سسٹم
مکمل کتاب : وقت؟
مصنف : خواجہ شمس الدین عظیمی
مختصر لنک : https://iseek.online/?p=17598
دنیا میں جتنے بھی علوم رائج ہیں….. مثلاً ریاضی، کیمسٹری، فزکس، طب، آسٹرونومی، جیولوجی، فزیولوجی، سائیکالوجی…… سائنس اور سائنس سے Relatedبہت سارے سائنسی علوم…. ماس کمیونیکیشن…… ریکی…… ٹیلی پیتھی…… ادب اور شاعری…… وغیرہ وغیرہ……
کسی بھی علم کو جب ہم سیکھنا چاہتے ہیں تو اس میں وقت ضرور لگتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا اور آئندہ ہونے کی کوئی امید بھی نہیں ہے کہ کسی علم کو پانی میں چینی گھول کر شربت کی طرح پلا دیا جائے…… شربت بنانے میں دو تین منٹ ضرور لگتے ہیں… اگر ہم شربت بنانے کے بارے میں سوچ بچار کریں تو سطحی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ہم نے دو منٹ میں شربت بنا کر پی لیا ہے……
شربت کیسا بنا؟…. شربت کن چیزوں سے بنا؟…… اور شربت کے لوازمات جمع کرنے کے پیچھے کتنا زمانہ لگا، یہ ایک پورا سسٹم ہے!….
کسان نے زمین میں کھیت بنایا، کھیت میں پانی دیا….. ہل چلایا اس کے بعد گنا بویا…… پانچ چھ مہینے میں گنے بڑے ہوئے…… اور زمین سے رس چوس کر اپنے اندر جمع کیا…. کسان نے گنے کاٹے…… وہاں سے وہ بیلنے پر گئے…… ان کا رس نکلا، رس کو بڑے بڑے کڑھاؤ میں پکایا گیا…… پکانے کے بعد اس رس کو گھوٹا گیا…. اور گڑ بنا……
کسان بیل گاڑیوں، ٹرکوں پر لاد کر گنے کو شوگر مل میں لے گئے…… شوگر ملوں نے گنوں کا رس نچوڑا…. رس کو کیمیکل کی آمیزش سے چینی بنایا…. چینی بوریوں میں بھری گئی…… کارخانے سے ان بوریوں کو ٹرکوں نے اٹھایا…… چینی منڈی آئی…… آڑھتی کے پاس سے خوردہ فروش ان بوریوں کو خرید لائے…… میں، آپ، زید، بکر….. دکان میں گئے…… دکان سے چینی خریدی…… چینی کے دو چمچ ایک گلاس پانی میں ڈال کر چینی کو پانی میں حل کیا اور شربت بنا…… یہ شربت میں نے، آپ نے یا زید، بکر نے پی لیا……
ابھی بات ختم نہیں ہوئی……
شوگر ملیں لوہے سے بنیں…… لوہے کو پگھلا کر کاسٹ آئرن بنا…… کاسٹ آئرن کو بھٹیوں میں پگھلا کر ڈائیوں میں ڈالا گیا…… ڈائیوں سے کل پرزے بنے، انجینئروں نے ان کل پرزوں کو جوڑ کر مشینیں بنائیں!…. مشینیں بجلی کی طاقت سے چلتی ہیں…… بجلی نے بیلنوں(Roller) کو حرکت دی…… بیلنوں نے گنوں کا رس نچوڑا……
بات ابھی بھی ختم نہیں ہوئی……
کسان اگر زمین میں پانی نہ دیتا تو گنوں میں رس نہیں بھرتا……
پانی دریاؤں سے نہروں میں آیا اور نہروں سے واٹر کورس کے ذریعے کھیتوں میں منتقل ہوا…… اونچے اونچے پہاروں پر بارش برسی، آبشاریں گریں، آبشاروں نے لبالب دریاؤں کو بھر دیا…… دوسری طرف پہاڑوں پر برف گری…… کئی کئی فٹ برف نے پہاڑوں کی چوٹیوں کو ڈھانپ لیا…… گرمی پڑی…… سورج کی تپش سے برف پگھلی…… دریاؤں اور نہروں میں پانی آیا……
ایک اور منظر ہر آنکھ کے سامنے آتا ہے…… سمندر میں مدوجزر ہوتا ہے…… اس مدوجزر سے بیس بیس چالیس چالیس فٹ لہریں اٹھتی ہیں…… یہ لہریں جوش و خروش کے ساتھ گلے ملتی ہیں اور ہر لہر جوش میں، خوشی میں گلے مل کر بکھر جاتی ہے…… لہروں کے ٹوٹنے اور بکھرنے سے بخارات بنتے ہیں…… ان بخارات کو ہوا اپنے دوش پر لے کر اڑتی ہے…… خلا میں پہنچتی ہے…… خلا میں آکسیجن کم ہونے کی وجہ سے یہ بخارات ذروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور یہ ذرات برف کی شکل میں تبدیل ہو کر دھنکی ہوئی روئی Snow Flakesکی طرح پہاڑوں پر گرتے ہیں۔
