دماغ

مکمل کتاب : وقت؟

مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی

مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17614

آدمی جب سوچتا ہے اور سوچ کے ڈانڈے ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو اس پر بہت سی ایسی باتیں عیاں ہوتی ہیں جن کے بارے میں سوچنے والا خود حیران رہ جاتا ہے۔
آدمی اگر نہ سوچے تو ساری زندگی گزر جاتی ہے اور اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ سوچ کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ جتنا زیادہ آدمی غور و فکر کرتا ہے اسی حساب سے دماغ کے اندر خلئے کھل جاتے ہیں اور ان خلیوں کے کھلنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ سائنس دان بتاتے ہیں کہ انسانی دماغ ایک ایسا کمپیوٹر ہے جس میں کھربوں چپس فٹ ہیں…… اس دنیا کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکی، کوئی کہتا ہے دنیا کھربوں سال پرانی ہے۔کوئی کہتا ہے ڈھانچہ دستیاب ہوا ہے جو کروڑوں سال پرانا ہے، کہیں سے آواز آتی ہے کہ دنیا لاکھوں سال پرانی ہے اور جب دنیا کی تاریخ زیر بحث آتی ہے تو اعلیٰ دماغ لوگ کہتے ہیں کہ پانچ ہزار سال سے زیادہ دنیا کی تاریخ پرانی نہیں ہے۔ لیکن یہ پانچ ہزار سال کی تاریخ بھی ہمیں کہیں محفوظ نظر نہیں آتی۔
حد یہ ہے کہ اگر ہم دو ہزار سال سے زیادہ کی بات کرتے ہیں تو اس پر بھی ہمیں قبل مسیح کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔دو ہزار قبل مسیح، تین ہزار قبل مسیح۔ چھ ہزار قبل مسیح۔ ہمارے پاس کوئی ایسی مستند بات نہیں ہے کہ جس سند کی بنیاد پر زمین کی عمر اور انسان کی تاریخ کا تعین کر سکیں۔جب نظریات کے اوپر غور و فکر کرتے ہیں۔ ہر نظریہ کسی دوسرے نظریے سے دست و گریباں نظر آتا ہے۔کروڑوں سال کی دنیا میں چند نام ایسے ہیں جو نظریات کے ستون سمجھے جاتے ہیں لیکن ہر نظریہ کچھ دور چل کر دوسرے نظریہ کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
ہر زمانے میں ایجادات ہوتی رہی ہیں ان ایجادات کی بنیاد پر یہ کہا گیا ہے کہ دنیا نے بہت ترقی کر لی ہے لیکن ایک دن ایسا آتا ہے یہ ساری ترقیاں اس طرح پردے میں چلی جاتی ہیں کہ ان کا تذکرہ تو رہتا ہے وہ ایجادات سامنے نہیں رہتیں۔
تفکر کرنے کے بعد جب یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ ترقی بھی دراصل Repeatationکے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ پہلے کبھی کسی زمانے میں اڑن کھٹولے ہوتے تھے۔ آج بھی اڑن کھٹولے Aeroplaneکے نام سے معروف ہیں۔
ہزاروں سال پہلے بھی کرشن جی کے دور میں آشوک چکر ہوتا تھا اس کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ جب اسے چلایا جاتا تھا تو وہ خلا میں رک کر گھومتا تھا اس چکر کے گھومنے کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کے اندر سے Raysنکلتی تھیں۔وہ Raysاتنی زیادہ تیز اور گرم ہوتیں کہ زمین کے جس حصے پر چکر گھومتا تھا تو زمین کے اندر معدنیات پگھل جاتی تھیں۔ اور زمین تانبے کی طرح بن جاتی تھی۔آج چکر کی شکل تبدیل ہو گئی ہے نامعلوم اس کا نام ایٹم بم، ہائیڈروجن بم، نیپام بم اور کیا کچھ رکھ لیا گیا ہے۔
یہ بھی عجیب منطق ہے کہ نوع انسانی کی ترقی میں نوع انسانی کو سکون کم ملا ہے اور پریشانیوں، نئی نئی بیماریوں، الجھنوں اور دماغی انتشار سے اس کا مقدر تاریک ہو گیا ہے۔ آج کے دور میں جتنا آسائش وآرام کا سامان زیادہ ہے۔ اتنا انسان پریشان حال اور برباد ہے…… اس بربادی نے عقل وشعور پر پہرے بٹھا دیئے ہیں۔
ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مریض علاج کیلئے معالج کا محتاج ہوتا ہے لیکن اس کارخانہ گیتی میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک معالج جسے علاج پر پورا عبور ہوتا ہے تجربہ یہ ہوا ہےکہ جب وہ کسی پیچیدہ مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ کسی دوسرے معالج کا محتاج ہوتا ہے۔ ہم بہترین دو تصویریں بناتے ہیں ایک مؤنث ایک مذکر لیکن دونوں تصویروں کے ملاپ سے تسکین حاصل نہیں ہوتی۔

