہ انہوں نے غاروں میں رہنا پسند کیا۔پھر درختوں پر قیام ہوا…… اس کے بعد پتھروں کا زمانہ آیا…… آگ دریافت ہوئی…… دھاتوں کا علم ہوا…… بجلی بنی…… اس سب صورتحال کو ارتقا کا نام دیا گیا…… ارتقاء سے مراد یہ ہے کہ انسان نے حیوانیت کے راستے سے الگ اپنے لئے ایک راستہ منتخب کیا۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حیوانی اور انسانی تقاضوں میں یکسانیت ہے۔کھانا…… انسان بھی کھاتا ہے اور کھانا چوہے بھی کھاتے ہیں…… جنسی اختلاط حیوانوں میں بھی ہے اور انسانوں میں بھی ہے…… اخلاقی قدریں انسانوں میں بھی ہیں اور حیوانات میں بھی ہیں۔ بے حیائی، بے شرمی اگر حیوانات میں ہے تو انسانوں میں بھی ہے……
جب ہم کھانے کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے اندر اور حیوانات میں جو باہمی اشتراک ہے اس میں ہمیں شرم نہیں آتی…… لیکن جب انسان اپنے وضع کردہ خاص طریقے سے کھانا نہ کھائے تو اسے شرم آتی ہے……
یہی صورتحال نسل کشی میں ہے…… جنسی مباشرت کا عمل اگر حیوانات کی طرح کیا جائے تو باعثِ شرم ہے۔ وہی عمل انسانی اقدار کے تحت پردے کے پیچھے کیا جائے تو باعثِ شرم نہیں ہے۔لیکن عمل کا نتیجہ دونوں صورتوں میں یہی ہے کہ حیوان کی بھی نسل چلتی ہے اور انسان کی بھی نسل آگے بڑھتی ہے۔حیوانی وظائف کو مصنوعی طور پر مخفی کرنے کا نام وقار ہے…… عزت ہے…… اور شرف ہے……
انسانی بچہ جیسے ہی دنیا میں آتا ہے، سب سے پہلے اس بات پر توجہ دی جاتی ہے کہ اس کی ستر پوشی کی جائے جیسا کہ بچہ خود یہ نہیں چاہتا کہ اس کی ستر پوشی کی جائے…… ستر پوشی کا یہ عمل اتنا زیادہ دقیق ہوتا ہے کہ ماں، باپ، بہن، بھائی اور خاندان کا ہر فرد مسلسل بچے کی توجہ اس طرف مبذول کراتے رہتے ہیں کہ ستر پوشی ضروری ہے…… ایسا لگتا ہے زندگی کا مقصد ہی ستر پوشی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ بچے کے شعور میں ستر پوشی کا ایک ایسا پیٹرن تشکیل پا جاتا ہے کہ وہ ستر پوشی کو اپنا شرف سمجھنے لگتا ہے جبکہ ستر پوشی سے زندگی کی تکمیل ہوتی ہے اور نہ زندگی آگے بڑھتی ہے……
بول و براز کے اعضا ستر پوشی کے زمرے میں آتے ہیں…… حیوانات بول و براز کرتے ہیں تو ان کو شرم و حیا سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا اور جب انسان بول و براز کے اعضا کو پردے میں چھپا کر وہی عمل کرتا ہے جو حیوانات کرتے ہیں تو یہ حیا ہے…… شرم ہے اور انسانی شرف ہے…… اور یہ سب اس لئے ہے کہ نوع انسانی کے افراد نے جب خود کو حیوانات سے ممتاز کرنا چاہا تو اپنے اوپر پابندیاں عائد کیں…… اور ان پابندیوں میں پیدائشی پابندی ستر پوشی قرار پائی…… جہاں تک شرم و حیا کا تعلق ہے۔ بن مانس میں بھی شرم و حیا ہے…… ان کے ہاں مہمان نوازی بھی ہے ان کے ہاں جنسی اختلاط میں حیا اور شرم بھی پوری طرح موجود ہے۔
آج کی دنیا میں بداخلاقی کے شعبے میں سب سے بڑا گراف جنسی آزادی کا ہے…… جو ایک عالمگیر وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جنسی آزادی کا رویہ انسان کے لئے اس کی آزادی کا مظہر ہے…… ماہرین اخلاقیات کہتے ہیں کہ جنسی آزادی انسانی معاشرے کیلئے بگاڑ ہے…… اس سے انسانیت کی درجہ بندی کو نقصان پہنچتا ہے…… کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ انسانی زندگی میں اگر محدودیت غالب ہے تو انسان کبھی لامحدود دائرے میں داخل نہیں ہو سکتا…… ایک محدود شئے لا محدود شئے سے کس طرح ہم وصف ہو سکتی ہے؟
یہی صورتحال اخلاقی پستی کی ہے……
اخلاقی پستی سے مراد انسانی برادری میں جو تعینات ہیں ان پر عمل کرنا…… مثلاً کسی کی حق تلفی نہ کرنا…… کسی کو نقصان نہ پہچانا…… کسی کے مال میں اصرافِ بے جا نہ کرنا…… کسی کے گھر کو اپنا گھر نہ سمجھ لینا…… وغیرہ۔ اس اخلاقی رویئے پر بھی اگر غور کیا جائے تو موجودہ ترقی یافتہ دور میں ہمیں انحطاط کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا……