شربت بنانے کی بات ابھی بھی پوری نہیں ہوئی……
شربت بنانے کے جو لوازمات ہیں، ان کی تفصیل ابھی باقی ہے……
ڈیم میں پانی جمع ہوا…… سرنگوں کے ذریعہ پانی کو ٹربائن سے ٹکرایا گیا…… ٹربائن جب چلے تو اس کی تیز رفتاری سے حرارت پیدا ہوئی…… اس حرارت کو میگنٹ نے کیچ کیا اور اس ذخیرہ کو دوسری مشینوں کے ذریعہ بجلی بنایا گیا…… یہ بجلی بڑے بڑے پاور ہاؤسز سے گزر کر ہائی ٹینشن تک آئی، ہائی ٹینشن کے تاروں سے گرڈ اسٹیشن میں پہنچی…… وہاں سے پی ایم ٹی میں منتقل ہو کر بلبوں، ٹیوب لائٹس میں روشن ہوئی اور مشینوں میں حرکت بنی۔
کتنی معمولی بات ہے کہ میں نے شربت پیا ہے!……
اور کس قدر غور وفکر کی بات ہے کہ چینی کا شربت تو ایک یا دو منٹ میں تیار ہو گیا لیکن شربت بنانے کے جو لوازمات ہیں اس کے پیچھے پوری ایک داستان ہے!…… ایسی داستان کہ جس میں حقیقت چھپی ہوئی نظر آتی ہے…… اس بات کو ہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ ایک منٹ کے کام میں مہینوں کا زمانہ درکار ہے…… اس دنیا میں ہر آدمی لین دین اور حساب کتاب میں الجھا ہوا ہے…… میں نے یا آپ نے شربت کا ایک گلاس دو منٹ میں تیار کیا اور پی لیا…… دو منٹ کا یہ کام ہم نے اصل میں چھ مہینوں کا زمانہ صرف کر کے انجام دیا…… چھ مہینہ میں ایک سو اسّی (180) دن ایک سو اسّی (180) راتیں اور دو لاکھ انسٹھ ہزار دو سو (2,59,200) منٹ ہوتے ہیں۔اس بات کو ہم اس طرح بیان کریں گے کہ اگر ایک سو اسّی دن، ایک سو اسّی راتیں اور دو لاکھ انسٹھ ہزار دو سو منٹ نہیں گزرتے تو ہم شربت نہیں پی سکتے تھے……
دنیا میں کوئی ایک چیز ایسی نہیں جو وقت کے پیمانوں میں بند نہ ہو اور وقت کے پیمانوں سے آزاد ہو…… اگر کوئی چیز وقت کے پیمانوں سے آزاد نہیں ہے تو علوم وقت کے پیمانوں سے کیسے آزاد ہو سکتے ہیں؟…… یہ ساری باتیں جو مختلف زاویوں سے مختلف لوگ لکھتے ہیں یا مختلف عنوانات کے تحت بہت سارے لوگ تحریر میں لاتے ہیں یا مقرر حضرات اپنی تقریروں سے عوام کو سمجھاتے ہیں یہ سب انسان ہوتے ہیں……
چھ ارب انسانوں میں ایک آدمی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ آدمی پیدا ہوتا ہے!…. پیدائش کیلئے ضروری ہے، ایک مرد ہو، ایک عورت ہو…… عورت بھی پیدا ہوتی ہے، مرد بھی پیدا ہوتا ہے!…… جب یہ دونوں سولہ یا اٹھارہ سال کے ہوتے ہیں تو ان کی شادی ہوتی ہے…. شادی کے بعد نطفہ قرار پاتا ہے، پہلے مرحلے میں نطفہ ناقابل تذکرہ ہوتا ہے، اس کے بعد اس کی شکل مٹر کے دانے کے برابر ہو جاتی ہے…… مٹر کے دانے میں ریڑھ کی ہڈتی بنتی ہے… دماغ بنتا ہے…. مٹر کے دانے کے اندر سے ہاتھ پیر نکلتے ہیں… ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا ہے…. ہڈیوں کے پنجرہ میں قدرت دل، پھیپھڑے، گردہ، جگر وغیرہ لٹکا دیتی ہے اور اس بچہ کی نشوونما میں نو مہینے لگ جاتے ہیں…. نو مہینے کے بعد ایک خوبصورت تصویر ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے اور ہم اس خوبصورت تصویر پر فریفتہ ہو جاتے ہیں۔
قانون یہ بنا کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ وقت کے اندر بند ہے… کوئی بچہ وقت گزارے بغیر لڑکپن میں نہیں جاتا…. کوئی لڑکا یا لڑکی وقت گزارے بغیر جوان نہیں ہوتی… کوئی جوان آدمی وقت گزارے بغیر بوڑھا نہیں ہوتا اور کوئی بوڑھا وقت گزارے بغیر اس دنیا سے رخصت نہیں ہوتا….