اگر سمندر کا پانی میٹھا ہوتا تو کیا سارا سمندر سڑ نہیں جاتا۔ اگر جما ہوا برف اپنے وزن کے اعتبار سے پانی کی تہہ میں چلا جاتا تو سمندر میں اٹھنے والی لہریں ختم ہو جاتیں اور جب سمندر سے اٹھنے والی لہریں ختم ہو جاتیں تو پانی کے آبی بخارات نہ بنتے…… جب آبی بخارات نہ بنتے تو ہوا انہیں اٹھا کر فضا میں نہ لے جاتیں…… اور جب ہوا انہیں اٹھا کر فضا میں نہ لے جاتی تو بادل نہ بنتے…… بادل نہ بنتے تو اونچے اونچے پہاڑوں پر بارش نہ برستی…… اور بارش نہ برستی تو آبشاروں کا نظام ختم ہو جاتا…… اور جب آبشاروں کا نظام ختم ہو جاتا تو دریا سوکھ جاتے اور جب ندی نالے ویران ہو جاتے…… تو زمین کی کوکھ اجڑ جاتی۔
’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا اور آسمان کو چھت بنایا اور اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے تمہیں رزق بہم پہنچایا۔‘‘
(سورۃ البقرہ۔ آیت 22)
’’وہی جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے ہر قسم کی نباتات اگائیں اور پھر اس کے ذریعے ہرے ہرے کھیت اور درخت پیدا کیے پھر ان پر تہہ در تہہ جڑے ہوئے دانے نکالے اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے پیدا کئے جو بوجھ سے جھکے پڑتے ہیں اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے بھی ہیں لیکن ہر ایک خصوصیت الگ الگ ہے…… ان چیزوں میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو یقین رکھتے ہیں یعنی مشاہداتی نظر کو استعمال کرتے ہیں۔‘‘
(سورۃ الانعام۔ آیت 99)

ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ترقی کا دارومدار بھی اس بات پر ہے کہ انسانی دماغ کے خلیے کھلے ہوئے ہیں…… دماغ کے کھربوں خلیوں کے بارے میں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ خلیے کسی انسان کی ایجاد ہیں ایجادات کا سہرا تو انسان بڑے فخر کے ساتھ، غرور و تمکنت کے ساتھ اپنے ماتھے پر سجا لیتا ہے لیکن وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ دماغ کے کھربوں خلیوں میں سے صرف ۵ فیصد خلیے کھلے ہوئے نہ ہوں تو دنیا میں کوئی ترقی نہیں ہو سکتی۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اس میں لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں اور تمہارے چوپاؤں کے پیٹوں میں جو گوبر اور جو خون ہے۔ اس کے بیچ سے نکال کر اللہ تمہیں دودھ پلاتا ہے، جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے۔‘‘
(سورۃ النحل۔آیت 66)

جو لوگ عقل و فکر سے کام لیتے ہیں سوچ بچار کرتے ہیں ان کے لئے ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں موجود ہیں۔
نوع انسانی کو اس وقت تک سکون میسر نہیں آ سکتا جب تک اس کی سوچ یہ نہیں ہوتی کہ ایجادات کے پس پردہ جو دماغ کام کر رہے ہیں وہ دماغ کس نے بنائے ہیں اور جب دماغ بے جان ہو جاتے ہیں ان سے کوئی ایجاد واقع کیوں نہیں ہوتی؟

یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 87 تا 89

سارے دکھاو ↓

براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔

    Your Name (required)

    Your Email (required)

    Subject (required)

    Category

    Your Message (required)