بلاشبہ زندگی گزارنے کیلئے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے…… ضرورت الگ چیز ہے اور وسائل کو زندگی کا مقصد بنا لینا بالکل الگ بات ہے…… اس رویئے پر غور کیا جائے تب بھی ہمیں مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا…… ہر وہ فرد یا ہر وہ گروہ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے…… وہ دوسروں کو چوپایوں کی طرح ہانک رہا ہے…… ہر وہ گروہ جس نے چالاک ذہنی…… عیاری…… مکاری اور فریب سے وسائل پر قبضہ کر لیا ہے…… اس نے اقوام پر اس طرح تصرف کیا ہوا ہے کہ پوری پوری قومیں بھیڑ بکریوں کی طرح اس کے سامنے بے بس ہیں……
دانشوروں کا یہ بھی خیال ہے کہ سائنس اور مذہب دونوں الگ الگ نہیں ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے…… اگر سائنس نے مذہب پر دست درازی کی تو مذہب کا کچھ نہیں بگڑے گا سائنس ختم ہو جائے گی…… دوسری طرف مذہبی اقدار کے حامی لوگ یہ کہتے ہیں کہ مذہب کو اگر سائنس کے ساتھ متوازن نہیں کیا گیا تو مذہبی اقدار اتنی معدوم ہو جائیں گی کہ مذہب کا کوئی نام لیوا نہیں ہو گا۔
اس کی مثال وہ یورپ سے دیتے ہیں……
یورپ میں مذہب کی صورتحال یہ ہے کہ اب وہاں کے مذہبی دانشوروں نے یہ طے کیا ہے کہ چرچوں میں گانا بجانا کیا جائے تا کہ لوگ رقص و سرور کی محفل میں آکر ہی اللہ تعالیٰ کا نام سنیں اور شاید اس طرح بے آباد گرجے آباد ہو جائیں……
تعلیمی معیار بھی ایک اخلاقی ضرورت ہے۔ جس قوم میں تعلیم نہیں ہو گی وہ قوم حیوانات سے بھی بدتر ہو جاتی ہے اس کے اندر سے انسانی زندگی کا وصف ’’آزادی‘‘ مفقود ہو جاتا ہے……
ایسی قومیں احساس کمتری کے گڑھے میں جا گر جاتی ہیں جہاں سے نکلنے کا کوئی دروازہ نہیں ہے……
ہم جب ابتدائے آفرینش سے اب تک کے گزرنے والے واقعات کا کھوج لگاتے ہیں تو ہمیں تہذیبوں کے فروغ اور عالمگیر وسعت کے نشانات ملتے ہیں…… انسانی دنیا تباہ و برباد ہوتی رہی…… اور انسانی دنیا فروغ پاتی رہی…… اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بات امر مسلمہ ہے کہ انسان کے اندر یہ صلاحیت ودیعت کر دی گئی ہے کہ جب وہ اپنی کمزوریوں کی بناء پر تباہ و برباد ہو جاتا ہے تو ان تباہیوں و بربادیوں سے وہ نکل بھی آتا ہے……
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مزید سائنسی ترقی سے ایک دن ایسا آئے گا کہ دنیا سے تباہ کاریاں ختم ہو جائیں گی…… یہ ایک ایسی پُرفریب بات ہے کہ جس کے جواب سے عقل قاصر ہے…… کوئی سائنسدان جب ایک ایٹم بم سے تین لاکھ آدمیوں کو مارنے کا سامان فراہم کرتا ہے اور ستر ہزار ایٹم بم اور اس سے بھی زیادہ بڑے مہلک ہتھیار بنا رہا ہے تو وہ یہ کیسے کہتا ہے کہ سائنسی ترقی سے دنیا کی تباہ کاریاں ختم ہو جائیں گی؟……
جبکہ سائنسی طور پر ترقی یافتہ قوموں کی جانب سے لگایا جانے والا دنیا کی فلاح و بہبود کا نعرہ خودستائی اور خود نمائی ہے…… سائنس کی ہر ترقی کے پیچھے مالی منفعت ہے…… ڈراوا ہے…… اور تباہ کن اسلحہ جمع کر کے ساری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھنا ہے……
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ ہے کہ شہروں کی آبادی میں اضافہ ہو جائے گا…… زمین پر بلند و بالا اور فلک بوس عمارتیں بن جائیں گی……