بچہ جب پیدا ہوتا ہے، اس کے اندر شعور صفر کے برابر ہوتا ہے…… لیکن لاشعوری دنیا پوری طرح اس کے اندر موجود ہوتی ہے…… وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چھ ارب انسانوں کے شعور کی چھاپ مسلسل اس کے شعور پر پڑتی رہتی ہے، ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لاشعور صفر ہو جاتا ہے اور شعور کی دنیا بچہ کے اوپر غالب آ جاتی ہے، لاشعور کے نقوش بچہ کے اندر کیوں گہرے ہوتے ہیں اور شعور صفر کیوں ہوتا ہے؟…… اس کا جواب یہ ہے کہ بچہ لاشعوری دنیا یعنی عالم ارواح سے، شعور یعنی محدود دنیا میں آتا ہے…. یہ دنیا محدود ہے…. روحانی دنیا لامحدود ہے……
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ شعور کے پروان چڑھنے میں چورانوے لاکھ ساٹھ ہزار آٹھ سو (94,60,800) منٹ لگتے ہیں….. یعنی لاشعور سے دور ہونے کے لئے ایک مرد یا عورت کو کم سے کم اٹھارہ سال لگتے ہیں…
جہاں تک شعورو لاشعور، محدود و لامحدود، زمان و مکان کا تعلق ہے یہ صرف انسان کیلئے مخصوص نہیں ہے…. اللہ تعالیٰ کا قانون تمام مخلوقات کیلئے یکساں ہے… سب ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں… سب جوان ہوتے ہیں…. سب بوڑھے ہوتے ہیں اور سب شعوری دنیا سے Cut Offہو جاتے ہیں اور لاشعوری دنیا میں چلے جاتے ہیں……
جس طرح انسان کا بچہ وقت کے پیمانوں میں بند ہو کر زندگی گزارتا ہے، اس طرح ہر مخلوق وقت کے پیمانوں میں بند ہو کر زندگی گزارتی ہے… میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کسی بھی علم کو سیکھنے کیلئے یا زندگی کا کوئی بھی عمل کرنے کیلئے وقت کی پابندی ضروری ہے…… مجھ سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ روحانی علوم سیکھنے میں اتنی دیر کیوں لگتی ہے؟……
کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی مضمون پڑھتا چلا جاتا ہے…… مضمون میں ایسا Flowہوتا ہے کہ پڑھنے والے کی فہم اس کا ساتھ نہیں دیتی لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ پڑھنے والے میں سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے…. صلاحیت موجود ہے لیکن صلاحیت کے استعمال میں بھی وقت درکار ہے….
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:
اگر کوئی تحریر سمجھ میں نہ آئے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ مضمون قاری کی فہم اور بصیرت سے زیادہ ہے، کیونکہ مضمون کی نوعیت عام طرز بیان سے ذرا ہٹ کر ہوتی ہے، اس لئے مضمون کے معنی اور حکمت کا شعور پر وزن پڑتا ہے لیکن اگر اس مضمون کو ٹھہر ٹھہر کر سمجھ کر تین دفعہ یا پانچ دفعہ پڑھ لیا جائے تو مضمون کا پورا مفہوم مضمون کی پوری حکمت دماغ پر روشن ہو جاتی ہے….
یہ مضمون چھپی ہوئی کتاب میں ان صفحات (یا صفحہ) پر ملاحظہ فرمائیں: 69 تا 72
وقت؟ کے مضامین :
براہِ مہربانی اپنی رائے سے مطلع کریں۔