آج ساری دنیا میں شہر مسائل کا گہوارہ ہیں۔ ہر آن اس گہوارے سے پیچیدہ اور گھمبیر مسائل پیدا ہو رہے ہیں…… مثلاً ناکافی آب رسانی…… ناگفتہ بہ سڑکوں کی حالت…… کوڑے کرکٹ کے ڈھیر…… سبزے کی قلت…… بھیڑ بھاڑ…… ماحول کی آلودگی…… اور سب سے بڑا مسئلہ انسانیت سے دوری…… یہ مسائل بذات خود وبائیں پھوٹ پڑنے کی صورت ہیں۔ اس دنیا کا ہر بڑا شہر ٹوکیو…… لندن…… نیویارک…… ممبئی…… کلکتہ…… کراچی محدّب شیشے میں زندگی کی بربادیوں کو نمایاں کرنے کا مظہر ہیں…… پلوشن اور ناقص انتظام کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں…… کینسر…… گردوں کا ناکارہ ہونا…… ہیپاٹائٹس بی اور سی…… دمہ…… اور اس قبیل کی سینکڑوں بیماریاں…… ہماری توجہ اس طرف مبذول کراتی ہیں کہ ٹی وی…… کمپیوٹر…… لاسلکی نظام…… موبائل فون…… ایٹم بم…… میزائل…… جاسوسی کرنے والے مواصلاتی سیارے نوع انسانی کے مسائل کا حل نہیں ہیں…… انسانی برادری اذیت ناک مراحل سے گزر کر اب اس تکلیف میں مبتلا ہے جس تکلیف کا نام نزع ہے…… اس کے بعد موت ہے…… انسان جو کھلی زمین پر جھلمل کرتے ستاروں کے نیچے رہتا تھا اسی انسان کو اب کبوتروں کے کابک کی طرح بلند و بالا فلیٹوں میں بند کر دیا گیا ہے۔حفظانِ صحت کے ان اصولوں کو جو صاف ستھری ہوا…… کھلی آکسیجن…… اور صاف پانی پر قائم ہیں پامال کر دیئے گئے……
قلتِ زمین کا نعرہ لگا کر اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ کم سے کم رقبے میں رہائش مجبوری ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے…… قلتِ زمین نہیں ہے…… یہ سارا فساد تبادلۂ آبادی کا ہے…… کہ لوگ کھلی زمینوں سے مہاجرت کر کے شہروں کا رُخ کر رہے ہیں۔
یہ ساری روئداد میں نے لکھی…… آپ نے پڑھی…… اس کا نتیجہ کیا نکلا؟……
یہ وقت گھنٹی بجا کر آپ کو، مجھے اور نوع انسانی کو بتا رہا ہے کہ ابھی سوچنے سمجھنے کا وقت ختم نہیں ہوا۔ انسان کو اپنی شناخت کرنا ہو گی…… انسانی شناخت محض ستر پوشی نہیں ہے…… انسانی شناخت محض مختلف طریقوں سے کھانا کھانا نہیں ہے…… انسانی شناخت مال و دولت کے انبار جمع کرنا نہیں ہے…… انسانی شناخت یہ نہیں ہے کہ انسان دو پیروں، دو ہاتھوں سے چلتا ہے اس لئے کہ اگر انسان کے دو پیر نہ ہوں یا دو ہاتھ نہ ہوں تو وہ چل نہیں سکتا جس طرح ایک کبوتر دو پیروں اور دو پَروں کے بغیر چلتا نہیں…… اُڑتا نہیں…… جس طرح ایک چوپایہ چار پیروں کے بغیر چلتا نہیں ہے۔
انسانی شناخت محض تھوڑی سی اضافی عقل نہیں ہے کہ انسانی شرف کے نام پر مہلک ہتھیار بنائے جائیں اور اس کی حرکت سے درندے شرمائیں…… کسی شیر نے زمین کی تاریخ میں اپنی شیر برادری کیلئے مہلک ہتھیار بنائے…… کسی بھی چالاک لومڑی نے اپنے چالاک ذہن سے اپنی برادری کو غلام بنایا……
انسانی شناخت یہ ہے کہ گوشت پوست کے انسان کو چلانے والی ایک مخصوص صفت ہے…… اور یہ مخصوص صفت سراپا خدوخال ہے…… یہ خدوخال بالکل اس طرح کے خدوخال ہیں جس طرح جسمانی وجود اعضاء اور خدوخال سے آراستہ ہے۔ اگر انسان اپنے وصف سے یعنی اپنی روح سے واقف ہے تو اس کے اوپر واضح ہو جاتا ہے کہ روح جو فی الوقت حرکت ہے…… روح جو فی نفسہ زندگی ہے…… روح جو درحقیقت ارتقا ہے…… اس میں خود غرضی نہیں ہوتی…… اس میں کبر نہیں ہوتا…… اس میں پوری برادری کو غلام بنانے کا تقاضہ نہیں ہوتا…… سائنس اور مذہب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سائنس مختلف ذرائع سے…… پُرپیچ طریقوں سے…… مکر و فریب سے…… زر و جواہرات اکٹھا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ جس میں ذاتی غرض اٹھانوے فیصد اور عوام الناس کا فائدہ دو فیصد ہے…… مذہب ان قدروں کو اجاگر کرتا ہے جو قدریں انبیاء علیہم السلام سے نوع انسانی کو ورثے میں ملی ہیں…… انبیاء کی طرز فکر رہنمائی کرتی ہے کہ روح کے تابع انسان میں دو فیصد غرض اور اٹھانوے فیصد ایثار و خلوص ہوتا ہے……
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 145 تا 150
وقت؟ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